فروخت سے قبل 'شاٹ سیج بلیو مارلن' نامی اس پورٹریٹ کی قیمت کا اندازہ 20 کروڑ ڈالر سے بھی زیادہ لگایا گیا تھا۔ نیلامی کرنے والوں نے اس پورٹریٹ کو 'اب تک کی بہترین تصویروں میں سے ایک' قرار دیا ہے۔
اشتہار
اپنے دور کی معروف امریکی اداکارہ اور خوبصورت ماڈل مارلن منرو کا ایک پورٹریٹ نو مئی پیر کے روز نیویارک کے کرسٹیز نیلامی گھر میں ریکارڈ قیمت 195ملین ڈالر میں فروخت ہوا۔ اسے مصور اینڈی وارہول نے پینٹ کیا تھا۔
یہ سن 1964 میں بنائے گئے سلک اسکرین پورٹریٹ کی سیریز میں سے ایک ہے جو مصور اینڈی وارہول نے اداکارہ منرو کی موت کے بعد تیار کیے تھے۔ یہ اب تک سوئٹزرلینڈ کے آرٹ ڈیلرز تھامس اور ڈورس امان کے مجموعے کا ایک حصہ تھا۔ فروخت سے پہلے اس کی قیمت کا اندازہ 20 کروڑ ڈالر سے بھی زیادہ لگایا گیا تھا۔
'اب تک کی عظیم ترین پینٹنگز میں سے ایک'
نیلامی گھر کرسٹیز میں 20 ویں اور 21 ویں صدی کے فن پاروں کے چیئرمین الیکس روٹر کے مطابق، پاپ آرٹسٹ اینڈی وارہول کا ''شاٹ سیج بلیو مارلن'' پورٹریٹ ''امریکی پاپ مصوری کا ایک عظیم ترین فن پارہ ہے۔''
وارہول نے اسے مارلن منرو کی 1962 میں موت کے فوراً بعد پینٹ کیا تھا، جب وہ ایک دوا کی زیادہ خوراک لینے کے سبب چل بسی تھیں۔
یہ منرو کے پانچ پورٹریٹ کی ایک اس سیریز کا حصہ ہے جو انہوں نے اس وقت پینٹ کیا تھا، جو ''شاٹ'' سیریز کے نام سے معروف ہوا۔
یہ عرفی نام ''شاٹ'' اس وقت پڑا جب، مینہٹن میں وارہول کی ''فیکٹری'' اسٹوڈیو میں آنے والے ایک شخص نے ان تصاویر پر بندوق سے فائرنگ کر دی۔ گولیاں لگنے کی وجہ سے ان پینٹنگز میں سوراخ ہو گئے تھے، جن کی بعد میں مرمت کی گئی اور درست کیا گیا۔
الیکس روٹر کہتے ہیں کہ ''یہ پینٹنگ پورٹریٹ کی صنف سے بھی بالاتر ہے۔ اس نے 20 ویں صدی کے فن اور ثقافت کو نیا عروج بخشا۔
بوٹیسیلی کی برتھ آف وینس، ڈاونچی کی مونا لیزا، اور پکاسو کی لیس ڈیموزیل ڈی ایوگنن کے ساتھ ہی وارہول کی مارلن کی یہ تصویر بھی ماضی میں تخلیق کی گئی تمام عظیم پینٹنگز میں سے ایک ہے۔''
کرسٹیز کی ویب سائٹ کے مطابق، سن 1964 کی سلک اسکرین 'شاٹ سیج بلیو مارلن' ''ایک عالمی طور پر تسلیم شدہ پینٹنگ ہے جس نے اجتماعی ضمیر میں اپنا مقام پیدا کیا، جو ایک جدید مونا لیزا ہے۔''
کرسٹیز نے پیر کی شام سات بجے نیلامی سے پہلے کہا تھا، ''مارلن ایک ایسا شاہکار ہے، جو وقت یا مقام کی قیود و حدود سے بالا تر ہے۔'' یہ فن پارہ زیورخ میں تھامس اور ڈورس امان فاؤنڈیشن کی ملکیت تھا اور اس فروخت سے حاصل ہونے والی تمام آمدن فاؤنڈیشن کو فائدہ پہنچائے گی، جو دنیا بھر کے بچوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے وقف ہے۔
بیسویں صدی کی پینٹنگ میں سے اب تک ریکارڈ قیمت 179.4 ملین ڈالر تک رہی تھی، جو سن 2015 میں پکاسو کی ''ویمن آف الجیئرز'' کے لیے ادا کی گئی تھی۔ تاہم وارہول کی اس سے پہلے تک سب سے مہنگی پینٹنگ ''سلور کار کریش (ڈبل ڈیزاسٹر)'' ہے۔ یہ سن 2013 میں 104.5 ملین ڈالر میں فروخت ہوئی تھی۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)
کہانیاں سناتے شہزادی ڈیانا کے رنگا رنگ ملبوسات
لیڈی ڈیانا کی موت کے بیس برس بعد بھی اُن کے دیدہ زیب ملبوسات کی نیلامی پر سب سے زیادہ رقوم کی بولی لگی۔ لیڈی ڈیانا کے سابق گھر کِنسنگٹن پیلیس میں لگی نمائش میں دیکھیے کہ اُن کے ملبوسات کیا کہانی سنا رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
ورساچے کا گاؤن اور دلوں کی ملکہ
شہزادی ڈیانا نے سن انیس سو اکیانوے میں ایک فوٹو شوٹ کے لیے معروف اطالوی ڈیزائنر ورساچے کا بنا ہوا ایک افسانوی گاؤن زیب تن کیا تھا۔ سن 2015 میں ہونے والی ایک نیلامی میں یہ گاؤن دو لاکھ ڈالر میں فروخت ہوا۔ ورساچے اور لیڈی ڈیانا سن 1997میں شہزادی کی موت تک قریبی دوست رہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Zumapress
برطانوی شہزادی کی زندگی کے مختلف ادوار اور پہناوے
اسّی کے عشرے میں ڈیانا کے کپڑوں کی رومانوی وضع قطع نے نوّے کی دہائی میں نرم و ملائم ملبوسات کے لیے راہ ہموار کی۔ ان ملبوسات کو ڈیانا نے سفارت کاری کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا سیکھ لیا۔ جیسے جیسے برطانوی شاہی جوڑے کی شادی ناکامی سے دوچار ہوتی گئی، ڈیانا کے پہناوے خود مختاری اور طاقت کی علامت بنتے گئے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Y.Mok
عاجزانہ شروعات
نوعمر ڈیانا سپینسر فیشن ڈیزائننگ کی دنیا سے قطعاﹰ آگاہ نہیں تھی۔ اُن کے پاس ایک لباس ایک بلاؤز اور اچھے جوتوں کی ایک جوڑی تھی ۔ اس لیے ڈیانا کو اپنی دوستوں سے کپڑے مستعار لینے پڑتے تھے۔ یہ ہلکے گلابی رنگ کا بلاؤز ڈیانا نے شہزادہ چارلس کے ساتھ منگنی کی سرکاری تصویر بنواتے وقت جبکہ بھورے رنگ کا لباس سکاٹ لینڈ میں اپنے ہنی مون کے موقع پر پہنا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa/Y. Mok
شاہی جوڑے کا ہنی مون
ہنی مون اور اس کے کچھ عرصے بعد تک ڈیانا ایک عام عورت کی طرح شہزادہ چارلس کی دستِ نگر دکھائی دیتی رہیں۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اُن کی خود اعتمادی اور خود مختاری میں اضافہ ہوا جو اُن کے پہننے اوڑھنے کے اسٹائل میں نظر آنے لگا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
مثالی وارڈ روب
بڑھتے سالوں میں لیڈی ڈیانا نے کپڑوں کو سفارت کاری کے اظہار کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔
سعودی عرب کے ایک دورے کے موقع پر انہوں نے ایک ریشمی لباس پہنا جس پر سنہری دھاگے سے ’شاہین‘ کاڑھے گئے تھے۔ ’شاہین‘ تیل کی دولت سے مالا مال اس ریاست کی قومی علامت ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Mok
ٹریوولٹا کے ساتھ رقص
رطانوی ڈیزائنر وکٹر ایڈل اسٹائن کا بنایا ہوا نیلے رنگ کا یہ مخملیں گاؤن لیڈی ڈیانا نے سن 1985 میں وائٹ ہاؤس میں گالا ڈنر کے موقع پر پہنا تھا۔ یہاں اُنہوں نے مشہور اداکار جان ٹریوولٹا کے ساتھ رقص بھی کیا۔ دو سال بعد شہزادہ چارلس کے ساتھ جرمنی کے دورے پر اس وقت کے جرمن دارالحکومت بون میں آمد پر ڈیانا نے دوبارہ یہی لباس پہنا۔
وقت کے ساتھ ساتھ ڈیانا نے ملبوسات کا انتخاب کرنا سیکھ لیا۔ اُن کی پسندیدہ ڈیزائنر کیتھرین واکر تھیں جنہوں نے شہزادی کے لیے انتہائی خوبصورت گاؤن تخلیق کیے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Zumapress
رسالوں کے سرِ ورق پر دنیا میں سب سے زیادہ چھپنے والی خاتون
اخبارات کے ساتھ ڈیانا کے تعلقات کو روایتی ’ لو ہیٹ ریلیشن شپ‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ کبھی تو وہ بعض فوٹو گرافروں کی شکایت کرتی نظر آتیں اور کبھی جان بوجھ کر بھی میڈیا پر معلومات اور تصاویر افشا کر دیتی تھیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/K.Green
عوام کی شہزادی
شہزادہ چارلس اور لیڈی ڈیانا کی علیحدگی کا با ضابطہ اعلان سن 1992 میں ُہوا اور نّوے کی دہائی میں اُن کے پہننے کے انداز میں نمایاں تبدیلی نظر آئی۔ اب ڈیانا نے عوامی انداز اپنا لیا۔ اُن کی موت پر سابق برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلئیر نے انہیں ’عوام کی شہزادی‘ کہا۔
تصویر: Johny Eggitt/AFP/Getty Images
فیشن کی میراث
نمائش بین یہاں رکھے ڈیانا کے شام کے وقت پہننے والے گاؤن دیکھ کر بہت متعجب ہوتے ہیں، جو انہوں نے اسٹار فوٹو گرافر ماریو ٹیسٹینو سے فوٹو شوٹ کراتے ہوئے پہنے تھے۔ دیواروں پر آویزاں تصاویر ایک متحرک اور خود اعتماد ڈیانا کا عکس ہیں، جو اپنی زندگی سے مطمئن نظر آتی ہے۔