مارایا کیری کی سعودی عرب میں پرفارمنس، اتنا واویلا کیوں؟
30 جنوری 2019
مشہور امریکی گلوکارہ مارایا کیری رواں ہفتے سعودی عرب میں پرفارم کریں گی۔ ان کا یہ شو سعودی عرب میں جاری اصلاحات کا ایک حصہ ہے لیکن جمعرات کو ہونے والے ان کے اس کنسرٹ کی اتنی زیادہ مخالفت کیوں کی جا رہی ہے؟
اشتہار
حقوق نسواں کے لیے سرگرم خواتین امریکی گلوکارہ کے سعودی عرب کے دورے کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ ان کارکنوں کا خیال ہے کہ یہ امریکی آرٹسٹ سعودی عرب کو ’اپنا مثبت چہرہ‘ دکھانے میں مدد فراہم کریں گے۔
امریکی صحافی اور سرگرم کارکن مُونا الطحاوی کا ٹویٹر پر مارایا کیری کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’کیا اُسے علم ہے کہ وہ کیا کر رہی ہے؟ وہ سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کی کارکنوں کی صورتحال سے آگاہ ہے؟ انہیں اپنے کنسرٹ کے حوالے سے دوبارہ سوچنا چاہیے۔‘‘
امریکی کلوگارہ کا یہ کنسرٹ جمعرات کو بندرگاہی شہر جدہ سے شمال میں واقع اقتصادی شہر شاہ عبداللہ میں ہو رہا ہے۔ بیلجیم میں مقیم سعودی نژاد کارکن عالیہ الھذلول کا گلوکارہ کو یاد کرواتے ہوئے کہا ہے، ’’میری بہن لجين الهذلول مئی دو ہزار اٹھارہ سے سعودی جیل میں ہے اور اس کا قصور بس اتنا ہے کہ اس نے اس سلطنت میں خواتین کی ڈرائیونگ کے لیے جدوجہد کی تھی۔‘‘ سعودی عرب میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت مل چکی ہے لیکن اس مہم میں شریک ہونے والی کئی خواتین کارکن ابھی تک جیل میں ہیں۔
دوسری جانب کئی مقامی سعودی شہریوں نے سوشل میڈیا پر جاری ’سعودی مخالف‘ مہم کی شدید مخالفت کی ہے۔ ان صارفین کا کہنا تھا کہ موسیقی کے کنسرٹ اور ان خواتین کا آپ میں کوبراہ راست لنک نہیں ہے، یہ سب کچھ بس توجہ حاصل کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر مارایا کیری اپنا کنسرٹ منسوخ نہیں کرتیں تو یہ سعودی عرب کی ایک بہت بڑی جیت ہو گی اور ریاض حکومت اسے پراپیگنڈا کے لیے استعمال کرے گی۔ حال ہی میں دو دیگر مشہور عالمی اداکار بھی سعودی عرب میں میوزک شو کر چکے ہیں۔
قبل ازیں مارایا کیری نے بلومبرگ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے سعودی عرب میں کنسرٹ کا مقصد سعودی تفریح کے شعبے کو علاقائی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش بنانا ہے۔ سوشل میڈیا پر تنقید کے بعد کیری کا ابھی تک کوئی جواب سامنے نہیں ہے لیکن ماہرین کے مطابق وہ اس کنسرٹ کے ساتھ ساتھ ’سیاسی خطرہ‘ بھی مول لے رہی ہیں۔
ا ا / ع ب
سعودی عرب کے تاراج شہر میں خوش آمدید
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ملک کے دروازے سب کے لیے کھولنا چاہتے ہیں۔ مستقبل میں سیاح آثار قدیمہ کا ایک نایاب خزانہ دیکھنے کے قابل ہوں گے۔ العلا نامی یہ قدیمی نخلستان ملک کے شمال مغرب میں واقع ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
قدیم تہذیب
العلا کبھی خطے کے مختلف تجارتی راستوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ اس مقبرے کی طرح یہ علاقہ آثار قدیمہ کے خزانے سے بھرا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
ایک سو گیارہ مقبرے
مدائن صالح سعودی عرب کے مشہور شہر مدینہ سے تقریبا چار سو کلومیٹر شمال مغرب میں واقع ہے۔ العلا کے مضافات میں واقع یہ آثار قدیمہ سن دو ہزار آٹھ سے عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ ہیں۔ دو ہزار برس پہلے یہاں پتھروں کو تراشتے ہوئے ایک سو گیارہ مقبرے بنائے گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
انجینئرنگ کا بہترین نمونہ
قدیم دور میں یہ قوم الانباط کا مرکزی اور تجارتی علاقہ تھا۔ یہ قوم اپنی زراعت اور نظام آبپاشی کی وجہ سے مشہور تھی۔ یہ قوم نظام ماسيليات (ہائیڈرالک سسٹم) کی بھی ماہر تھی اور اس نے اس خشک خطے میں پانی کے درجنوں مصنوعی چشمے تیار کیے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
قدیم زمانے کے پیغامات
قدیم دور کا انسان کئی پیغامات پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ یہ وہ جملے ہیں، جو دو ہزار برس پہلے کنندہ کیے گئے تھے۔ امید ہے سیاح انہیں نقصان نہیں پہنچائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
مل کر حفاظت کریں گے
سعودی ولی عہد نے فرانس کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت دونوں ممالک مل کر ایسے قدیم شہروں کی حفاظت کریں گے تاکہ آئندہ نسلیں بھی ان کو دیکھ سکیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
ایک نظر بلندی سے
اس کے تحفظ کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات سے پہلے اس سے متعلقہ تمام اعداد و شمار جمع کیے جا رہے ہیں۔ مارچ میں پیمائش کے دو سالہ پروگرام کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس کے لیے سیٹلائٹ تصاویر، ڈرونز اور ہیلی کاپٹر استعمال کیے جا رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سیاحوں کے لیے ویزے
ابھی تک صرف مخصوص شخصیات کو ہی ان آثار قدیمہ تک جانے کی اجازت فراہم کی جاتی تھی۔ مثال کے طور پر سن دو ہزار پندرہ میں برطانوی پرنس چارلس کو العلا میں جانے کی اجازت دی گئی تھی۔ اب سعودی عرب تمام سیاحوں کی ایسے اجازت نامے فراہم کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/empics/J. Stillwell
قیام گاہوں کی کمی
تین سے پانچ برسوں تک تمام سیاحوں کی رسائی کو العلا تک ممکن بنایا جائے گا۔ ابھی یہ شہر سیاحوں کی میزبانی کے لیے تیار نہیں ہے۔ فی الحال وہاں صرف دو ہوٹل ہیں، جن میں ایک سو بیس افراد قیام کر سکتے ہیں۔