ماریوپول کے اسٹیل پلانٹ پر قبضے کی لڑائی آخری مراحل میں
3 مئی 2022یوکرینی آزوف رجمنٹ کے نائب کمانڈر نے اسٹیل پلانٹ کے آخری مورچے پر روسی فوج کے تازہ حملے کی سب سے پہلے تصدیق کی تھی۔ یہ امر اہم ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے دو ہفتے قبل پلانٹ پر قبضہ کرنے والے فوجیوں کی کمان کو ہدایت کی تھی کہ وہ اندھا دھند حملے نہ کریں بلکہ صورت حال کو کنٹرول کرتے ہوئے پلانٹ میں موجود فوجیوں تک پہنچنے والی سپلائی لائن کو کاٹ دیں۔
ماریوپول سے لوگوں کا انخلا، ریڈ کراس کی کوشش کامیاب
آزوف رجمنٹ کے نائب کمانڈر نے روسی حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ نئے حملے کی شروعات منگل تین مئی کو کی گئی ہے۔ اس حملے سے قبل ویک اینڈ پر کچھ عام شہریوں کو اقوام متحدہ کی معاونت سے محفوظ مقام کی جانب بھی روانہ کیا گیا۔
آخری مزاحمتی مقام
ماریوپول شہر میں آزوف اسٹیل پلانٹ وہ آخری مزاحمتی مقام ہے جہاں ابھی بھی یوکرینی فوجی مورچہ بند اور روسی حملوں کا بہادری سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ دوسری جانب تنظیم برائے یورپی سکیورٹی و تعاون میں متعین امریک ایلچی مائیکل کارپینٹر نے پیر دو مئی کو کہا تھا کہ روس مشرقی یوکرین کے بیشتر علاقوں کو اپنے ملک میں ضم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
یوکرین کی نیشنل گارڈ کے بارہویں آپریشنل بریگیڈ کے کمانڈر ڈینس شلیگا کا کہنا ہے کہ ابھی تک ان کے فوجیوں نے دشمن کے حملوں کا مناسب جواب دینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ روسی حملہ آور دستے ٹینکوں اور بکتربند گاڑیوں پر بھی سوار ہیں۔
روس کی یوکرینی جنگ میں ماریوپول انسانی مصیبت و پریشانی اور لاچارگی کی علامت بن کر ابھرا ہے۔
امدادی ورکرز کی سرگرمیاں
نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق منگل کے روز امدادی ورکرز نے یوکرینی شہریوں میں خوراک، بزرگوں کے لیے وہیل چیئرز اور بچوں میں کھلونے بھی تقسیم کیے۔
اس تمام کارروائی کے بعد انہیں سست رفتاری کے ساتھ اسٹیل پلانٹ سے محفوظ مقام کی جانب روانہ کر دیا گیا۔ ان افراد کی تعداد ایک سو ایک بتائی گئی ہے۔
عام شہریوں کو روانہ کرنے کے بعد ہی روسی فوج کے حملوں کی شروعات ہوئی۔ روس کی دس ہفتوں سے جاری جنگ کے بعد کچھ لوگوں کو محفوظ مقام کی جانب منتقل کرنے کو ایک اچھی خبر قرار دیا ہے۔ ماریوپول کے میئر کا کہنا ہے کہ ابھی بھی دو سو سویلین اس پلانٹ پر رہ گئے ہیں۔
ماریوپول پر ممکنہ قبضہ: روس کے لیے اہم فتح، یوکرین کی مزاحمتی علامت
اس مناسبت سے ریڈ کراس کے سربراہ نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ وہ پلانٹ پر موجود تمام عام شہریوں کو نکالنے سے قاصر رہے تھے۔
اس ملک سے کئی ملین افراد اپنی جانیں بچا کر ہمسایہ ممالک میں پناہ لے چکے ہیں۔ اس جنگ میں اب تک ہزاروں فوجی اور شہری ہلاک چکے ہیں۔
ع ح ع ا (اے پی)