کلائمیٹ چینج کی چوبیسویں کانفرنس آف پارٹیز (COP) سے قبل ایجنڈے کی تیاری کے لیے مذاکرات شروع ہو گئے ہیں۔ اس کانفرنس میں خاص طور پر انتہائی کم ترقی یافتہ ممالک کی معروضات کو اہمیت حاصل ہونے کا امکان ہے۔
اشتہار
اقوام متحدہ کے دفتر ماحولیات کی میزبانی میں شروع ہونے والی مذاکراتی کانفرنس میں ماحولیاتی صورت حال پر فوری طور پر توجہ مرکوز کرنے کو اہم قرار دیا گیا ہے۔ جرمن شہر بون میں ماحولیات کانفرنس کے شرکاء رواں اور اگلے ہفتے کے دوران سر جوڑ کر بیٹھیں گے اور ماحولیاتی امور پر پیچیدہ معاملات کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جنوبی ایشیا، افریقہ، پیسیفِک اور کریبیین ممالک نے زمین کے درجہٴ حرارت کر بڑھانے میں نہ ہونے کے برابر حصہ ادا کیا ہے لیکن وہ اس کے باوجود بھاری قیمت چکانے سے گزر رہے ہیں۔
کانفرنس میں انتہائی کم ترقی یافتہ ممالک کے گروپ کے سربراہ گیبرُو جیمبر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اب انتہائی کم ترقی یافتہ ممالک ’متاثرین‘ کے بیانیے سے آگے نکل گئے ہیں اور وہ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ پر زور مذاکرات میں شریک ہیں۔ جیمبر کے مطابق اب یہ گروپ صرف خاموشی سے ماحولیاتی کانفرنسوں کی تقاریر نہیں سن رہے بلکہ انہوں نے ایسے مذاکرات میں لیڈرشپ کا کردار سنبھال لیا ہے۔
دنیا کے سینتالیس انتہائی کم ترقی یافتہ ممالک عالمی سالانہ شرح پیداوار میں محض دو فیصد کے شریک ہیں۔ ان میں سے اکثریت یعنی تینتیس کا تعلق براعظم افریقہ سے ہے۔ بقیہ انتہائی کم ترین ترقی یافتہ ممالک کا تعلق جنوبی ایشیا، پیسیفِک اور لاطینی امریکا سے ہے۔ یہ ممالک دنیا کی کل آبادی کا بارہ فیصد ہیں اور عالمی تجارت میں ان کا حصہ صرف ایک فیصد ہے۔
یورپی یونین کا موقف ہے کہ ان متاثرہ ملکوں کو سب سے زیادہ امداد فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب نگرانی کرنے والے گروپوں کا کہنا ہے کہ ماحولیات کے تناظر میں دی جانے والی یورپی یونین کی امداد کا صرف انیس فیصد حصہ ان سینتالیس انتہائی کم ترقی یافتہ ملکوں کو ملا ہے جب کہ درمیانے درجے کے ترقی یافتہ ممالک یہ امداد حاصل کرنے میں زیادہ کامیاب رہے ہیں۔
نگرانی کے گروپوں کے مطابق ماحول دوست ٹیکنالوجی کے لیے ترکی اور یوکرائن جیسے ممالک زیادہ فائدے میں رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے دفتر ماحولیات نے واضح موقف دیا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی صنعتی ترقی فوسل فیول کے بے پناہ استعمال کے مرہونِ منت ہے، اس لیے یہ ممالک انتہائی کم ترقی یافتہ ممالک کے معاونت و مدد میں شریک ہوں۔
دوسری جانب بین الاقوامی غیرسرکاری تنظیم آکسفیم کا کہنا ہے کہ امیر ممالک کے وعدے توقع سے کم رہے ہیں اور سن 2016 میں امداد کا ہدف نصف سے بھی کم رہا تھا سن 2010 میں ایک سو بلین کا فنڈ تجویز کیا گیا تھا اور ابھی تک یہ ہدف بھی بعید از قیاس ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں مہاجرت
قحط، سمندروں کی سطح میں اضافے اور کاشتکاری میں ناکامی کے نتیجے میں آئندہ تین دہائیوں کے دوران مہاجرت کرنے والے افراد کی تعداد میں ڈرامائی اضافہ ہو سکتا ہے۔
تصویر: Imago/R. Unkel
حکومتوں کے لیے انتباہ
ورلڈ بینک کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق اگر حکومتوں نے فوری نوٹس نہ لیا تو ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے قحط اور شدید موسموں کی وجہ سے کئی خطوں میں تباہی پھیل سکتی ہے، جس کے نتیجے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد روزگار اور بہتر زندگی کی خاطر مہاجرت پر مجبور ہو جائے گی۔
تصویر: qudsonline
مہاجرت میں ڈرامائی اضافہ
ورلڈ بینک کے مطابق عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث آئندہ تین دہائیاں انتہائی اہم ہیں۔ اس ادارے کی رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں سے مطابقت اور متاثرہ خطوں کے لوگوں کے لیے خصوصی اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔ ایسے خطوں میں خوراک اور پانی کی قلت بھی شدید ہوتی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/M. Reino
زندگی کو خطرات
ورلڈ بینک کی اس رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار پچاس تک ماحولیاتی تبدیلوں کے نتیجے میں ہونے والی مہاجرت سے 143 ملین افراد کی زندگی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ایسے چالیس ملین افراد کا تعلق زیریں صحارا، چالیس ملین کا جنوبی ایشیا جبکہ سترہ ملین کا تعلق لاطینی امریکی ممالک سے بتایا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/L. Xiaopeng
اچھے ماحول کی تلاش
دنیا کے ترقی پذیر ممالک کی نصف آبادی یعنی 2.8 فیصد زیریں صحارا، جنوبی ایشیا اور لاطینی امریکی ممالک میں ہی سکونت پذیر ہے۔ یہ خطے ماحولیاتی تبدیلیوں سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ پہلی مرتبہ کوئی ایسی رپورٹ مرتب کی گئی ہے، جس میں ماحولیاتی تبدیلوں کی وجہ سے ہونے والی مہاجرت کے معاملے کو جامع اور مفصل انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
تصویر: Mehr
ماحولیاتی تبدیلیاں مہاجرت کی ’اہم وجہ‘
عالمی بینک کی سی ای او کرسٹالینا جیوگیوا کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیاں لوگوں کو بے گھر کرنے کی ایک بڑٰی وجہ بن چکی ہیں۔ روزگار کے مواقع ختم ہونے کے علاوہ خوراک، پانی اور دیگر اشیائے ضروریات کی قلت کہ وجہ سے کنبے کے کنبے ایسے خطوں کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں، جہاں ان کی زندگی کو سکون میسر آ سکتا ہے۔
تصویر: nedayehirmand
بہتری کی توقع ہے
ہر گزرتے دن کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلیاں زیادہ اقتصادی مسائل کا باعث بن رہی ہیں۔ تاہم عالمی عالمی بینک کے مطابق اگر ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کمی اور پائیدار دور اندیش ترقیاتی مںصوبہ بندی کی خاطر عالمی سطح پر ایکشن لیا جائے تو لاکھوں افراد کو ایسے خطرات سے بچایا جا سکتا ہے۔
تصویر: MEHR
ایتھوپیا سب سے زیادہ متاثر
ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں افریقی ملک ایتھوپیا بہت زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سن دو پزار پچاس تک اس ملک کی آبادی تقریبا دوگنا ہو جائے گی۔ قحط کے باعث کاشت کاری کے خاتمے کی وجہ سے زیریں صحارا کے اس ملک سے بڑے پیمانے پر مہاجرت کے خطرات لاحق ہیں۔
تصویر: AP
بنگلہ دیش کے مسائل
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش میں لوگوں کے داخلی سطح پر بے گھر کی سب سے بڑی واحد وجہ ماحولیاتی تبدیلیاں ہی ہیں۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے باعث جہاں گلیشئرز پگھل رہے ہیں، وہیں سمندروں کی سطح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ بنگلہ دیش کو اس طرح کے شدید مسائل کا سامنا ہے۔
تصویر: bdnews24.com/A. Pramanik
انسانی المیے کا خطرہ
عالمی بینک کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والی مہاجرت ’ایک انسانی المیے‘ میں بدل سکتی ہے۔ تاہم ماہرین کا یقین ہے کہ اگر عالمی سطح پر سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں کمی کی جائے تو صورتحال میں بہتری ممکن ہے۔ یہ گیسیں ماحولیاتی آلودگی کا ایک بڑا سبب بھی قرار دی جاتی ہیں۔
تصویر: Reuters/G.Tomasevic
دیہاتوں سے شہر نقل مکانی
ماہرین کے مطابق دیہاتوں میں کاشتکاری اور لائیو اسٹاک کے متاثر ہونے کے سبب لوگ شہروں کی طرف مہاجرت اختیار کر رہے ہیں اور یوں انہیں بیشتر مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اگر منصوبہ بندی کی جائے تو مقامی لوگوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے مطابقت پیدا کرنے اور ان کی رہنمائی سے ان کی مشکلات دور کی جا سکتی ہیں۔