انتہائی دائیں بازو کی فرانسیسی سیاستدان مارین لے پین کی عوامی مقبولیت اور آئندہ صدارتی انتخابات میں ممکنہ کامیابی کو روکنے کی کئی کوششیں ناکام ہو گئی ہیں۔ کیا ان پر بننے والی ایک تازہ فلم اس حوالے سے کوئی فرق ڈال سکے گی؟
اشتہار
فرانس میں صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران انتہائی دائیں بازو کی سیاستدان مارین لے پین کی نیشنل فرنٹ کو مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔ اس عوامیت پسند خاتون سیاستدان پر فراڈ کے الزامات عائد کیے گئے، نفرت انگیز بیانات پر تحقیقات کی گئیں اور اعتدال پسند سیاستدانوں نے اسی طرح کے کئی الزامات عائد کیے۔ تاہم وہ اپنی صدارتی مہم میں کافی حد تک کامیاب نظر آ رہی ہیں۔
اب مارین لے پین پر بنائی گئی ایک انتہائی متنازعہ فلم ملکی الیکشن سے نو ہفتے قبل نمائش کے لیے پیش کی جا رہی ہے۔ سیاسی ناقدین نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا یہ فلم فرانسیسی ووٹرز کی رائے بدلنے میں کامیاب ہو سکے گی؟ Chez Nous (یہ ہمارا ملک ہے) نامی اس فلم کا پریمیئر بدھ کے دن فرانسیسی سینما گھروں میں ہو رہا ہے۔ اس فلم میں ایک نرس کے سیاسی کیریئر کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جو علاقائی انتخابات میں ایک انتہائی دائیں بازو کی سیاسی پارٹی ’پیٹرایٹک بلاک‘ کی ٹکٹ پر الیکشن لڑتی ہے۔
اس فلم میں کے پلاٹ میں یہ پیغام پنہاں ہے کہ اینٹی امیگرینٹس اور یورپی یونین مخالفین انتہائی دائیں بازو کے سیاستدانوں سے یورپ کو کس قدر شدید خطرات لاحق ہیں۔ ایسے کئی سیاستدان گزشتہ کئی برسوں سے خود پر لگے ایسے الزامات کو دور کرنے کی کوشش میں بھی ہیں کہ وہ نسل پرست اور یہودی مخالف نہیں ہیں۔
فلم Chez Nous کے ڈائریکٹر لوکاس بیلواکس نے میڈیا سے گفتگو میں اس فلم کی کہانی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایسے لوگوں کے لیے یہ فلم بنائی ہے، جو موجودہ سیاسی حالات سے ناخوش ہیں۔ بیلجیم کے فلمساز لوکاس نے مزید کہا، ’’میں چاہتا ہوں کہ ووٹرز یہ سمجھیں کہ جب وہ (مارین لے پین کی سیاسی پارٹی) نیشنل فرنٹ کو ووٹ دیں گے تو دراصل وہ کس نظریے کی حمایت کر رہے ہوں گے۔‘‘
انتہائی دائیں بازو کے یورپی رہنما اور سیاسی جماعتیں
سست اقتصادی سرگرمیاں، یورپی یونین کی پالیسیوں پر عدم اطمینان اور مہاجرین کے بحران نے کئی یورپی ملکوں کے انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو کامیابی دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمن: فراؤکے پیٹری، الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ
جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ کی لیڈر فراؤکے پیٹری نے تجویز کیا تھا کہ جرمن سرحد کو غیرقانونی طریقے سے عبور کرنے والوں کے خلاف ہتھیار استعمال کیے جائیں۔ یہ جماعت جرمنی میں یورپی اتحاد پر شکوک کی بنیاد پر قائم ہوئی اور پھر یہ یورپی انتظامی قوتوں کے خلاف ہوتی چلی گئی۔ کئی جرمن ریاستوں کے انتخابات میں یہ پارٹی پچیس فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
تصویر: Reuters/W. Rattay
فرانس: مارین لے پین، نیشنل فرنٹ
کئی حلقوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ برطانیہ میں بریگزٹ اور امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے انتہائی دائیں بازو کی فرانسیسی سیاسی جماعت کو مزید قوت حاصل ہو گی۔ سن 1972 میں قائم ہونے والے نیشنل فرنٹ کی قیادت ژاں ماری لے پین سے اُن کی بیٹی مارین لے پین کو منتقل ہو چکی ہے۔ یہ جماعت یورپی یونین اور مہاجرین کی مخالف ہے۔
تصویر: Reuters
ہالینڈ: گیئرٹ ویلڈرز، ڈچ پارٹی فار فریڈم
ہالینڈ کی سیاسی جماعت ڈچ پارٹی فار فریڈم کے لیڈر گیئرٹ ویلڈرز ہیں۔ ویلڈرز کو یورپی منظر پر سب سے نمایاں انتہائی دائیں بازو کا رہنما خیال کیا جاتا ہے۔ مراکشی باشندوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر پر سن 2014 میں ویلڈرز پر ایک مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ اُن کی سیاسی جماعت یورپی یونین اور اسلام مخالف ہے۔ اگلے برس کے پارلیمانی الیکشن میں یہ کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Koning
یونان: نکوس مِشالاولیاکوس، گولڈن ڈان
یونان کی فاشسٹ خیالات کی حامل سیاسی جماعت گولڈن ڈان کے لیڈر نکوس مِشالاولیاکوس ہیں۔ مِشالاولیاکوس اور اُن کی سیاسی جماعت کے درجنوں اہم اہلکاروں پر سن 2013 میں جرائم پیشہ تنظیم قائم کرنے کا مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا اور وہ سن 2015 میں حراست میں بھی لیے گئے تھے۔ سن 2016 کے پارلیمانی الیکشن میں ان کی جماعت کو 16 نشستیں حاصل ہوئیں۔ گولڈن ڈان مہاجرین مخالف اور روس کے ساتھ دفاعی معاہدے کی حامی ہے۔
تصویر: Angelos Tzortzinis/AFP/Getty Images
ہنگری: گَبور وونا، ژابِک
ہنگری کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت ژابِک کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سن 2018 کے انتخابات جیت سکتی ہے۔ اس وقت یہ ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ سن 2014 کے پارلیمانی الیکشن میں اسے بیس فیصد ووٹ ملے تھے۔ یہ سیاسی جماعت جنسی تنوع کی مخالف اور ہم جنس پرستوں کو ٹارگٹ کرتی ہے۔ اس کے سربراہ گَبور وونا ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
سویڈن: ژیمی آکسن، سویڈش ڈیموکریٹس
ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن کے بعد سویڈش ڈیموکریٹس کے لیڈر ژیمی آکسن نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ یورپ اور امریکا میں ایسی تحریک موجود ہے جو انتظامیہ کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ سویڈش ڈیموکریٹس بھی مہاجرین کی آمد کو محدود کرنے کے علاوہ ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی مخالف ہے۔ یہ پارٹی یورپی یونین کی رکنیت پر بھی عوامی ریفرنڈم کا مطالبہ رکھتی ہے۔
تصویر: AP
آسٹریا: نوربیرٹ، فریڈم پارٹی
نوربیرٹ ہوفر آسٹریا کی قوم پرست فریڈم پارٹی کے رہنما ہیں اور وہ گزشتہ برس کے صدارتی الیکشن میں تیس ہزار ووٹوں سے شکست کھا گئے تھے۔ انہیں گرین پارٹی کے سابق لیڈر الیگزانڈر فان ڈیئر بیلن نے صدارتی انتخابات میں شکست دی تھی۔ ہوفر مہاجرین کے لیے مالی امداد کو محدود اور سرحدوں کی سخت نگرانی کے حامی ہیں۔
سلوواکیہ کی انتہائی قدامت پسند سیاسی جماعت پیپلز پارٹی، ہمارا سلوواکیہ ہے۔ اس کے لیڈر ماریان کوتلیبا ہیں۔ کوتلیبا مہاجرین مخالف ہیں اور اُن کے مطابق ایک مہاجر بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ انہوں نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کو ایک مرتبہ جرائم پیشہ تنظیم بھی قرار دیا تھا۔ یہ یورپی یونین کی مخالف ہے۔ گزشتہ برس کے انتخابات میں اسے آٹھ فیصد ووٹ ملے تھے۔ پارلیمان میں چودہ نشستیں رکھتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
8 تصاویر1 | 8
مارین لے پین کے قریبی ساتھی اور مشیر فلورین فلپوٹ نے اس فلم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے، ’’ہمیں اس فلم سے خوش ہونا چاہیے کیونکہ میرے خیال میں یہ فلم ہمارے پیغام کو پھیلائے گی۔‘‘ تاہم انہوں نے اس فلم کو ملک کےغریب طبقے کی ’ہتک‘ کے مترادف بھی قرار دیا ہے۔ لے پین کی پارٹی نے اس فلم کو ایک پراپیگنڈا قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ دراصل اس منصوبے سے ووٹرز کی رائے کو متاثر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ فلم شمالی فرانس کے ایک چھوٹے سے ٹاؤن کی ایک ایسی سنگل ماں کی زندگی پر مبنی ہے، جو اپنے دو بچوں کی کفالت کے علاوہ اپنے والد کی دیکھ بھال بھی کرتی ہے۔ یہ کردار معروف یورپی اداکارہ ایملے ڈیکونے نے نبھایا ہے۔ فلم ڈائریکٹر لوکاس نے البتہ واضح کیا ہے کہ اس فلم میں کسی کو مشورہ نہیں دیا گیا کہ انہوں نے ووٹ کس کو ڈالنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ فلم دراصل ایک سروے ہے کہ نیشنل فرنٹ کیا ہے جبکہ اس فلم کی نوّے فیصد کہانی حقائق پر مبنی ہے۔