13.7 ارب سال پہلے جب کائنات بنی تو اس وقت مادہ اور رد مادہ یعنی میٹر اور اینٹی میٹر ایک جتنی مقدار میں وجود میں آئے تھے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہم ایک ایسی کائنات میں کیوں رہتے ہیں، جو مادے سے بنی ہے۔ اینٹی میٹر کہاں گیا؟
اشتہار
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ بگ بینگ یا عظیم دھماکے کی وجہ سے میٹر اور اینٹی میٹر جوڑے کی صورت میں پیدا ہوئے تھے، تاہم یہ بات اب تک باعث حیرت ہے کہ اینٹی میٹر جو ہر اعتبار سے مادے جیسا مگر خصوصیات کے اعتبار سے مطلق برعکس ہے، وہ اس کائنات میں مادے جتنے مقدار میں موجود نہیں۔
ہمارا سورج: گرم گیسوں کا گولہ
کائنات میں ہمارے سورج جیسے اربوں ستارے ہیں۔ ہمارے نظام شمسی میں سورج کے بغیر زمین پر زندگی کا وجود ممکن نہیں تھا۔ سورج کے بارے میں صدیوں سے تحقیق کی جا رہی ہے۔ آئیے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Arco Images GmbH/Irlmeier, K.
آگ کا قدیمی گولہ
زمین پر انسانی وجود سے بھی اربوں برس پہلے سے سورج جگمگا رہا ہے۔ نظام شمسی کے دیگر سیاروں کے ہمراہ 4.6 بلین برسوں قبل سورج گیسوں کے بادلوں کے سبب وجود میں آیا۔ ماہرین کے مطابق آئندہ پانچ بلین سالوں تک سورج کا وجود قائم رہے گا جس کے بعد اس کی توانائی ختم ہو جائے گی۔
تصویر: Reuters/Y. Behrakis
توانائی پر تحقیق کرنے والوں کی توجہ کا مرکز
سورج بنیادی طور پر ایک بڑے ایٹمی ری ایکٹر کے مانند ہے۔ اس کے مرکز میں درجہ حرارت اور دباؤ اس قدر شدید ہےکہ ہائیڈروجن کے ایٹم ضم ہو کر ہیلیم کے ایٹم بن جاتے ہیں۔ اس عمل کے دوران بڑی مقدار میں توانائی خارج ہوتی ہے۔
تصویر: rangizzz/Fotolia.com
زمین سے سو گنا بڑا
زمین سے دیکھتے ہوئے سورج اتنا بڑا دکھائی نہیں دیتا لیکن اس کا نصف قطر یا رداس سات لاکھ کلو میٹر ہے۔ سورج کے مرکز میں درجہ حرارت پندرہ ملین ڈگری سیلسیئس سے بھی زیادہ ہے جب کہ سطح پر سورج کا درجہ حرارت ساڑھے پانچ ہزار ڈگری ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
اربوں میں ایک
خلا میں چمکتے ستاروں کے مرکز میں توانائی پیدا ہوتی ہے۔ ہمارا سورج بھی کائنات میں موجود ایسے ہی اربوں ستاروں میں سے ایک ہے۔ دوسرے ستاروں کے مقابلے میں سورج درمیانے حجم کا ستارہ ہے۔ کائنات میں ان گنت ستارے سورج سے سینکڑوں گنا بڑے بھی ہیں۔
تصویر: Ye Aung Thu/AFP/Getty Images
سطح پر دکھنے والی بے چینی
سورج کے اندر سے نکلنے والا انتہائی روشن اور گرم مادہ سطح پر پہنچنے کے بعد ٹھنڈا ہو جاتا ہے تاہم درجہ حرارت کم ہوتے ہی واپس مرکز کی جانب مڑ جاتا ہے۔ کائنات میں صرف سورج ہی وہ واحد ستارا ہے جس کا ماہرین اتنی باریک بینی سے تجزیہ کر پائے ہیں۔
تصویر: Getty Images/Q. Rooney
جادوئی سیاہ دھبے
سورج کی سطح پر سیاہ دھبوں کا مشاہدہ قبل از مسیح کے زمانے سے کیا جا چکا ہے۔ گیلیلیو کی تحریروں میں بھی ان کا ذکر موجود ہے۔ گزشتہ وقتوں کے انسانوں کے لیے یہ حیرت انگیز مشاہدے تجسس کا سبب تھے۔ لیکن اب ہم جان چکے ہیں کہ انتہائی مضبوط مقناطیسی میدان ان سیاہ دھبوں کا سبب بنتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ dpa
خطرناک طوفان
جب سورج پر سرگرمی بڑھ جائے تو ’جیو میگنیٹک‘ طوفان پیدا ہوتا ہے۔ اس وقت سورج سے بڑی مقدار میں ’چارج شدہ‘ ذرات خلا میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ ذرات خلا میں موجود سیٹلائٹس کو تباہ کر سکتے ہیں اور زمین پر بھی پاور اسٹیشنز کو متاثر کر سکتے ہیں۔
تصویر: dapd
جب آسمان دمکتا ہے
ایسے ہی طوفان ایک دلفریب منظر کا سبب بنتے ہیں اور آسمان دمک اٹھتا ہے۔ یہ تب ہوتا ہے کہ چارج شدہ ذرات زمین کے کرہ ہوائی سے ٹکراتے ہیں۔ اس مظہر کو ’پولر روشنی‘ کہا جاتا ہے۔
تصویر: dapd
لیکن یاد رکھیے!
سورج گرہن کو کبھی ننگی آنکھ سے مت دیکھیے۔ سورج اس وقت بھی انتہائی روشن ہوتا ہے جب چاند اس کے سامنے آ چکا ہو۔ خاص طرح کی عینک پہنے بغیر سورج گرہن دیکھنے سے بینائی جا سکتی ہے۔
اس وقت کائنات میں ہم جو کچھ دیکھتے ہیں، یعنی زمین پر کسی کیڑے سے لے کر کسی بہت بڑے ستارے تک، وہ سب کا سب مادے کے ذرارت سے ملک کر بنا ہے۔ اب تک مادے کا جڑواں رد مادہ یا اینٹی میٹر کائنات میں بڑی مقدار میں دریافت نہیں ہوا ہے۔
اس حوالے سے یورپی جوہری تحقیقی مرکز سَرن میں الفا تجرے کے ذریعے اس راز کو افشا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سَرن سوئٹزرلینڈ اور فرانس کی سرحد پر زیرزمین ستائیس کلومیٹر طویل ایک سرنگ کی صورت میں قائم ہے، جہاں کائنات کی ابتدا اور ماہیت سے متعلق بنیادی سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس تجربہ گاہ میں مادہ اور ردِ مادہ سے متعلق تجربے کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ تجربہ گاہ میں تیار کردہ ’اینٹی ہائیڈروجن‘ کا غیرعمومی دیر تک کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔
تہرا کائناتی مظہر ،سپر بلڈ بلو مون
01:14
یہ بات اہم ہے کہ اینٹی میٹر یا ردِ مادہ کا ایٹم ٹھیک عام ایٹم جیسا ہی ہوتا ہے، مگر سب ایٹمز کے چارج کے اعتبار سے مطلق برعکس ہوتا ہے۔ یعنی ایٹم میں بیرونی مدار میں منفی چارج والا الیکٹران گردش کرتا ہے، مرکزے میں مثبت چارج والے پروٹان اور نیوٹرل چارج کے حامل نیوٹران ہوتے ہیں، جب کہ اینٹی میٹر کے ایٹم میں مثبت چارج والا پوزیٹرون مرکزے کے باہر گردش کرتا ہے، جب کہ مرکزے کے اندر مثبت چارج والے پروٹان کی بجائے منفی چارج والا نیگیٹرون اور نیوٹران ہوتے ہیں۔
اینٹی میٹر کی ایک اور خاصیت یہ ہے کہ اگر وہ عام مادے سے چھو جائے، تو وہ اپنے مقدار کے برابر مادہےکو مکمل طور پر توانائی میں تبدیل کرتے ہوئے فنا ہو جاتا ہے۔ یعنی ہائیڈروجن اور اینٹی ہائیڈروجن آپس میں چھو جائیں، تو وہ ایک دوسرے کو مکمل طور پر رد کر کے توانائی میں تبدیل ہو جائیں گے۔
سَرن میں اس حوالے سے الفا تجربے سے وابستہ جیفری ہیگسٹ کے مطابق، ’’ہم اس وقت یہ دیکھ رہے ہیں کہ ہائیڈروجن اور اینٹی ہائیڈروجن کس حد تک ایک جیسے رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔‘‘
اس حوالے سے ہائیڈروجن اور اینٹی ہائیڈروجن کے درمیان رویے میں معمولی سا فرق بھی یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہو گا کہ کائنات کی ابتدا کے وقت بننے والے مادے اور ردِ مادے میں سے مادہ کیوں بقا پا گیا اور رد مادہ فنا کیوں ہو گیا۔
اس حوالے سے طبیعات کا سٹینڈرڈ ماڈل (معیاری ماڈل) نظریہ کہتا ہے کہ مادہ اور ردِ مادہ ہر ہر اعتبار سے ایک جیسے مگر مکمل طور پر برعکس رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ تاہم یہ نظریہ یہ واضح نہیں کرتا کہ کائنات کی تخلیق کے وقت پیدا ہونے والا ردِ مادہ کہاں گیا۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان کے درمیان رویے کے اعتبار سے ضرور کوئی انتہائی معمولی فرق بھی موجود ہے۔ اس معمولی فرق کی وجہ سے ممکنہ طور پر ایک ارب ایٹموں اور ایک ارب اینٹی ایٹموں کے ملاپ کے دوران مادے کا ایک ایٹم زندہ رہ جاتا ہے اور کائنات میں موجود تمام مادہ دراصل میٹر اور اینٹی میٹر کے ملنے اور ایک دوسرے کو مکمل طور پر رد کر دینے کے باوجود باقی بچ جانے والے اس ایک اربویں حصے کا شاخسانہ ہے۔
سوئٹزرلینڈ میں دنیا کی طویل ترین سرنگ
سوئٹزرلینڈ میں یکم جون کو دنیا کی طویل ترین سرنگ کا افتتاح ہو رہا ہے۔ ایلپس کے پہاڑوں کو کاٹ کر بنائی گئی ستاون کلومیٹر طویل یہ سرنگ ایرسٹ فیلڈ اور بوڈیو نامی خوبصورت دیہات کو آپس میں ملائے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Settnik
ایک عظیم منصوبہ
گوٹفریڈ بیسک ٹنل (GBT) سرنگ 17 برسوں میں مکمل ہوئی۔ اس دوران بڑی بڑی بورنگ مشینوں کی مدد سے سوئٹزرلینڈ کے سلسلہٴ کوہ ایلپس میں سے تقریباً 28 ملین ٹن چٹانی مادے نکال کر سرنگ کھودی گئی۔ پھریہ مادے اس سرنگ کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال کیے گئے۔ یکم جون سے اس سرنگ میں سے ٹرینوں کے آزمائشی سفر تو شروع ہو جائیں گے تاہم اس طرح کے تین ہزار سفر مکمل ہونے سے پہلے اسے معمول کے سفر کے لیے نہیں کھولا جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/Keystone/M. Ruetschi
زیادہ ہموار اور آسان سفر
گوٹفریڈ نامی پرانی سرنگ میں سے دن میں ایک سو اَسّی ٹرینیں گزرا کرتی تھیں تاہم اس نئی سرنگ میں سے روزانہ دو سو ساٹھ مال بردار ریل گاڑیاں گزر سکیں گی۔ وجہ یہ ہے کہ نئی سرنگ زیادہ ہموار ہے اور بھاری ٹرینوں کو لے جانے کے لیے کم انجنوں کی ضرورت پڑے گی۔ آئندہ یہ ٹرینیں زیادہ رفتار کے ساتھ بھی سفر کر سکیں گی۔
تصویر: picture alliance/KEYSTONE
مثالی منصوبے کا وقت سے پہلے اختتام
یہ منصوبہ مقررہ وقت سے ایک سال پہلے ہی اور طے کردہ بجٹ میں معمولی اضافے کے ساتھ ہی مکمل ہو گیا ہے۔ اس کی تعمیر میں انجینئروں، ماہرینِ ارضیات اور کنٹریکٹرز سمیت کوئی دو ہزار چھ سو افراد نے حصہ لیا، جن کے کام کے اوقات چار ملین گھنٹے بنتے ہیں۔
تصویر: AlpTransit Gotthard AG
ایک نیا ریکارڈ
اس سرنگ کے ذریعے سوئٹزرلینڈ نے جاپان کا طویل ترین سرنگ کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ جاپان کی سائیکان نامی سرنگ کا افتتاح 1988ء میں ہوا تھا، جس کی تعمیر کے احکامات ایک ہولناک طوفان کے دوران پانچ مسافر بردار کشتیوں کے غرق ہونے کے بعد جاری کیے گئے تھے۔ تب آبنائے سُوگارُو کو محفوظ طریقے سے پار کرنے کے لیے ایک ایسے علاقے میں 53.9 کلومیٹر طویل سرنگ بنائی گئی تھی، جہاں اکثر زلزلوں کا خدشہ رہتا ہے۔
تصویر: Imago/Kyodo News
یورو ٹنل سے بھی سات کلومیٹر لمبی
فرانس اور انگلینڈ کے درمیان 50.5 کلومیٹر طویل سرنگ ’یورو ٹنل‘ کا 37.9 کلومیٹر کا حصہ سمندر کے نیچے بنایا گیا ہے اور یہ اس اعتبار سے دنیا کی طویل ترین سرنگ ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں یکم جون کو جس گوٹفریڈ سرنگ کا افتتاح ہو رہا ہے، وہ ایک تعمیراتی معجزہ قرار دی جانے والی یورو ٹنل سے لمبائی میں سات کلومیٹر زیادہ ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Charlet
گوٹفریڈ طویل ترین لیکن کب تک؟
گوٹفریڈ بیسک ٹنل اپنے دنیا کی طویل ترین سرنگ ہونے کے ریکارڈ سے سن 2026ء میں محروم بھی ہو سکتی ہے۔ تب تک BBT یعنی برینر بیسک ٹنل نامی سرنگ کے مکمل ہو جانے کا امکان ہے۔ آسٹریا اور اٹلی کے درمیان تعمیر کی جانے والی برینر سرنگ 64 کلومیٹر لمبی ہو گی۔
سوئٹزرلینڈ کی گوٹفریڈ سرنگ کی تعمیر بہت سے جرمن انجینئرز کی شرکت کے ساتھ وقت سے پہلے اور مقررہ بجٹ میں معمولی سے اضافے کے ساتھ مکمل ہو گئی۔ خود جرمنی میں معاملہ اس کے برعکس ہے، جس کی ایک مثال برلن میں شوئنے فَیلڈ کا نیا ایئرپورٹ ہے، جسے دراصل اب سے ساڑھے چار سال پہلے ہی مکمل ہو جانا چاہیے تھا۔ اس تصویر میں اس ایئر پورٹ کو جانے والی زیرِ زمین ریلوے سرنگ پر بدستور جاری تعمیراتی کام دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Settnik
7 تصاویر1 | 7
یہ بات بھی اہم ہے کہ تجربہ گاہ میں بنائے جانے والے ایٹی ایٹم کو الیکٹرومیگنیٹکل فیلڈ کی ایک انتہائی طاقت ور بغیر دیوار ’بوتل‘ میں رکھا جاتا ہے اور فنا سے قبل اس کے رویے کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
اب تک اس حوالے سے کئے جانے والے تجربات میں مادے اور ردِ مادے کے درمیان رویے کے اعتبار سے کسی فرق کا کوئی سراغ نہیں لگ پایا ہے، تاہم سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اینٹی میٹر کو زیادہ دیر تک زندہ رکھ کر اس کے رویوں کے مشاہدے کی اہلیت حاصل کر لی گئی، تو یہ معمہ حل ہو پائے گا۔