ماحولیاتی تبدیلیوں کے ذمہ دار صنعتی ممالک ہیں، میرکل
24 جنوری 2019
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے عالمی اقتصادی فورم کے موقع پر صنعتی ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ مل کر ماحولیاتی تبدیلیوں کے تدارک کے لیے اقدامات کریں۔
اشتہار
بدھ 23 جنوری کو سوئس شہر داووس میں عالمی اقتصادی فورم کے شرکاء سے خطاب میں چانسلر میرکل نے کہا کہ وہ اس بات پر مکمل یقین رکھتی ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیاں انسانی بقا کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں اور اس کے لیے مشترکہ اقدامات کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ صنعتی ممالک اس بات کی اہلیت بھی رکھتے ہیں اور ذمہ داری بھی کہ وہ ایسی ٹیکنالوجیز تیار کریں، جو دوسروں کے لیے بھی فائدہ مند ہوں۔ میرکل کا کہنا تھا کہ جرمنی ماحولیاتی تبدیلیوں کے تدارک کے لیے کام کرتے ہوئے اپنے ہاں کوئلے سے بجلی کی پیداوار کو بند کر رہا ہے اور اس کا انحصار اب گیس پر بڑھ رہا ہے۔
میرکل کا کہنا تھا کہ جرمنی میں گیس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے روس سے گیس حاصل کی جا رہی ہے، جب کہ مائع گیس کی ترسیل امریکا اور دیگر ممالک سے ہو گی: ’’اگر ہم کوئلے کے کارخانے بند کر رہے ہیں، جوہری کارخانے بند کر رہے ہیں، تو ہمیں عوام سے سچ بولتے ہوئے انہیں بتانا چاہیے کہ ہمیں مزید قدرتی گیس درکار ہو گی۔‘‘
ٹرمپ، اوباما، بُش: میرکل سبھی سے واقف ہیں
اضافی محصولات کا تنازعہ ہو یا پھر ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ، ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی کے ساتھ لڑائی کے راستے پر ہیں۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ڈونلڈ ٹرمپ کے سوا سب امریکی صدور سے دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ M. Kappeler
کیا ہم ہاتھ ملا لیں؟
مارچ دو ہزار سترہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی پہلی ملاقات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے انتہائی مہذب انداز میں ان سے پوچھا کہ کیا ہم صحافیوں کے سامنے ہاتھ ملا لیں؟ میزبان ٹرمپ نے منہ ہی دوسری طرف پھیر لیا۔ بعد میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں سوال سمجھ ہی نہیں آیا تھا۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
نا امید نہ کرو!
سن دو ہزار سترہ میں جی ٹوئنٹی اجلاس کے موقع پر انگیلا میرکل نے بہت کوشش کی کہ ٹرمپ عالمی ماحولیاتی معاہدے سے نکلنے کی اپنی ضد چھوڑ دیں۔ مگر ایسا نہ ہو سکا اور اس اہم موضوع پر ان دونوں رہنماؤں کے اختلافات ختم نہ ہوسکے۔
تصویر: Reuters/P. Wojazer
قربت پیدا ہو چکی تھی
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور سابق امریکی صدر باراک اوباما ایک دوسرے پر اعتماد کرتے تھے اور ایسا باراک اوباما کے بطور صدر الوداعی دورہ جرمنی کے دوران واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا تھا۔ باراک اوباما کے دور اقتدار کے بعد امریکی میڈیا نے جرمن چانسلر کو مغربی جمہوریت کی علامت اور ایک آزاد دنیا کی علمبردار قرار دیا تھا۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
اعلیٰ ترین اعزاز
جون دو ہزار گیارہ میں باراک اوباما کی طرف سے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو اعلیٰ ترین امریکی تمغہ آزادی سے نوازا گیا تھا۔ انہیں یہ انعام یورپی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ اس اعزاز کو جرمنی اور امریکا کے مابین اچھے تعلقات کی ایک سند قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مہمان سے دوست تک
جون دو ہزار پندرہ میں جرمنی میں ہونے والے جی سیون اجلاس تک میرکل اور اوباما کے تعلقات دوستانہ رنگ اخیتار کر چکے تھے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف اوباما نے جرمن چانسلر کو ہر مدد کی یقین دہانی کروائی تھی۔ لیکن ٹرمپ کے آتے ہی یہ سب کچھ تبدیل ہو گیا۔
تصویر: Reuters/M. Kappeler
ٹیکساس میں تشریف لائیے
نومبر دو ہزار سات میں جرمن چانسلر نے اپنے خاوند یوآخم زاور کے ہمراہ ٹیکساس میں صدر اوباما کے پیشرو جارج ڈبلیو بُش سے ملاقات کی۔ اس وقت بھی ایران کا موضوع زیر بحث رہا تھا، جیسا کی اب ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kugler
بار بی کیو سے لطف اندوز ہوں
جارج ڈبلیو بُش نے جولائی سن دو ہزار چھ میں جرمن چانسلر میرکل کو اپنے انتخابی حلقے میں مدعو کرتے ہوئے خود انہیں بار بی کیو پیش کیا۔ اسی طرح بعد میں جرمن چانسلر نے بھی انہیں اپنے انتخابی حلقے میں بلایا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/BPA/G. Bergmann
بل کلنٹن کے ہاتھوں میں ہاتھ
جولائی دو ہزار سترہ میں سابق جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل کی تدفین کے موقع پر سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے ایک پرسوز تقریر کی۔ انگیلا میرکل کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ہیلموٹ کوہل سے ’محبت کرتے‘ تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Murat
یورپ کے لیے چیلنج
امریکی میڈیا کی طرف سے فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں کے دوستانہ رویے کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کو کس طرح شیشے میں اتارا جا سکتا ہے۔ تاہم حقیقی طور پر یہ صرف ظاہری دوستی ہے۔ امریکی صدر نے محصولات اور ایران پالیسی کے حوالے سے اپنے اختلافات برقرار رکھے ہیں، جو فرانس اور جرمنی کے لیے باعث فکر ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Macdougall
9 تصاویر1 | 9
چانسلر میرکل نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے انسداد کے لیے کثیرالقومی اشتراکِ عمل کی ضرورت ہے، کیوں کہ دوسری صورت میں کسی ایک ملک کے اقدامات کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ میرکل نے اپنے خطاب میں آبادی میں اضافے پر بھی بات کی اور کہا کہ عالمی سطح پر بڑے مسائل کے حل کے لیے مشترکہ اقدامات مؤثر ہوں گے: ’’ہمیں ایک واضح اور شفاف عزم کی ضرورت ہے، جو کثیرالقومی ہو۔ اس کے علاوہ کوئی بھی راستہ فقط مشکل ہو گا۔‘‘
امریکا کا نام لیے بغیر میرکل نے کہا، ’’ہمیں اپنے قومی مفادات کا خیال رکھنا ہے، مگر دوسروں کا بھی سوچنا ہے۔‘‘
اس موقع پر جاپانی وزیراعظم شینزو آبے نے بھی امریکی صدر ٹرمپ کی عوامیت پسند پالیسیوں سے دوری اختیار کرتے ہوئے کہا، ’’جاپان کا عزم ہے کہ وہ آزاد، کھلی اور ضوابط کی حامل بین الاقوامی نظام کا ساتھ دے۔‘‘