توقع تھی کہ کورونا لاک ڈاؤن سے ماحول کو تباہ کرنے والی گیسوں کے اخراج میں نمایاں کمی آئے گی۔ لیکن اقوام متحدہ کے مطابق بظاہر ایسا نہ ہوا۔
اشتہار
سن 2019 میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا ایک نیا ریکارڈ قائم ہوا۔ اس سال کورونا کے باعث توقع تھی کہ کرہ ارض کو کچھ تازہ ہوا میں سانس لینے کا موقع ملے گا۔ لیکن ماحولیاتی ماہرین کے مطابق بعض ملکوں میں عارضی لاک ڈاؤن کے باوجود دنیا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی نقصان دہ گیسوں کے اخراج کا بڑھتا گیا ہے۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ عمومی طور پر قدرتی ایندھن (کوئلہ، لکڑی، پٹرول اور قدری گیس) کے استعمال سے پیدا ہوتی ہے۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ
عالمی موسمیاتی ادارے (ورلڈ میٹیو رولوجیکل آرگنائزیشن) یا ڈبلیو ایم او کے مطابق سن 2019 میں اس مضر گیس کا اخراج گزشتہ برسوں کے مقابلے میں زیادہ رہا۔ عالمی موسمیاتی ادارے کے سیکرٹری جنرل پروفیسر پیٹیری تالاس کا کہنا ہے کہ اس گرین ہاؤس گیس کے اخراج میں سن 2015 سے مسلسل اضافہ جاری ہے، جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔
انہوں نے اقوام متحدہ سے درخواست کی ہے کہ وہ اس رجحان کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات کریں۔
لاک ڈاؤن، کوئی خاص فرق نہیں پڑا
ڈبلیو ایم او کے مطابق کورونا وبا کے دوران لاک ڈاؤن، سرحدوں کی بندش، پروازوں کی منسوخی اور دیگر پابندیوں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ سمیت دوسری ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کچھ کمی ہوئی لیکن اس کا بہت زیادہ اثر نہیں ہوا۔
اس سال وبا کے عروج کے مہینوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے روزانہ اخراج میں اوسطاً سترہ فیصد کمی دیکھی گئی۔ لیکن ادارے کا کہنا ہے کہ وبا کے باوجود صنعتی سرگرمیوں میں خاطر خواہ کمی نہیں ہوئی اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا سلسلہ جاری رہا۔
ورلڈ میٹیورولوجیکل آرگنائزیشن کے سیکرٹری جنرل پیٹری تالاس نے ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں اس عارضی کمی کو "سمندر میں قطرہ" قرار دیا ہے۔ ادارے کے مطابق کورونا وبا کے باعث توقع ہے کہ اس سال آلودگی پھیلانے والی گیسوں کے اخراج میں 4.2 سے 7.5 فیصد تک کی کمی آئے گی۔ لیکن ان کے مطابق اس کا ماحول میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کی نقصان دہ سطح پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔
ع ح، ش ج (روئٹرز، ڈی پی اے)
وبا اور فضائی آلودگی کے سائے تلے ديوالی
بھارت سمیت دنیا بھر میں ہندو مذہب کے ماننے والے دیوالی منا رہے ہیں۔ بھارت میں کورونا کی وبا اور بڑے شہروں ميں شديد آلودگی کے باوجود عوام نے يہ مذہبی تہوار روايتی جوش و خروش سے منايا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/D. Talukdar
کورونا ہے تو کيا ہوا، کھل کے خريدو سونا
بھارت ميں ديوالی کے موقع پر سونا خريدنا ايک رواج ہے، جس کی وجہ سے اس تہوار کے آتے سونے کی خرید و فروخت بڑھ جاتی ہے۔ ايک اندازے کے مطابق سونے کی سالانہ تجارت کا چاليس فيصد اسی تہوار کے قريب ہوتا ہے۔ يہ منظر راجھستان کے شہر جے پور کے مشہور جواہری بازار کی ہے، جس ميں کاروباری سرگرمياں واضح ہيں۔
تصویر: Vishal Bhatnagar/NurPhoto/picture alliance
پٹاخوں کی فروخت بھی جاری رہی
يہ مغربی بنگال کے شہر کلکتہ کی ايک مارکيٹ کی تصوير ہے، جہاں پٹاخے فروخت کيے جا رہے ہيں۔ ديوالی کے موقع پر پٹاخے پھوڑنا بھی ايک روايت ہے مگر کئی شہروں ميں آلودگی کی پريشان کن سطح کی وجہ سے اس عمل کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
تصویر: Payel Samanta/DW
سب سے زيادہ ديے جلانے کا ريکارڈ
ايودھيا ميں دريائے سريو کے کنارے ديے جلانے کی روايت بھی کافی پرانی ہے۔ تيرہ نومبر کی رات لوگوں نے اس مقام پر 584,572 سے زائد ديے جلائے، جو ايک نيا ريکارڈ ہے۔ گينس بک آف ورلڈ ريکارڈز ميں اس کا تذکرہ بھی کيا گيا۔ يہ مسلسل دوسرا سال ہے کہ اسی مقام پر سب سے زيادہ ديے جلانے کا ريکارڈ قائم ہوا۔
تصویر: Rajeev Bhatt/AP/picture alliance
پوجا کا اہتمام، حفاظتی تدابير کے ساتھ
مغربی بنگال ميں يہ ’بتياچريا بڑی پوجا‘ کا منظر ہے۔ يہ مغربی بنگال کی قديم ترين پوجا ہے، جو خاص ديوالی کے موقع پر کی جاتی ہے۔ بھارت بھر ميں اس بار پوجا کی مختلف تقريبات ميں سماجی فاصلہ برقرار رکھنے سے متعلق قوانين کا کچھ حد تک احترام کيا گيا۔
مذہبی ہم آہنگی: ديوالی اور ہولی مغربی ممالک ميں بھی مقبول
يہ تصوير ملائيشيا ميں ايک خاتون کی ہے، جن کے ہاتھوں ميں پھلجھڑی ہے۔ ديوالی کا تہوار نہ صرف بھارت بلکہ دنيا بھر ميں جہاں جہاں ہندو موجود ہيں، وہاں منايا جاتا ہے۔ حاليہ برسوں ميں ديوالی اور ہولی جيسے تہوار مغربی ممالک کے عوام ميں بھی مقبول ہوتے جا رہے ہيں۔
تصویر: Annice Lyn/Zuma/picture alliance
ديوالی اور فضائی آلودگی کا مسئلہ
بھارت ميں ہر سال موسم خراں کے مہينوں ميں فضائی آلودگی يا اسموگ کا مسئلہ آن کھڑا ہوتا ہے۔ ديوالی کے موقع پر پٹاخوں سے اس ميں اضافہ ہوتا ہے اور يہی وجہ ہے کہ حکام نے چند رياستوں ميں پٹاخوں پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔
تصویر: DW/A. Ansari
وبا کے سائے تلے ديوالی بھی کوئی ديوالی؟
بھارت کورونا کی وبا سے دوسرا سب سے زيادہ متاثرہ ملک ہے۔ وہاں اب تک ستاسی لاکھ افراد اس وائرس کا شکار بن چکے ہيں جبکہ ايک لاکھ انتيس ہزار افراد ہلاک بھی ہو چکے ہيں۔ يہی وجہ ہے کہ کئی افراد کے ليے ديوالی کی تقريبات بھی مدہم رہيں۔