مارچ اور احتجاج: سماجی، سیاسی اور معاشی اثرات
29 اکتوبر 2022اس مارچ کے حوالے سے جہاں صنعتکار معاشی نقصانات کے حوالے سے پریشان ہیں، وہیں کہیں تجزیہ نگار احتجاج کے سماجی اور سیاسی اثرات پر بحث کر رہے ہیں۔
عمران خان کا مارچ لاہور سے شروع ہوا تھا، جو پنجاب کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا نومبر کے پہلے ہفتے میں اسلام آباد پہنچے گا۔
فوجی افسران کی پریس کانفرنس تبصروں اور تجزیوں کی زد میں
احتجاج، دھرنوں اور مارچوں کی تاریخ
پاکستان کی تاریخ میں احتجاجی دھرنوں اور ہڑتالوں کی روایت بہت پرانی ہے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ بڑے پیمانے پر مظاہرے پچاس کی دہائی میں لاہور میں ہوئے، جب پہلی دفعہ پنجاب کے اس دارالحکومت میں مارشل لاء نافذ کیا گیا۔ ساٹھ کی دہائی میں ایوب خان کے خلاف طلبہ کی تحریک چلی، جو بعد میں عوامی احتجاج میں بدل گئی۔ 70 کی دہائی میں نظام مصطفی تحریک چلی، جو ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تھی جب کہ اسی کی دہائی میں تحریک بحالی جمہوریت نے ملک کے طول و عرض پر اپنے پنجے گاڑے۔
1988 میں جمہوریت کی بحالی کے بعد پہلے نواز شریف نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف احتجاج کیا اور اس کے بعد بے نظیر بھٹو نے نواز شریف کی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کیا۔ بعد میں بھی دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف احتجاج کیا۔ 2007 میں جنرل پرویز مشرف کے خلاف وکلا تحریک چلی اور بعد میں نون لیگ نے لانگ مارچ کیا۔
دوہزار آٹھ کے بعد بھی نون لیگ اور پی پی پی نے ایک دوسرے کے خلاف تحریکیں چلائیں لیکن پاکستان کے احتجاجی سیاست کے منظر نامے پر 2014 سے عمران خان کا طوطی بول رہا ہے، جو کئی ناقدین کے مطابق 2014 سے مسلسل احتجاجی موڈ میں ہیں۔ عمران خان کے دور اقتدار میں پاکستان پیپلز پارٹی، ن لیگ اور مولانا فضل الرحمن کی جماعتوں نے بھی لانگ مارچز اور احتجاج کئے۔
لیکن احتجاجی منظرنامے کی عمومی تصویر میں سب سے نمایاں تصویر پی ٹی آئی ہے۔
احتجاج کے مقاصد
احتجاج اور احتجاجی تحریکوں کے ہمیشہ مقاصد مختلف رہے ہیں۔ ایریا اسٹڈی سینٹر پشاور یونیورسٹی کے سابق سربراہ ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کچھ احتجاجی تحریکوں کا رنگ عوامی رہا۔ کچھ صرف ذاتی مفادات کے لیے رہی ہیں اور کچھ نے پاکستان کے سیاسی کلچر کو بہت بری طرح برباد کیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ساٹھ کی دہائی میں ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک میں مہنگائی، طبقاتی تفریق اور کسانوں و مزدوروں کے مسائل سرفہرست تھے۔ اس کے علاوہ جمہوریت بھی اس کا مرکزی نقطہ تھا جب کہ 70 کی دہائی میں چلنے والی تحریک نے پچاس کی مذہبی تحریک کی طرح پاکستان کو مذہبی منافرت کی طرف دھکیلا۔ اس تحریک کا بنیادی نقطہ معاشرے کے سماجی ڈھانچے کو نقصان پہنچانا تھا۔‘‘
پشاور سے تعلق رکھنے والے اس مبصر کے خیال میں اسی کی دہائی میں چلنے والی تحریک بحالی جمہوریت کے مقاصد میں قومیتوں کے حقوق، کسانوں کے مسائل اور جمہوریت کی بحالی جیسے مسائل شامل تھے جب کہ نوے کی دہائی میں بے نظیر اور نواز شریف کی تحریکیں صرف اقتدار کے لیے تھی۔
عمران خان کا مارچ و احتجاج
ڈاکٹر سرفراز خان کا دعویٰ ہے کہ عمران خان کی سیاسی تحریکوں نے پاکستان کے سیاسی کلچر کو بہت بری طرح متاثر کیا اور اس پر منفی اثرات مرتب کئے۔ '’’پاکستان کی تاریخ میں غدار غدار کی اصطلاح جتنی عمران خان نے استعمال کی، شاید ہی کسی نے اتنی استعمال کی ہو جبکہ اصل مسائل سے توجہ ہٹا کر جعلی قسم کی قوم پرستی کو بھی پی ٹی آئی فروغ دے رہی ہے۔‘‘
کیا مارچ اور احتجاج اسٹیبلشمنٹ مخالف ہے
عمران خان نے پاکستانی فوج کے افسران کے خلاف انتہائی سخت زبان استعمال کی ہے۔سوشل میڈیا پر ایک کلپ وائرل ہورہا ہے جس میں عمران خان اسلام آباد میں متعین فوج کے دوسینیئر افسران کو وحشی قرار دے رہے ہیں لیکن سرفراز خان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی حقیقی معنوں میں جی ایچ کیو مخالف نہیں ہے۔ ''عمران خان نے کبھی یہ نہیں کہا کہ فوج کی معاشی سلطنت کو ختم کیا جائے یا اس کے سیاسی اثر و رسوخ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے بلکہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ان کو دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے مدد دے۔
دھرنے، مارچ اور احتجاج کے سماجی اثرات
کراچی سے تعلق رکھنے والی تجزیہ نگار اور معروف کالم نگار نے زاہدہ حنا کا کہنا ہے کہ عمران خان کے طرز سیاست نے بد تمیزی اور بد تہذیبی کے کلچر کو فروغ دیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان کی تاریخ میںسیاستدانوں کے درمیان ماضی میں بھی اختلافات ہوتے رہے ہیں لیکن جتنی سیاسی عدم برداشت اور گالی گلوچ کو پی ٹی آئی اور عمران خان نے فروغ دیا ہے، شائد کسی نے اتنا نہ کیا ہو۔‘‘
زاہدہ حنا کے مطابق پاکستان کی احتجاجی تحریکوں میں کبھی یہ نہیں ہوا کہ اپنے علاوہ سب کو غدار کہا جائے اور ہر ادارے کے ہی پیچھے لگ جایا جائے۔ ’’ماضی میں یہ نہیں ہوا کہ آپ میڈیا سے لے کر الیکشن کمیشن تک سب پر کیچڑ اچھالیں۔ آپ کے متعین سیاسی حریف ہوتے تھے، جن سے آپ بات چیت بھی کرتے تھے اور مذاکرات بھی کرتے تھے اور بعض اوقات کسی نتیجے پر بھی پہنچتے تھے لیکن عمران خان کی پی ٹی آئی میں سیاسی تحمل کہیں نظر نہیں آتا۔‘‘
معاشی اثرات
کراچی چیمبر آف کامرس کے سابق صدر قیصراحمد شیخ کا کہنا ہے کہ ملک بدترین معاشی حالات سے گزر رہا ہے اور سیاسی جماعتوں کو احتجاج اور دھرنے کے معاشی اثرات کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''صنعت کاروں کو یہ فکر لاحق ہے کہ اگر وقت پر اپنی پیداوار کو عالمی مارکیٹ یا مقامی مارکیٹ تک نہیں پہنچائیں گے، تو ان کے نہ صرف آرڈرز کینسل ہو جائیں گے بلکہ کوئی بھی پاکستان سے کاروبار کرنے میں بہت زیادہ دلچسپی نہیں دکھائے گا۔ ہماری معاشی صورت حال یہ ہے کہ کسی وقت میں انڈیا کی معیشت ہم سے چار گنا آگے تھی اور اب وہ 12 گنا آگے ہے۔ بالکل اسی طرح معاشی میدان میں ہمارا نمبر دنیا میں سڑسٹھواں ہے۔‘‘
پاک پتین سے تعلق رکھنے والے زرعی امور کے ماہر عامر حیات بھنڈرا کا کہنا ہے کہ احتجاجوں کی وجہ سے زرعی اجناس کو مارکیٹ تک پہنچایا نہیں جا سکتا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگرزرعی اجناس کافی عرصے تک سڑکوں پر یا انتظار کی کیفیت میں رہیں، تو وہ گل سڑ جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں کولڈ اسٹوریج کا کوئی انتظام نہیں ہے، جس کی وجہ سے ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق ہمیں ایک بلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان بھی ہوا ہے۔ تو یقینا کسانوں کو اور زراعت کو احتجاج اور دھرنوں سے شدید نقصان پہنچتا ہے۔‘‘