ماحولیاتی تبدیلیوں کا ایک نقصان ’مردانہ زرخیزی‘ کو بھی
25 نومبر 2018
ماہرین ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مردوں میں پیدا ہونے والے بانجھ پن پر تحقیق کر رہے ہیں۔ اس موضوع پر ابھی تحقیق بہت کم ہے، تاہم اس کے اثرات غیرمعمولی طور پر خطرناک ہو سکتے ہیں۔
اشتہار
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ماحولیاتی تبدیلیوں اور مردوں میں بانجھ پن کے درمیان تعلق ثابت ہوتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ مستقبل میں انسان بقا اور تنوع کے خاتمے جیسے مسائل کا شکار ہو سکتا ہے۔
مردوں کو معلوم ہے کہ تولیدی اعضاء کو شدید حدت سے خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ ایک دہائی سے زائد عرصے قبل ایک معروف باورچی گارڈن ریمسے نے عوامی سطح پر اعتراف کیا تھا کہ ایک طویل عرصے تک اور روزانہ کی بنیاد پر بہت دیر تک جلتے چولہوں کے قریب کھڑنے ہونے کی وجہ سے وہ بانجھ ہو چکے ہیں اور ان کے سپرم کی تعداد کم ہو چکی ہے۔ ’’مجھے خصیے جلتے محسوس ہوتے ہیں۔‘‘
بہت زیادہ دیر تک لیپ ٹاپ کے ساتھ رہنا، انتہائی درجہ حرارت والے ساؤنا یا گرم موبائل فون کو چست جینز کی جیبوں میں رکھنا آج کے مردوں میں بانجھ پن کی وجوہات میں شامل ہیں۔
ایک حالیہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے زمینی درجہ حرارت میں اضافے کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مردوں میں تولیدی نظام متاثر ہو اور انسان بقا کے خطرے سے دوچار ہو جائے۔
گرم علاقوں میں شرح پیدائش میں کمی
تولیدی اعضاء کو عمومی حدت کے خطرات سے بچانے کے لیے کچھ اقدامات کیے جا سکتے ہیں، تاہم سوال یہ ہے کہ اگر ماحول تبدیل ہو جاتا ہے اور زمینی حدت میں اضافہ ہوتا ہے، تو اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟
جانورں کی بڑے پیمانے پر اموات
جب ہزاروں جانور ایک ہی وقت میں ہلاک ہو جائیں، تو محققین زیادہ تر ایسی گتھی کو سلجھا لیتے ہیں۔ تاہم ایک بات تو طے ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں اور آلودگی ان ہلاکتوں کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Scorza
آکسیجن کی کمی
اس سال کے دوران ابھی تک دنیا بھر میں کئی مرتبہ بڑے پیمانے پر مچھیلوں کے ایک ساتھ مرنے کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ اس تصویر میں دکھائی دینے والی مچھلیوں کا وزن تینتیس ٹن کے برابر ہے۔ یہ واقعہ 2015ء میں برازیل کی ایک بہت بڑی جھیل میں پیش آیا تھا۔ رودریگو ڈے فرائتاس نامی یہ جھیل انتہائی آلودہ ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے مچھیلوں کو مناسب آکسیجن مہیا نہیں ہو پاتی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Scorza
نہ مچھلی، نہ پرندوں کے لیے خوراک
گزشتہ برس امریکی شہر سان فرانسسکو سے لے کر برٹش کولمبیا کے ساحلوں تک تقریباً دس ہزار سمندری پرندے اچانک مر گئے تھے۔ اس سال ایسا ہی ایک اور واقعہ بھی رونما ہو چکا ہے تاہم اس مرتبہ ان پرندوں کی بڑی تعداد الاسکا کے ساحلوں پر ہلاک ہوئی۔ محقیقن نے ایک وجہ پرندوں کی خوراک کی کمی کو قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق پانی کے درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ان پرندوں کی خوراک بننے والی مچھلیاں غائب ہو گئی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Thiessen
کچھوؤں میں انفیکشن
گرین سی ٹرٹل یا سبز پانی کے کچھوے بہت بڑی جسامت کے حامل ہوتے ہیں اور انہیں دنیا کے بڑے کچھوؤں میں شمار کیا جاتا ہے۔ گرین سی ٹرٹل ناپید ہونے کے خطرے سے بھی دوچار ہیں۔ آج کل یہ کچھوے ایک خاص قسم کے انفیکشن کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے یہ کچھوے کچھ کھا نہیں سکتے ہیں اور بہت مشکل سے ہی حرکت کر پاتے ہیں۔ ابھی تک یہ نہیں علم ہو سکا ہے کہ یہ انفیکشن اتنی تیزی سے کیوں پھیل رہا ہے۔
اس تھوتھنی والے ہرن نما جانور کو سیگا کہا جاتا ہے۔ محققین نے بتایا کہ گزشتہ برس کی ابتدا میں دنیا بھر میں سیگا کی نصف تعداد اچانک مر گئی تھی اور وہ بھی صرف دو ہفتوں کے دوران۔ اس رپورٹ کے مطابق یہ جانور ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہو رہے ہیں اور ایک سال میں ان کی نسل مکمل طور پر ختم ہو سکتی ہے۔ تاہم اس سال ابھی تک اس قسم کی کوئی خبر موصول نہیں ہوئی ہے۔
تصویر: Imago/blickwinkel
قیر ماہی بھی بھٹک رہے ہیں
جنوری 2004ء میں لاطینی امریکی ملک چلی کے ساحلوں پر ہزاروں قیر ماہی یا آکٹوپس راستہ بھٹک کر ہلاک ہو گئے تھے۔ اس واقعے نے رواں برس خود کو ایک مرتبہ پھر دہرایا ہے۔ محققین ان واقعات کی ذمہ داری بھی ماحولیاتی تبدیلیوں پر عائد کر رہے ہیں۔ تاہم دوسری جانب محققین تشویش کا شکار بھی ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں قیر ماہی کی ہلاکتوں کے واقعات پہلے کبھی سامنے آئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Stringer
ناقابل برداشت حدت
گزشتہ برس بھارتی شہر بھوپال میں اچانک بڑی تعداد میں چمگادڑیں مردہ حالت میں آسمان سے زمین پر گریں۔ اسی طرح 2014ء میں آسٹریلوی ریاست کوئنز لینڈ میں بھی ایک لاکھ سے زائد چمگاڈریں ملی تھیں۔ ان میں زیادہ تر تو مردہ تھیں جبکہ کچھ آخری سانسیں لے رہی تھیں۔ گرمی کے معاملے میں یہ پرندہ انتہائی حساس ہے اور بہت زیادہ درجہ حرارت اس کے لیے موت کا پروانہ ہے۔
تصویر: Berlinale
وہیل مچھلیوں کی اجتماعی ہلاکتیں
جرمنی ہو، امریکا ہو، نیوزی لینڈ یا پھر چلی۔ کئی دہائیوں سے ان ممالک میں متعدد وہیل مچھلیوں کی زندگی کا خاتمہ ساحلوں پر ہو رہا ہے۔ گزشتہ برس چلی کے ایک ساحل پر چار سو سے زائد وہیل مچھلیاں مردہ پائی گئیں۔ اسی طرح رواں برس اب تک شمالی یورپ کے ساحلوں پر انتیس وہیل مچھلیاں مردہ حالت میں مل چکی ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/C. Charisius
7 تصاویر1 | 7
رواں برس جولائی میں ماحولیاتی معیشت دان ایلن بیریکا نے اپنی ایک مطالعاتی رپورٹ میں کہا تھا کہ حدت کی لہر، جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے جڑی ہے، شرح پیدائش میں کمی کا سبب بن رہی ہیں، حالاں کہ سال کے گرم موسم میں جنسی سرگرمیوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یعنی زیادہ جنسی سرگرمی کے باوجود بچوں کی پیدائش میں کمی کا رجحان دیکھا گیا ہے۔
امریکا میں گزشتہ 80 برس کے اعداد و شمار بھی اس مطالعاتی رپورٹ کی تصدیق کرتے ہیں، جہاں اگست اور ستمبر میں بچوں کی شرح پیدائش میں اضافہ جب کہ زیادہ درجہ حرارت کے حامل موسم گرما کے مہینوں میں شرح پیدائش میں کمی ریکارڈ کی گئی۔