جرمنی میں عام صارفین کے لیے گوشت خوری آئندہ ایک مہنگی عادت ثابت ہو سکتی ہے۔ جرمن اراکین پارلیمان نے تجویز پیش کی ہے کہ تحفظ ماحول اور جانوروں کی فلاح کے لیے ملک میں اب تک مقابلتاﹰ سستے گوشت پر ’میٹ ٹیکس‘ لگا دیا جائے۔
اشتہار
یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی میں سپر مارکیٹوں اور اشیائے خورد و نوش کی دکانوں پر عام شہریوں کو گوشت اب تک قدرے کم قیمت پر دستیاب ہوتا ہے۔ بہت سے دیگر ممالک کے مالیاتی قوانین کی طرح جرمنی میں بھی خرید و فروخت کی ہر شے پر مقررہ شرح سے ایسا ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے، جو 'ویلیو ایڈڈ ٹیکس‘ یا VAT کہلاتا ہے۔ اس ٹیکس کی شرح اشیائے تعیش کے لیے 19 فیصد ہے اور اشیائے خوراک کے لیے نصف سے بھی کم یعنی صرف سات فیصد۔
جرمنی میں سوشل ڈیموکریٹس کی جماعت ایس پی ڈی اور ماحول پسندوں کی گرین پارٹی کے اراکین پارلیمان نے اب یہ تجویز پیش کی ہے کہ ملک میں گوشت کے استعمال میں کمی کی خاطر اور اس طرح تحفظ ماحول اور جانوروں کی بہتری کے لیے 'گوشت ٹیکس‘ لگا دیا جائے۔
یہ مجوزہ ٹیکس عملاﹰ کوئی نیا ٹیکس نہیں ہوگا لیکن اس کے ذریعے مطالبہ یہ کیا گیا ہے کہ گوشت اور گوشت کی مصنوعات پر سیلز ٹیکس کی صورت میں وی اے ٹی کی شرح سات فیصد سے بڑھا کر 19 فیصد کر دی جائے۔
دنیا کے سب سے زیادہ گوشت خور ممالک
کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ گوشت کا استعمال کہاں ہوتا ہے؟ اقوام متحدہ کے خوارک اور زراعت کے ذیلی ادارے کی جانب سے جو اعداد و شمار مہیا کیے گئے ہیں ،اس میں مچھلی اور دیگر سی فوڈ کا استعمال شامل نہیں۔
تصویر: Colourbox
امریکا
سالانہ فی کس 120 کلو گوشت
تصویر: Colourbox
کویت
سالانہ فی کس 119.2 کلو گوشت
تصویر: Yasser Al-Zayyat/AFP/Getty Images
آسڑیلیا
سالانہ فی کس 111.5 کلو گوشت
تصویر: AFP/Getty Images
باہاماس
سالانہ فی کس 109.5 کلو گوشت
تصویر: Getty Images/AFP/G. De Cardenas
لیگزمبرگ
سالانہ فی کس 107.9 کلو گوشت
تصویر: Reuters
نیوزی لینڈ
سالانہ فی کس 106.4 کلو گوشت
تصویر: Imago
آسٹریا
سالانہ فی کس 102 کلو گوشت
تصویر: AP
فرانسیسی پولینیشیا
سالانہ فی کس 101.9 کلو گوشت
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Robichon
برمودا
سالانہ فی کس 101.7 کلو گوشت
تصویر: picture alliance/CTK/digifoodstock
ارجنٹینا
سالانہ فی کس 98.3 کلو گوشت
تصویر: Nelson Almeida/AFP/Getty Images
اسپین
سالانہ فی کس 97 کلو گوشت
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/T. Llabres
اسرائیل
سالانہ فی کس 96 کلو گوشت
تصویر: Reuters/A. Awad
ڈنمارک
سالانہ فی کس 95.2 کلو گوشت
تصویر: Nils Meilvang//AFP/Getty Images
کینڈا
سالانہ فی کس 94.4 کلو گوشت
تصویر: Reuters/M. Rehle
اٹلی
سالانہ فی کس 90.7 کلو گوشت
سیلوانیا
سالانہ فی کس 88.3 کلو گوشت
16 تصاویر1 | 16
گوشت کا شمار بھی 'اشیائے تعیش‘ میں
اس طرح اگر یہ تجویز منظور ہو گئی، تو گوشت خور جرمن صارفین کو آئندہ مختلف جانوروں کے گوشت اور ان کے گوشت سے بنی مصنوعات پر 12 فیصد زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو گا کہ تب ٹیکس کی شرح کے لحاظ سے گوشت اشیائے خوراک کے بجائے اشیائے تعیش میں شمار کیا جانے لگے گا۔
گرین پارٹی کے زرعی سیاسی امور کے ترجمان فریڈرش اوسٹن ڈورف کے مطابق، ''میں اس بات کے حق میں ہوں کہ گوشت او گوشت کی مصنوعات پر سیلز ٹیکس میں موجودہ رعایت ختم کر کے اس کی شرح سات سے 19 فیصد کر دی جائے۔ اس طرح حکومت کو جو اضافی مالی وسائل حاصل ہوں، وہ تحفظ ماحول کے اقدامات اور جانوروں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیے جائیں۔‘‘
اسی طرح جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی کے زراعت سے متعلقہ سیاسی امور کے ترجمان رائنر اشپیگِنگ کا بھی کہنا ہے کہ گوشت پر وی اے ٹی کی شرح بڑھا دینے سے عوامی خزانے کو ملنے والا 'گوشت ٹیکس‘ آگے بڑھنے کا ایک بہتر راستہ ہو سکتا ہے۔
جرمن گرمیوں میں کیا کھاتے ہیں؟
جرمن شہری ہر وقت سوسیج، زاؤرکراؤٹ اور آلو ہی نہیں کھاتے۔ یہاں آئیے ذرا جھانک کے دیکھیں مختلف دسترخوانوں میں، جو گرمی کے موسم میں اِدھر اُدھر دکھائی دے رہے ہیں۔ویسے پھر بھی آلو اور سوسیج کی توقع ضرور رکھیے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Maurer
گرمی، بار بی کیو کا موسم
دیگر بہت سے ممالک کی طرح جرمن شہری بھی بار بی کیو کے مزے لیتے ہیں۔ ظاہر ہے، سوسیج کو تو گرل کیا ہی جا سکتا ہے گوشت کی طرح، مگر سبزیاں اور ترک پنیر گرل پر اپنی خوشبو اڑاتے نظر آتے ہیں۔ بہت سے جرمنوں کے پسندیدہ اب بھی روایتی کوئلے والے گرل ہیں۔ شہریوں میں کئی پبلک پارکس میں بھی لوگ بار بی کیو کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Fotolia/Y. Arcus
تھوڑا سا ’کراؤٹ سالاد‘ ڈالیے نا
عالمی جنگوں کے دوران جرمنوں کو تضحیک سے پکارنے کے لیے ’کراؤٹ‘ پکارا جاتا تھا۔ جرمن لفظ ’کراؤٹ‘ کا مطلب ویسے تو جڑی بوٹی ہے، مگر جرمنی میں اسے کیبیج کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، جیسے جرمن ڈش ’’زاور کراؤٹ‘‘، جس میں کیبیج کو باریک کاٹا جاتا ہے۔ جرمنی میں اسے مایونیز کی بجائے سرکے کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔ بعض افراد یہاں اس پر سیب اور پیاز بھی کاٹ کر ڈال لیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ ZB
آلو کا سالاد
اگر آلو کے لیے جرمن لفظ ’کرٹوفل‘ بولنے میں آسان ہوتا، تو یقین مانیے ماضی میں جرمن فوجیوں کو شاید اس نام سے پکارا جاتا۔ اس لیے کہ جرمنی میں آلو بے حد استعمال کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جرمنی میں جتنے خاندان بستے ہیں شاید اتنی ہی ’آلو کے سالاد بنانے کی ترکیبیں‘ بھی ہوں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ لوگ اپنی والدہ کی بتائی ہوئی ترکیب پر پوری زندگی عمل پیرا رہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/R. Goldmann
آلو کی ایک اور ڈش، ’’پیل کرٹوفل مِٹ کوارک‘
موسم گرما میں، کھانا پکانے کا جی کب چاہتا ہے۔ اسی لیے جرمن اس کا علاج بھی آلو ہی سے کرتے نظر آتے ہیں۔ وقت اور توانائی بچانے کے لیے ’پیل کروٹوفِلن‘ ڈش سے بہتر کیا ہو گا۔ اس میں آلوؤں کو چھلکوں سمیت ابال لیا جاتا ہے اور ان کی جلد کھاتے وقت اتاری جاتی ہے۔ اسے کھایا جاتا ہے، دہی کی طرح کے ڈیری پروڈکٹ ’کوارک‘ کے ساتھ۔ ساتھ ہی کالی مرچ اور کچھ دیگر لوازمات بھی رکھ لیے جاتے ہیں۔
تصویر: imago
ارے سالاد صرف خرگوش تھوڑی کھاتے ہیں
صرف سبزی کھانے والے اب ذرا اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ جرمنوں نے تو سالاد میں بھی گوشت شامل کر لیا۔ یہ ’فلائش سالاد‘ روٹی پر پھیلا کر کھایا جاتا ہے۔ بس آپ بالکونی میں بیٹھے ہوں گے، مایونیز یا ساؤر کریم، یا اچار، کٹا ہوا پیاز اور دیگر مسالے پاس ہوں گے اور یہ گوشت والا سالاد آپ کو لطف دے گا۔
تصویر: imago
ایک اور چیلنج، ’’ایپفل ماتیس سالاد‘
’ماتیس‘ مچھلی کے کتلے اچار والی بوتل میں بیچے جاتے ہیں۔ سب کو یہ مچھلی اس طرح پسند نہیں ہوتی، مگر شمالی جرمن ساحلی علاقے میں یہ ایک روایتی سی خوراک ہے۔ یعنی اس مچھلی کے کتلے کاٹ کر اسے ’اچار‘ بنا دیا جاتا ہے۔ اسے کٹے ہوئے پیاز اور کریمی ڈیری پروڈکٹ کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔ گرمیوں میں اس کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے، آلو تو ساتھ ضروری ہیں۔
تصویر: imago
مزے مزے کی جڑی بوٹیاں، ’فرانکفرٹر گروئن سوزے‘
اب آپ موسم گرما کا رجحان تو سمجھ گئے ہوں گے۔ یعنی آلوؤں کے ساتھ مختلف طرح کے سوس۔ یہ سبز سوس فریکفرٹ کے علاقے میں مشہور ہے اور گرمیوں میں دستیاب ہوتا ہے۔ اس سوس کا اپنا فیسٹیول اور باقاعدہ موسم ہوتا ہے، یعنی ہر برس ایسٹر سے قبل جمعرات کے روز سے اس کا آغاز ہوتا ہے۔
تصویر: imago
پھل اور سبزیاں ملا دیں
شمالی جرمنی میں ایک موسم گرما میں قریب ہر گھر کی شاپنگ لسٹ میں تین چیزیں لازمی ہوتی ہیں، ناشپاتی، پھلیاں اور گوشت۔ یہی تین اجزا ملا کر بنایا جاتا ہے، ایک زبردست اور صحت مند سمر سٹیو۔ جرمنی میں جولائی سے ستمبر کے مہینوں میں ناشپاتی ویسے آپ کو ہر طرف بکتی نظر آتی ہے۔
تصویر: Colourbox
کھلی فضا میں آ جائیے
جرمنی میں موسم گرما آتا ہے، تو لوگ زیادہ وقت دھوپ میں گزارنے کی کوشش کرتے ہیں، گھروں کے باغیچے ہوں یا پبلک پارکس، دھوپ سینکنے لوگ ہر طرف ملتے ہیں اور ایسے میں ہر جگہ بار بی کیو کرتے لوگ موسم گرما کو کسی جشن کا روپ دیتے نظر آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K.-J. Hildebrand
9 تصاویر1 | 9
چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کے زرعی امور کے ترجمان آلبرٹ شٹیگےمان کہتے ہیں کہ ان کی پارٹی بھی ان تجاویز پر کھلے دل سے غور کر سکتی ہے، لیکن ایک شرط پر، ''ایسا کوئی بھی ٹیکس ایک مثبت تجویز ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم اس طرح حاصل ہونے والے اضافی فنڈز کو مویشی پالنے والے کسانوں کی مدد کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے تاکہ زرعی شعبے کے اس حصے کی کاروباری مقابلے کی اہلیت میں بھی اضافہ کیا جا سکے۔‘‘
چین کا متنازعہ ڈاگ مِیٹ فیسٹیول، کتے کا گوشت مقبول خوراک
متعدد مظاہروں اور عالمی سطح پر تنقید کے باوجود چین کے جنوبی شہر یولن میں سالانہ ’ڈاگ میِٹ فیسٹیول‘ منعقد کیا جا رہا ہے۔ یہاں کے رہنے والوں کا کہنا ہے کہ کتے کا گوشت کھانا اُن کی روایات کا حصہ ہے۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
تہوار کا آغاز
چین کے ایک چھوٹے شہر یولن میں ’لیچی اینڈ ڈاگ میٹ فیسٹیول‘ ہر سال موسم گرما میں منعقد کیا جاتا ہے۔ اس متنازعہ تہوار کا آغاز ہر سال اکیس جون سے کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ثقافت یا کاروبار؟
یولن کے مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ’ڈاگ میٹ‘ سور کے گوشت سے مختلف نہیں ہے اور پھر موسم ِگرما میں اسے کھانا یولن کی روایت بھی ہے۔ تاہم جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ اس تہوار میں کوئی ثقافتی رنگ نہیں بلکہ اس کے ذریعے محض کاروبار چمکایا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
تہوار کے خلاف مظاہرے
کتوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے خلاف عالمی سطح پر تنقید میں اضافہ ہوا ہے۔ چینی شہر یولن میں اس تہوار کے انعقاد کے خلاف امریکی ریاست لاس اینجلس میں چینی سفارت خانے کے سامنے جانوروں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں نے مظاہرہ کیا۔
تصویر: Picture alliance/NurPhoto/R. Tivony
کتوں کی حفاظت
کتوں کو بچانے کے لیے کبھی کبھار جانوروں کے حقوق کے کارکنان انہیں خرید بھی لیتے ہیں۔
اس تصویر میں نظر آنے والے کتے ایسے ہی کارکنان نے گوشت کے ڈیلروں سے خرید کر اس عارضی پناہ گاہ میں رکھ چھوڑے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
حکومتی پابندی
سن 2015 میں یولن حکومت نے اس تہوار سے خود کو الگ کرتے ہوئے کچھ پابندیوں کا اعلان کیا تھا۔ لیکن چین میں کتے کا گوشت کھانے کے خلاف کوئی قانون نہیں ہے۔ اس تصویر میں گوشت کے ڈیلر ایک مارکیٹ میں کتے کا گوشت فروخت کر رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
سالانہ دس ملین کتوں کی ہلاکت
واشنگٹن میں قائم ہیومن سوسائٹی کے مطابق چین میں گوشت کے لیے سالانہ دس ملین کتوں کو ہلاک کیا جاتا ہے۔ ان میں سے دس ہزار کتے صرف یولن فیسٹیول کی نذر ہو جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
’کتے اور سور کا گوشت ایک جیسا‘
یولن کے ایک رہائشی لی یونگوی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ کتے کے گوشت کا ذائقہ بھی سور کے گوشت کی طرح ہی ہوتا ہے۔ ایک اور رہائشی کا کہنا تھا،’’ یہ تہوار جاری رہے گا۔ بڑے ، بوڑھے حتیٰ کہ بچے بھی کتے کا گوشت کھاتے ہیں۔ یہ ہماری روایت ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
ایشیا میں مقبول ڈِش
کتے کا گوشت چند دیگر ایشیائی ممالک میں ایک مقبول ڈِش ہے۔ ویت نام میں اسے جنسی قوت بڑھانے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق ایشیا بھر میں سالانہ تیس ملین کتوں کا گوشت کھایا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
8 تصاویر1 | 8
اپوزیشن کی طرف سے مخالفت
متعدد سیاسی جماعتوں کی طرف سے یہ تجویز ایک ایسے موقع پر پیش کی گئی ہے، جب جرمنی میں گوشت کی پیداواری صنعت مویشیوں سے روا رکھے جانے والے سلوک کے باعث پہلے ہی تنقید کی زد میں ہے۔
جرمن میڈیا کے مطابق ملکی پارلیمان میں اپوزیشن کی جماعتیں، جن میں بائیں بازو کی دی لِنکے اور انتہائی دائیں بازو کی اے ایف ڈی بھی شامل ہیں، اس تجویز کے خلاف ہیں اور انہوں نے اسے مسترد کر دیا ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق دنیا بھر میں گوشت کی پیداواری صنعت ان اقتصادی شعبوں میں شمار ہوتی ہے، جو ماحول دشمن کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے سب سے زیادہ اخراج کی وجہ بنتے ہیں۔ یہی کاربن گیس ماحولیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والے اہم ترین عوامل میں سے ایک ہے۔
اس پس منظر میں ماحولیاتی ماہرین یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ گوشت کے استعمال میں کمی کر کے بھی تحفظ ماحول کی کوششوں کو واضح طور پر آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ اسی موقف کی حمایت میں عالمی سطح پر سبزی خوری کے رجحان میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
م م / ع ب / ڈی پی اے، ای پی ڈی
لاہور کی سبزی منڈی
لاہور سبزی منڈی کی چہل پہل اور رونق کی یہ تصاویر ڈی ڈبلیو اردو کے قاری اسرار سید نے لاہور شہر سے بھجوائی ہیں۔
تصویر: I. Syed
خواتین بھی کام کرتی ہیں
اسرار کا کہنا ہے کہ سبزی منڈی میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی کام کر رہی ہیں۔
تصویر: Israr Syed
پیازوں کی صفائی
اکثر خواتین پیاز کو صاف کرنے کا کام کرتی ہیں۔ وہ ہری مرچوں کو بھی عام گاہکوں اور ہول سیل گاہکوں کے لیے علیحدہ علیحدہ کرتی ہیں۔
تصویر: Israr Syed
سبزی منڈی کا آغاز
لاہور کی سبزی منڈی کا آغاز صبح نماز فجر کے وقت سے ہو جاتا ہے۔
تصویر: Israr Syed
دکاندار
مختلف دکانوں میں مرد، بزرگ اور چھوٹے بچے بھی کام کرتے نظر آتے ہیں۔
تصویر: Israr Syed
کیلے کی خرید و فروخت
کیلے کی خرید و فروخت دیکھنے میں بہت دلچسپ لگتی ہے۔ اکثر دکاندار اپنے سروں پر کیلے کی مختلف اقسام اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں۔
تصویر: I. Syed
سبزی منڈی میں صفائی ستھرائی کا مناسب انتظام نہیں
اسرار کے مشاہدے کے مطابق سبزی منڈی میں صفائی ستھرائی کا مناسب انتظام نہیں ہے۔ اس کے علاوہ منڈی میں گاڑیوں کی پارکنگ کی جگہ کی بھی کمی ہے۔
تصویر: Israr Syed
خوش گوار موڈ والے دکاندار
اسرار کہتے ہیں کہ انہیں سبزی منڈی کی سب سے اچھی بات یہاں کے خوش گوار موڈ والے دکاندار ہیں۔ وہ اپنی خوش مزاجی سے گاہکوں کو اپنا مال خریدنے کی طرف راغب کر لیتے ہیں۔