ماسکو اور بیجنگ، عملیت پسندی پر مبنی دوستی
25 مارچ 2013چینی صدر کے ساتھ ملاقات کے بعد میزبان صدر پوٹن نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا:’’ہم اِس علامتی اقدام کی بہت قدر کرتے ہیں۔‘‘ ماہرین بھی اِسے علامتی اہمیت کا حامل دورہ قرار دے رہے ہیں۔ ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے روسی کیڈمی آف سائنسز میں مشرق بعید کے لیے قائم انسٹی ٹیوٹ کے نائب ڈائریکٹر سیرگئی لُسیانین کا کہنا تھا:’’اِس دورے سے روس اور چین کے درمیان اسٹریٹیجک شراکت مستحکم ہوئی ہے۔‘‘ اُن کا کہنا تھا کہ وسط مارچ میں منتخب ہونے والے چینی صدر شی جِن پنگ کا اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے روس کا انتخاب کرنا محض ایک اتفاق نہیں ہے۔
سینٹر فار ایشیا پیسیفک اسٹڈیز سے وابستہ یولیا لوکونینا کے خیال میں بھی چین روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو کم از کم یکساں سطح پر رکھنے کا خواہاں ہے۔ تاہم اُنہوں نے اس جانب اشارہ کیا کہ روس اور چین ایک دوسرے سے مختلف اہداف کے تعاقب میں ہیں۔ جہاں روس چین کو خاص طور پر خام مادے فراہم کر رہا ہے، وہاں چین سے خاص طور پر صنعتی مصنوعات روس پہنچ رہی ہیں۔ ایسے میں معلومات اور ٹیکنالوجی کا کوئی تبادلہ عمل میں نہیں آ رہا ہے۔
روس کے انتہائی مشرقی علاقوں میں چینی سرمایہ کاری
ان تمام حقائق کے باوجود ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت کرنے والے ماہرین نے چینی صدر شی کے دورہء ماسکو کے نتائج کو مثبت قرار دیا۔ سیرگئی لُسیانین نے کہا:’’میرے خیال میں اس دورے کے ذریعے چینی سرمایہ کاروں کو روس میں مشرقی سائبیریا اور مشرق بعید کے ترقی پذیر علاقوں میں پیسہ لگانے پر مائل کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔‘‘ چینی سرمایہ کار کمپنی CIC نے ماسکو میں متعدد سمجھوتوں پر دستخط کیے۔
لُسیانین نے اُن دستاویزات پر دستخطوں کو بھی ایک اہم قدم قرار دیا، جن کا مقصد ’توانائی کے شعبے میں توسیع اور تنوع‘ لانا ہے۔ ان سمجھوتوں کے تحت روس چین کو زیادہ مقدار میں تیل فراہم کرے گا اور گیس کی ایک نئی پائپ لائن تعمیر کرے گا۔ روسی کمپنی گاس پروم کے سربراہ الیکسی ملر نے ماسکو میں بتایا کہ اسی سال ایک سمجھوتے پر دستخط کیے جائیں گے، جس کے تحت 2018ء سے چین کو گیس کی فراہمی شروع ہو جائے گی۔
روس اور چین فوجی شعبے میں بھی زیادہ قریبی اشتراکِ عمل کا ارادہ رکھتے ہیں۔ روسی وزیر دفاع سیرگئی شوئیگو نے چینی صدر کو روسی مسلح افواج کا کمان سینٹر دکھایا۔ اُن سے پہلے اب تک کسی بھی غیر ملکی سربراہِ مملکت کو اس مرکز کا دورہ نہیں کروایا گیا۔ اتوار 24 مارچ کو شوئیگو نے اپنے چینی ہم منصب چانگ وانکوآن کے ساتھ بات چیت کی۔ اس موقع پر روسی فوج نے اپنے چینی مہمانوں کو اُس میزائل شکن امریکی نظام کا کمپیوٹر ماڈل بھی دکھایا، جسے ماسکو حکومت ہدفِ تنقید بناتی چلی آ رہی ہے۔
مسابقت بھی اور شراکت بھی
روسی ماہر لُسیانین کے مطابق چین اور روس ساتھی ہی نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کے حریف بھی ہیں۔ جہاں چین گزشتہ برسوں کے دوران دنیا کی بڑی اقتصادی طاقتوں میں سے ایک بن کر اُبھرا ہے، وہاں روس کی طاقت میں کمی آئی ہے۔ قازقستان یا ازبکستان جیسی وسطی ایشیائی ریاستوں میں روس اور چین کے درمیان خام مادوں کے حوالے سے مقابلہ بازی کی فضا پائی جاتی ہے۔ تاہم اس حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان کسی تنازعے نے جنم نہیں لیا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی دونوں ملک زیادہ سے زیادہ مشترکہ موقف اپنا رہے ہیں۔ دونوں ملکوں نے مل کر شام کی خانہ جنگی سے متعلق متعدد قراردادوں کو ناکام بنایا ہے۔ ماسکو میں چینی صدر مملکت نے کہا کہ چین باہر سے کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے خلاف ہے۔ روسی صدر بھی متعدد مرتبہ اسی طرح کے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں۔
R.Goncharenko,W.Jegor/aa/km