ماحولیات کانفرنس: پوٹن نے بائیڈن کی دعوت قبول کر لی
20 اپریل 2021
واشنگٹن اور ماسکو میں کشیدگی کے باوجود روسی صدر نے ماحولیات کے بحران پر ہونے والی کانفرنس میں شرکت کرنے سے اتفاق کر لیا ہے۔
اشتہار
امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کے روسی ہم منصب کے درمیان تعلقات گرچہ قدرے تلخ ہیں تاہم اس کے باجود ولادیمیر پوٹن نے ماحولیات کے بحران پر آئندہ جمعرات کو ہونے والی ورچوول کانفرنس سے خطاب کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اس کانفرنس میں کئی دیگر عالمی رہنما بھی شرکت کرنے والے ہیں۔
کریملن نے 19 اپریل پیر کے روز ایک بیان میں کہا، ''ولادیمیر پوٹن عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی کے منفی نتائج پر قابو پانے کے لیے وسیع پیمانے پر بین الاقوامی تعاون کے قیام کے تناظر میں روسی نقطہ نظر کا خاکہ پیش کریں گے۔''
امریکی صدر جو بائیڈن نے ماحولیات کی تبدیلی اور عالمی سطح پر حدت میں اضافے سے نمٹنے کے لیے جو آن لائن کانفرنس بلائی ہے اس میں شرکت کے لیے چین کے صدر شی جن پنگ سمیت دنیا کے بڑے چالیس رہنماؤں کو دعوت دی گئی ہے۔
روسی صدر پوٹن کی شرکت کا مطلب یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں متعدد پابندیوں کے باوجود بھی وہ امریکا کے ساتھ کسی بھی موضوع پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ روسی حکومت کے سب سے بڑے ناقد الیکسی ناولنی کی قید اور یوکرائن کے مسئلے پر اختلافات کی وجہ سے فی الوقت امریکا اور یورپی یونین کے ساتھ روس کے سفارتی تعلقات کافی کشیدہ ہیں۔
خطے میں تبدیلیاں، پاکستان کا رجحان چین اور وسطی ایشیا کی جانب بڑھ رہا ہے
06:03
کرہ ارض تو سبھی کا ہے
صدر جو بائیڈن نے جنوری میں جب سے اقتدار سنبھالا ہے اس وقت سے روس اور چین کے ساتھ امریکا کے تعلقات سرد جنگ کے دور کی طرح کافی کشیدہ رہے ہیں۔ تاہم ان کی انتظامیہ نے ماحولیات کے تئیں بڑھتی ایمرجنسی کو ان ممالک کے ساتھ ایک درمیانی راستہ تلاش کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔
اسی برس امریکا اور روس نے ماحولیات کی تبدیلی کے حوالے سے مذاکرات کیے تھے اور دونوں ممالک نے جنگل میں لگنے والی آگ، جوہری توانائی اور موسمیاتی تبدیلی کے شعبوں میں باہمی تعاون کی نشاندہی کی تھی۔
روسی معیشت کا اب بھی زیادہ تر انحصار کوئلہ،گیس اورپٹرولیم جیسے ایندھن پر ہے۔ تاہم روس میں محکمہ موسمیات کے ماہرین نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ سائبیریا میں تباہ کن آگ کی وجہ سے موسم گرما میں سمندری برف میں کمی کی وجہ ماحولیات کی تبدیلی کی طرف واضح اشارہ ہے۔
شاندار صدارتی محلات، اقتدار کے مراکز
روس میں کریملن، امریکا میں وائٹ ہاؤس اور فرانس میں ایلیزے پیلس شاندار سہی تاہم دنیا کے متعدد دیگر ممالک کے صدور کی رہائش گاہیں بھی اپنی شان و شوکت کے اعتبار سے کم نہیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Kay Nietfeld
ترک صدر کا سیاہ ’سفید محل‘
انقرہ میں ترک صدر کے لیے نیا ’سفید محل‘ تعمیر کیا گیا ہے۔ اس عالی شان محل میں ایک ہزار کمرے ہیں، جن میں کچھ ایسے بھی ہیں جہاں جاسوسی کے خفیہ آلات کارگر نہیں ہوتے اور ایسے بھی جو ایٹمی حملے سے محفوظ رکھتے ہیں۔ تاہم عدالت میں متعدد درخواستوں کے باوجود تعمیر کیے جانے والے اس محل کو ناقدین سفید محل کی بجائے سیاہ محل قرار دے رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/M.Ali Ozcan
پیٹرول سرمایے کی چمک دمک
قازقستان کی مرکزی حکومتی عمارت رات بھر اپنا رنگ بدلتی دکھائی دیتی ہے۔ یہاں صدارتی محل کو امریکی صدر کی رہائش گاہ وائٹ ہاؤس کی مکمل نقل میں تیار کیا گیا۔ خام مال کے اعتبار سے مالدار ملک قازقستان میں حکمران خاندان ملکی امراء کی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa
ترکمانستان کا خواب محل
اشک آباد میں قائم سنہرے گنبد والا صدارتی محل دارالحکومت کی سب سے شاندار عمارت ہے۔ یہ محل خود کو ترکمانستان کا بانی قرار دینے والے نیازوف نے تعمیر کیا تھا، جب کہ ان کے دور میں بطور وزیرصحت خدمات انجام دینے والے بردی محمدوف اب ملکی صدر ہیں۔ انہوں نے سن 2007 میں عہدہء صدارت سنبھالا۔ ناقدین کہتے ہیں کہ ملکی صدر ایک آمر کے تمام تر اختیارات سے لیس ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
کییف کی جاگیردارانہ رہائش گاہ
یہ عالی شان محل فروری میں ملک سے فرار ہونے والے یوکرائنی صدر وکٹور یانوکووچ نے تعمیر کرنا شروع کیا تھا۔ ان کے فرار کے بعد انٹرنیٹ پر اس محل کے حوالے سے تفصیلات سامنے آئیں۔ سن 2010 میں عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد یانوکووچ کا سب سے پہلا اقدام آٹھ ملین یورو مالیت کا ایک فانوس منگوانا تھا۔
تصویر: AFP/Getty Images/Genya Savilov
لامحدود شان و شوکت
سابق یوکرائنی صدر کا دور حکومت بدعنوانی کی انتہا سے عبارت ہے۔ انہوں نے بے انتہا سونا جمع کیا۔ ان کے محل میں اُن کے عامیانہ جمالیاتی ذوق کی مظہر بے شمار رنگ برنگی چیزیں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ اُنہوں نے قوم کے سینکڑوں ملین یورو اپنی جیبوں میں ڈال لیے۔ اقرباء پروری کی حد یہ کہ ان کے دونوں بیٹوں نے بھی اپنے والد کی وجہ سے بے پناہ پیسہ بنایا۔
تصویر: AFP/Getty Images/Yuriy Dyachyshyn
رومانیہ کی سج دھج
یہ انتہائی بڑی عمارت رومانیہ کے دارالحکومت بخارسٹ کے مرکز میں واقع ہے۔ امریکی محکمہ دفاع کے مطابق 84 میٹر بلند اور دو لاکھ پینسٹھ ہزار مربع میٹر پر پھیلی اس عمارے میں تین ہزار کمرے ہیں اور یہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی عمارت ہے، جسے 1984ء میں رومانیہ کے آمر حکمران چاؤشیسکو نے اپنے قتل سے پانچ سال پہلے تعمیر کیا تھا۔
تصویر: tony4urban/Fotolia.com
پیرس کی جگمگاہٹ
پیرس میں دریائے سین کے کنارے واقع ایلیزے پیلس میں جا کر انسان کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ گویا وہ کسی عجائب گھر میں آ گیا ہے۔ اس میں فن کے نادر نمونے اور تاریخی فرنیچر موجود ہے۔ اس کے تہ خانے میں کنکریٹ کی دیواروں اور فولادی دروازوں کے پیچھے فرانس کا ’جوہری کمانڈ سینٹر‘ قائم ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Giancarlo Gorassini
ایران کی شاہی چمک
تہران کے شمال مشرق میں سعد آباد کے علاقے میں سابق ایرانی بادشاہ رضاشاہ پہلوی کے 18 محلات موجود ہیں۔ سن 1920ء سے انہوں نے پے در پے ان عمارات کو وسعت دی۔ یہ ایک طرف تو سرکاری کاموں کے لیے استعمال ہوتی رہیں اور دوسری جانب رضاشاہ پہلوی انہیں اپنی ذاتی رہائش گاہوں کے طور پر بھی استعمال کرتے رہے۔ گرین پیلس رضاشاہ پہلوی اور ان کی بیوی ثریا کی موسم گرما کی رہائش گاہ ہوا کرتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Orand-Viala
دوحہ کا عظیم محل
اس محل میں قطر کے بادشاہ شیخ حماد بن خلیفہ الثانی رہائش پذیر ہیں۔ مغرب کی جانب جھکاؤ رکھنے والے الثانی نے سن 1996ء میں الجزیرہ نامی نشریاتی ادارہ شروع کیا۔ اپنی خارجہ پالیسی کی وجہ سے رقبے کے اعتبار سے اس چھوٹے سے ملک نے حالیہ برسوں میں خاصی توجہ حاصل کی ہے، تاہم قطر پر مختلف اسلام پسندوں کی حمایت کے الزامات بھی عائد کیے جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Rainer Jensen
اکرا کا محل
یہ عالی شان محل گھانا کے صدر کا ہے۔ گھانا کو افریقہ میں استحکام اور اقتصادی ترقی کی ایک علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ ملک کاکاؤ اور سونے کی برآمد کی وجہ سے مشہور ہے، تاہم اب بھی وہاں کے 23 ملین باشندے حکومتی سطح پر بدعنوانی کی وجہ سے غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPPA/Photoshot
متاثر کن فن
دنیا میں طاقت کے مراکز سمجھے جانے والے ممالک میں شاہکار فنی نمونے بھی ملتے ہیں۔ اس تصویر میں جرمن وزیرخارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر میکسیکو کے صدارتی محل میں ایک ایسے ہی شاہکار کو دیکھ رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Bernd von Jutrczenka
جرمن صدارتی محمل، عوام سے قریب تر
یہ جرمن صدر کی سرکاری رہائش گاہ بیلے وو پیلس ہے۔ دریائے سپرے پر واقع یہ عمارت جدید و قدیم طرز تعمیر کا حسین ملاپ ہے۔ یہ دو منزلہ عمارت سن 1786 میں تعمیر کی گئی۔ موسم گرما میں یہاں ہونے والی تقریبات عام لوگوں میں خاصی مقبول ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Kay Nietfeld
12 تصاویر1 | 12
ماحولیات سے متعلق امریکی سفیر جان کیری نے گزشتہ دنوں شنگھائی کا دورہ کر کے چینی حکام سے ملاقات کی اور چینی صدر کو اس کانفرنس میں شرکت کے لیے با ضابطہ دعوت دی تھی۔
کیا مزیددو طرفہ میٹنگیں ہوں گی؟
امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ وہ روس کے ساتھ تمام تصفیہ طلب امور پر بات چیت کے لیے اس برس موسم گرما میں یورپ میں روسی صدر پوٹن سے روبرو ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم پوٹن نے اس تجویز کو قبول یا مسترد رکنے کا فی الحال کوئی اشارہ نہیں دیا ہے۔
ص ز / ج ا (ڈی پی اے، اے ایف پی، روئٹرز)
نیٹو اتحادی بمقابلہ روس: طاقت کا توازن کس کے حق میں؟
نیٹو اتحادیوں اور روس کے مابین طاقت کا توازن کیا ہے؟ اس بارے میں ڈی ڈبلیو نے آئی آئی ایس ایس سمیت مختلف ذرائع سے اعداد و شمار جمع کیے ہیں۔ تفصیلات دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: REUTERS
ایٹمی میزائل
روس کے پاس قریب اٹھارہ سو ایسے میزائل ہیں جو ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نیٹو اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر ایسے 2330 میزائل ہیں جن میں سے دو ہزار امریکا کی ملکیت ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Lo Scalzo
فوجیوں کی تعداد
نیٹو اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر قریب پیتنس لاکھ فوجی ہیں جن میں سے ساڑھے سولہ لاکھ یورپی ممالک کی فوج میں، تین لاکھ بیاسی ہزار ترک اور قریب پونے چودہ لاکھ امریکی فوج کے اہلکار ہیں۔ اس کے مقابلے میں روسی فوج کی تعداد آٹھ لاکھ بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/PAP/T. Waszczuk
ٹینک
روسی ٹینکوں کی تعداد ساڑھے پندرہ ہزار ہے جب کہ نیٹو ممالک کے مجموعی ٹینکوں کی تعداد لگ بھگ بیس ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے ڈھائی ہزار ترک اور چھ ہزار امریکی فوج کے ٹینک بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/F. Kästle
ملٹی راکٹ لانچر
روس کے پاس بیک وقت کئی راکٹ فائر کرنے والے راکٹ لانچروں کی تعداد اڑتیس سو ہے جب کہ نیٹو کے پاس ایسے ہتھیاروں کی تعداد 3150 ہے ان میں سے 811 ترکی کی ملکیت ہیں۔
تصویر: Reuters/Alexei Chernyshev
جنگی ہیلی کاپٹر
روسی جنگی ہیلی کاپٹروں کی تعداد 480 ہے جب کہ نیٹو اتحادیوں کے پاس تیرہ سو سے زائد جنگی ہیلی کاپٹر ہیں۔ ان میں سے قریب ایک ہزار امریکا کی ملکیت ہیں۔
تصویر: REUTERS
بمبار طیارے
نیٹو اتحادیوں کے بمبار طیاروں کی مجموعی تعداد چار ہزار سات سو کے قریب بنتی ہے۔ ان میں سے قریب اٹھائیس سو امریکا، سولہ سو نیٹو کے یورپی ارکان اور دو سو ترکی کے پاس ہیں۔ اس کے مقابلے میں روسی بمبار طیاروں کی تعداد چودہ سو ہے۔
تصویر: picture alliance/CPA Media
لڑاکا طیارے
روس کے لڑاکا طیاروں کی تعداد ساڑھے سات سو ہے جب کہ نیٹو کے اتحادیوں کے لڑاکا طیاروں کی مجموعی تعداد قریب چار ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے تئیس سو امریکی اور ترکی کے دو سو لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
طیارہ بردار بحری بیڑے
روس کے پاس صرف ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ہے اس کے مقابلے میں نیٹو اتحادیوں کے پاس ایسے ستائیس بحری بیڑے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/MC3 K.D. Gahlau
جنگی بحری جہاز
نیٹو ارکان کے جنگی بحری جہازوں کی مجموعی تعداد 372 ہے جن میں سے پچیس ترک، 71 امریکی، چار کینیڈین جب کہ 164 نیٹو کے یورپی ارکان کی ملکیت ہیں۔ دوسری جانب روس کے عسکری بحری جہازوں کی تعداد ایک سو کے لگ بھگ ہے۔
نیٹو اتحادیوں کی ملکیت آبدوزوں کی مجموعی تعداد ایک سو ساٹھ بنتی ہے جب کہ روس کے پاس ساٹھ آبدوزیں ہیں۔ نیٹو ارکان کی ملکیت آبدوزوں میں امریکا کی 70 اور ترکی کی 12 آبدوزیں ہیں جب کہ نیٹو کے یورپی ارکان کے پاس مجموعی طور پر بہتر آبدوزیں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Bager
دفاعی بجٹ
روس اور نیٹو کے دفاعی بجٹ کا موازنہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ روس کا دفاعی بجٹ محض 66 بلین ڈالر ہے جب کہ امریکی دفاعی بجٹ 588 بلین ڈالر ہے۔ نیٹو اتحاد کے مجموعی دفاعی بجٹ کی کل مالیت 876 بلین ڈالر بنتی ہے۔