یمن میں فعال ایران نواز حوثی باغیوں نے مارب شہر کی جانب کامیاب عسکری پیش قدمی کی ہے۔ قبل ازیں ان باغیوں نے حکمت عملی کے حوالے سے اہم تصور کی جانے والے پہاڑی علاقوں پر قبضہ کیا تھا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ایک حکومتی عہدیدار کی شناخت مخفی رکھتے ہوئے بتایا کہ حوثی باغیوں نے کوہ ہلان پر قبضہ کر لیا ہے۔ مزید بتایا گیا ہے کہ اس لڑائی میں اطراف کے درجنوں سپاہی مارے گئے ہیں۔
اس پہاڑ سے مارب کی طرف پیشقدمی ایک آسان مرحلہ تصور کیا جا رہا ہے۔ شیعہ باغی گزشتہ ایک ماہ سے مارب کو کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔
حوثی باغی اور بین الاقوامی تسلیم یافتہ یمنی حکومت کی افواج سن دو ہزار چودہ سے عسکری کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ ایک اور حکومتی اہلکار نے بھی اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ مارب کا باغیوں کے کنٹرول میں جانے کا خطرہ سنگین ہو چکا ہے۔
اس اہلکار کے مطابق کوہ ہلان پر شکست نے اس شہر کو دفاع کمزور کر بنا دیا ہے۔ ناقدین کے مطابق مارب شہر پر باغیوں کا قبضہ حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہو گا کیونکہ اس شہر پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد وہ مزید آگے بڑھنے کے قابل ہو جائیں گے۔
سن دو ہزار پندرہ میں سعودی عسکری اتحاد نے یمنی حکومت کی مدد کی خاطر حوثی باغیوں کے خلاف فوجی کارروائی شروع کی تھی تاہم تاحال یہ عسکری اتحاد مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
فاقہ کشی کا شکار یمنی بچے
02:20
دوسری طرف بین الاقوامی برداری کی کوشش ہے کہ یمنی بحران کا پرامن حل تلاش کیا جائے۔ اس حوالے سے مذاکرات کے کئی ادوار ہو چکے ہیں لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا ہے۔
یمنی باغیوں کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کی کسی بھی ڈیل سے قبل سعودی عرب کو یمن کی ناکہ بندی ختم کرنا ہو گی۔ اقوام متحدہ کے مطابق یمن کا بحران دنیا کا سب سے بدترین انسانی المیہ بن چکا ہے۔
امریکا میں جو بائیڈن کے صدر بننے کے بعد نئی امریکی حکومت کی کوشش ہے کہ وہ یمن میں قیام امن کی نئی کوششیں شروع کرے۔ اس حوالے سے ابتدائی منصوبہ بندی شروع کی جا چکی ہے۔
جنگ میں بیماری: یمن میں کینسر کے مریض
تقریباﹰ تین برسوں سے یمن میں سعودی عسکری اتحاد اور ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہسپتال بھی بموں سے محفوظ نہیں ہیں۔ ایسے میں شدید بیمار افراد مشکل سے ہے مدد حاصل کر پاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
مہنگا علاج
خالد اسماعیل اپنی بیٹی رضیہ کا دایاں ہاتھ چوم رہے ہیں۔ سترہ سالہ کینسر کی مریضہ کا بایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا۔ اپنی جمع پونجی بیچنے اور ادھار لینے کے باجود خالد اس سے بہتر علاج کروانے کی سکت نہیں رکھتے، ’’جنگ نے ہماری زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔ ہم بیرون ملک نہیں جا سکتے اور میری بیٹی کا مناسب علاج بھی نہیں ہوا۔‘‘
تصویر: Reuters/K. Abdullah
کوئی حکومتی مدد نہیں
گزشتہ دو برسوں سے نیشنل اونکولوجی سینٹر کو کوئی مالی مدد فراہم نہیں کی جا رہی۔ اب انسداد کینسر کا یہ مرکز ڈبلیو ایچ او جیسی بین الاقوامی امدادی تنظیموں اور مخیر حضرات کی مدد سے چلایا جا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
بیڈ صرف بچوں کے لیے
کینسر سینٹر میں بیڈز کی تعداد انتہائی محدود ہے اور جو موجود ہیں وہ بچوں کے لیے مختص ہیں۔ اس کلینک میں ماہانہ صرف چھ سو نئے مریض داخل کیے جاتے ہیں۔ اتنے زیادہ مریضوں کے علاج کے لیے گزشتہ برس ان کے پاس صرف ایک ملین ڈالر تھے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
انتظار گاہ میں ہی تھیراپی
بالغ مریضوں کی تھیراپی کلینک کی انتظار گاہ کی بینچوں پر ہی کی جاتی ہے۔ جنگ سے پہلے اس سینٹر کو سالانہ پندرہ ملین ڈالر مہیا کیے جاتے تھے اور ملک کے دیگر ہسپتالوں میں بھی ادویات یہاں سے ہی جاتی تھیں لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
امدادی سامان کی کمی
صنعا کے اس کلینک میں کینسر کی ایک مریضہ اپنے علاج کے انتظار میں ہے لیکن یمن میں ادویات کی ہی کمی ہے۔ سعودی عسکری اتحاد نے فضائی اور بری راستوں کی نگرانی سخت کر رکھی ہے۔ اس کا مقصد حوثی باغیوں کو ملنے والے ہتھیاروں کی سپلائی کو روکنا ہے لیکن ادویات کی سپلائی بھی متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
ڈاکٹروں کی کمی
ستر سالہ علی ہضام منہ کے کینسر کے مریض ہیں۔ ایک امدادی تنظیم ان جیسے مریضوں کو رہائش فراہم کرتی ہے۔ یہاں صرف بستروں کی ہی کمی نہیں بلکہ ڈاکٹر بھی بہت کم ہیں۔ یمن بھر میں طبی عملے کی کمی ہے اور اوپر سے غریب عوام علاج کروانے کی سکت بھی نہیں رکھتے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
انسانی المیہ
14 سالہ آمنہ محسن ایک امدادی تنظیم کے اس گھر میں کھڑی ہے، جہاں کینسر کے مریضوں کو رہائش مہیا کی جاتی ہے۔ یمن میں لاکھوں افراد کو بھوک اور ملیریا اور ہیضے جیسی بیماریوں کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق یہ جنگ 50 ہزار افراد کو نگل چکی ہے۔