مارینا گلبہاری، شہرت کی بلندیوں سے گمنامی کی زندگی تک
شمشیر حیدر5 مئی 2016
افغان فلم اسٹار مارینا گلبہاری کو فلم ’اسامہ‘ سے بین الاقوامی شہرت ملی۔ گزشتہ برس جب گلبہاری کی حجاب کے بغیر ایک تصویر منظر عام پر آئی تو اسے جان کی دھمکیاں ملنا شروع ہوگئیں جس کے بعد اسے ملک چھوڑنا پڑ گیا۔
اشتہار
چوبیس سالہ مارینا گلبہاری اور اس کے خاوند نوراللہ عزیزی نے فرانس میں سیاسی پناہ کی درخواست دے رکھی ہے اور وہ اب پیرس سے نوّے کلومیٹر دور تارکین وطن کے ایک کیمپ میں زندگی گزار رہے ہیں۔
گلبہاری کبھی کابل کی سڑکوں پر اخبار بیچا کرتی تھی۔ دس برس کی عمر میں اس کی زندگی کا رخ اس وقت تبدیل ہو گیا جب ’اسامہ‘ فلم کے ڈائریکٹر نے 2001ء میں اسے بین الاقوامی شہرت یافتہ فلم میں ایک ایسی لڑکی کا کردار ادا کرنے کے لیے منتخب کیا جو طالبان کے دور اقتدار میں لڑکے کا روپ دھار لیتی ہے تاکہ وہ آزادی کے ساتھ کابل کی سڑکوں پر گھوم پھر سکے۔
اس فلم کو گولڈن گلوب ایوارڈ بھی ملا اور بین الاقوامی سطح پر شہرت ملنے کے علاوہ گلبہاری افغانستان میں بھی ہیروئین کے طور پر جانی جانے لگی۔ لیکن پھر اس کی زندگی میں ایک اور موڑ آ گیا۔ اکتوبر 2015ء میں وہ جنوبی کوریا میں ایک فلم فیسٹول میں شریک تھی جس دوران گلبہاری کی ایک ایسی تصویر منطر عام پر آئی جس میں وہ بے پردہ تھی۔
یہ تصویر سوشل میڈیا کے ذریعے وائرل ہوئی اور رجعت پسند افغان طبقے کو ناراض کرنے کا سبب بن گئی۔ گلبہاری اور اس کے اہل خانہ کو جان کی دھمکیاں ملنا شروع ہو گئیں۔ گلبہاری کے آبائی گاؤں کے مولوی صاحب نے کہا کہ اسے گھر واپس آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
عزیزی کا کہنا ہے کہ اس کا سیدھا مطلب یہ تھا کہ اگر وہ واپس گئی تو اسے جان سے مار دیا جائے گا۔ چند ماہ قبل وہ اپنے خاوند کے ہمراہ پیرس میں ایک فلم فیسٹول میں شرکت کے لیے آئی جس کے بعد اس کے خاندان والوں نے اسے کہا کہ وہ وطن واپس نہ آئے۔
گلبہاری کے خاوند نور اللہ عزیزی نے اے ایف پی کو بتایا، ’’ہم نے یہاں رکنے کے بارے میں سوچا تک نہ تھا۔ ہم لوگ ساتھ بھی کچھ نہیں لے کر آئے تھے۔‘‘ لیکن ان حالات میں وطن واپسی خود کشی کے مترادف تھی اس لیے دونوں نے فرانس میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے درخواست دے دی اور اب وہ دونوں پیرس سے نوّے کلو میٹر دور درو نامی فرانسیسی شہر میں قائم پناہ گزینوں کے ایک مرکز میں رہ رہے ہیں۔
’اسامہ‘ فلم کے ہدایت کار صدیق برمک بھی چند برس پہلے افغانستان چھوڑ کر فرانس منتقل ہو گئے تھے۔ برمک کا کہنا تھا، ’’افغانستان میں اگر آپ اداکار یا اداکارہ کے طور پر کام کرتے ہیں تو لوگ آپ پر کافر ہونے کا الزام لگا دیتے ہیں۔ اداکاروں کی زندگی افغانستان میں محفوظ نہیں ہے۔‘‘
گلبہاری کی طرح عزیزی بھی افغان فلموں میں اداکاری کرتے تھے۔ فرانس میں بھی وہ دونوں خود کو محفوظ نہیں سمجھتے۔ عزیزی کا کہنا ہے کہ وہ جب بھی کیمپ سے نکلتا ہے تو اپنی بیوی کو کمرے میں بند کر دیتا ہے تاکہ کوئی اس کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گلبہاری پر حملہ نہ کر دے۔
مارینا گلبہاری جب باہر بھی نکلتی ہے تو اپنی شناخت چھپانے کے لیے نقاب اوڑھ لیتی ہے جو اس لیے بھی ایک المیہ ہے کہ نقاب نہ کرنے کی وجہ سے اسے ہجرت کرنا پڑی۔
شہرت کی بلندیوں سے گمنامی کی زندگی گزارنے تک کے سفر نے اسے اتنا مایوس کر دیا کہ اس نے خودکشی کی کوشش بھی کی۔ فلم سے دوری نے گلبہاری کو ذہنی مریضہ بنا دیا ہے۔ اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے گلبہاری کا کہنا تھا، ’’سنیما میری زندگی ہے۔ فلم کے ذریعے میں اپنے لوگوں کے بارے میں سب کچھ کہہ سکتی ہوں۔‘‘
اپنی اس نئی زندگی کے بارے میں یہ جوڑا خوش نہیں ہے۔ گلبہاری کا کہنا تھا، ’’پہلے میں مستقبل کے خواب دیکھا کرتی تھی، اب میں صرف ماضی کے بارے میں سوچتی رہتی ہوں۔‘‘
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘