روسی حکومت نے اس سے قبل امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے لیے کام کرنے والے سابق ملازم کو سن 2020 میں مستقل رہائش دی تھی۔ اسنوڈن جاسوسی کے الزام میں امریکہ کو مطلوب ہیں۔
اشتہار
روس کے صدر ولادمیر پوٹن نے 26 ستمبر پیر کے روز سابق امریکی سکیورٹی کانٹریکٹر ایڈورڈ اسنوڈن کو شہریت دے دی۔ روسی صدر پوٹن نے اسنوڈن کے ساتھ ہی تقریباً 72 دیگر غیر ملکی شہریوں کو بھی روسی شہریت دینے کے ایک حکم نامے پر دستخط کیے ہیں۔
کریملن نے اسنوڈن کی شہریت پر بغیر کوئی تبصرہ کیے، یہ فہرست اپنی سرکاری ویب سائٹ پر شائع کی ہے، جبکہ اسنوڈن نے بھی ابھی تک اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
البتہ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اتنی بات ضرور کہی کہ وہ ابھی تک اسنوڈن کی امریکی شہریت کی حیثیت میں کسی تبدیلی سے آگاہ نہیں ہیں۔
پرائس نے مزید کہا کہ اسنوڈن کے بارے میں واشنگٹن کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ ایک طویل عرصے سے یہ مطالبہ کرتا رہا ہے کہ اسنوڈن جاسوسی کے الزام میں فوجداری مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے امریکہ کو مطلوب ہیں اور انہیں واپس آنا ہو گا۔
ایڈورڈ اسنوڈن کون ہیں؟
39 سالہ اسنوڈن نے امریکی قومی سلامتی ایجنسی کے خفیہ نگرانی کے سے متعلق پروگراموں کے بارے میں دستاویزات لیک کر دی تھیں اور پھر وہ سن 2013 میں امریکہ فرار ہو گئے تھے۔ وہ امریکی ایجنسی کے لیے سن 2009 سے کام کر رہے تھے۔
تاریخ کے اہم ترین امریکی انکشافات کے لیے ذمہ دار اسنوڈن نے سن 2013 میں روس سے سیاسی پناہ کی درخواست کی تھی۔ تبھی سے وہ
روس میں مقیم ہیں اور ماسکو نے انہیں سن 2020 میں مستقل رہائش کا حق فراہم کیا تھا۔
اسی وقت اسنوڈن نے کہا تھا کہ وہ روسی شہریت کے لیے درخواست دینے کا منصوبہ تیار کر رہے ہیں۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اسنوڈن نے اپنی امریکی شہریت ترک کی ہے یا نہیں۔
روس میں قدر ے خاموش زندگی
اسنوڈن کے وکیل نے روسی سرکاری خبر رساں ایجنسی آر آئی اے نووستی کو بتایا ہے کہ اسنوڈن کی اہلیہ لنڈسے مل، جو کہ خود بھی امریکی شہری ہیں، روسی پاسپورٹ کے لیے جلد ہی درخواست دینے والی ہیں۔ دسمبر 2020 میں اس جوڑے کے ہاں ایک بچہ بھی ہوا تھا۔
اسنوڈن نے روس میں قدرے خاموش پروفائل برقرار رکھا ہے اور کبھی کبھار ہی سوشل میڈیا پر روسی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں۔ سن 2019 میں اسنوڈن نے کہا تھا کہ اگر منصفانہ ٹرائل کی ضمانت دی جائے، تو وہ امریکہ واپس آنے کے لیے تیار ہوں گے۔
اشتہار
اسنوڈن کی مختصر کہانی
اسنوڈن کو سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) نے سن 2006 میں بھرتی کیا تھا اور 2007 میں انہیں جنیوا میں تعینات کیا گیا، جہاں انہوں نے سفارتی احاطے میں نیٹ ورک سکیورٹی ٹیکنیشن کے طور پر کام کیا۔
اسنوڈن نے سن 2009 میں نیشنل سکیورٹی ایجنسی میں کام کرنے کے لیے سی آئی اے کی ملازمت ترک کر دی۔ مئی سن 2013 میں انہوں نے این سی اے سے چھٹی طلب کی اور ہانگ کانگ چلے گئے۔
ہانگ کانگ میں ہی اسنوڈن نے برطانوی اخبار دی گارڈین کے صحافیوں سے ملاقات کی اور پھر اسی اخبار نے بالآخر پہلی بار آن لائن امریکی خفیہ نگرانیکے رازوں کا انکشاف کیا تھا۔ اس کے فوری بعد ہی دیگر امریکی اخبارات میں بھی انکشافات ہونے لگے۔
سن 2013 میں جرمن نیوز میگزین ڈیر اسپیگل نے اسنوڈن کی ان خفیہ معلومات کی بھی اطلاع دی، جس کے مطابق این سی اے نے سابق
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے فون سمیت یورپی دفاتر اور رہنماؤں کی بھی جاسوسی کی گئی تھی۔
ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے پی)
خفیہ معلومات عام کرنا، سلسلہ نیا نہیں
امریکی خفیہ ادارے کی طرف سے انٹرنیٹ کے ذریعے نگرانی کے پروگرام کے بارے میں میڈیا کو مطلع کرنے والے ایڈورڈ سنوڈن مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ تاہم وہ خفیہ معلومات عام کرنے والے پہلے اہلکار نہیں ہیں۔
تصویر: Reuters
ایڈورڈ سنوڈن، ہیرو یا غدار
بہت سے لوگوں کے لیے ایڈورڈ سنوڈن ایک ہیرو ہے تاہم امریکی حکومت کی نظر میں وہ ایک غدار ہے کیونکہ اس نے ملکی خفیہ ایجنسی کی طرف سے انٹرنیٹ نگرانی کے پروگرام کی تفصیلات میڈیا کو دی تھیں۔ امریکا اس وقت سنوڈن کے خلاف قانونی کارروائی کی غرض س اُسے وطن واپس لانے کے لیے سر توڑ کوشش کر رہا ہے۔
تصویر: Getty Images
شرمندگی کی وجہ بننے والا بریڈلی میننگ
امریکی فوجی ایڈروڈ بریڈلی میننگ کو مئی 2010ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے خفیہ معلومات عام کرنے والی ویب سائٹ وِکی لیکس کو خفیہ ویڈیوز اور دستاویزات فراہم کی تھیں۔ وکی لیکس پر ان دستاویزات کی اشاعت سے امریکا کو عالمی سطح پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خفیہ معلومات عام کرنے کا آغاز کرنے والے
1974ء میں ایف بی آئی کے نائب صدر مارک فیلٹ مہینوں تک واشنگٹن پوسٹ کے دو رپورٹرز کو یہ تفصیلات فراہم کرتے رہے کہ کس طرح اس وقت کے صدر رچرڈ نکسن اپنی انتخابی مہم کے دوران اپوزیشن ڈیموکریٹس کی جاسوسی کرا رہے ہیں۔ صدر نکسن کو اسی معاملے پر استعفیٰ دینا پڑا تھا مگر مارک فیلٹ 33 برس تک اس حوالے سے گمنام رہا۔
تصویر: AP
واٹر گیٹ اسکینڈل کی معلومات
امریکی تاریخ کے ایک اہم اسکینڈل واٹر گیٹ کی تفصیلات منظر عام پر لانے کا سہرا عام طور پر واشنگٹن پوسٹ کے دو رپورٹرز بوب وڈورڈز اور کارل بیرنسٹائن کے سر باندھا جاتا ہے۔ تاہم ان کو اس اسکینڈل کی تفصیلات فراہم کرنے کے پیچھے بھی مارک فیلٹ کا ہاتھ تھا۔ فیلٹ نے 2005ء میں ان حوالوں سے اپنی شناخت عام کی۔ ان کا انتقال 2008ء میں ہوا۔
تصویر: AP
روس میں خفیہ معلومات عام کرنے والے کا انجام
مارچ 2013ء میں لی گئی اس تصویر میں خفیہ معلومات عام کرنے والے روسی ایجنٹ سیرگئی لیونیڈووچ ماگنٹزکی کے وکلاء عدالت میں خالی پنجرے کے پاس بیٹھے نظر آ رہے ہیں۔ ملزم 2009ء میں ماسکو جیل میں پراسرار حالات میں ہلاک ہو گیا تھا۔ اس ایجنٹ نے ریاستی انتظام میں چلنے والی کمپنیوں میں بدعنوانی سے میڈیا کو آگاہ کیا تھا۔ اس پر مبینہ ٹیکس فراڈ کا مقدمہ بنایا گیا تھا۔
تصویر: Reuters
ٹیکس چوروں کی معلومات
سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والے سابق بینک منیجر رڈولف ایلمر نے 2011ء میں ایسے دو ہزار اکاؤنٹس کا ڈیٹا وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج کو فراہم کیا تھا، جن کے بارے میں شبہ تھا کہ ان اکاؤنٹس ہولڈرز نے ٹیکس چوری کی ہے۔ سوئس حکام کی طرف سے ایلمر کے خلاف بینک کی خفیہ معلومات عام کرنے پر مقدمہ قائم کیا گیا جبکہ جولیان اسانج آج بھی جنسی تشدد کے مقدمے میں سویڈن کو مطلوب ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
خفیہ معلومات عام کرنے والوں کے تحفظ کا یورپی قانون
یورپی یونین کے ایک اہلکار پال فان بوئیٹینن نے 1996ء میں یونین کے اعلیٰ اہلکاروں کی طرف سے مالیاتی بے قاعدگیوں کی معلومات عام کیں، جس کے بعد یورپی یونین کے تمام 17 کمشنروں کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔ یورپی کمیشن کی طرف سے فان بوئیٹینن کو بھی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد سال 2000ء میں یورپی یونین میں ایک قانون کے ذریعے ایسے افراد کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے، جوبے قاعدگیاں عام کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images
مشکوک حادثہ
کیرن سلک وُڈ اوکلاہوما کے پلوٹونیم ری پراسیسنگ پلانٹ میں کام کرتی تھیں، جہاں انہوں نے سکیورٹی کے حوالے سے بڑی خامیوں کی نشاندہی پر مبنی اپنی رپورٹ تیار کی۔ وہ یہ رپورٹ میڈیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے اپنی گاڑی پر جا رہی تھیں، جب ان کی کار کو حادثہ پیش آیا اور وہ اس میں ہلاک ہو گئیں۔ اس حادثے کی وجہ شدید تھکاوٹ قرار پائی۔
تصویر: picture-alliance/UPI
اسرائیلی جوہری پروگرام منظر عام پر لانے والے
اسرائیلی شہری مورڈیخائی وانونو نے 1986ء میں لندن سنڈے ٹائمز میں اپنے ایک مضمون میں اسرائیلی پروگرام کے بارے میں دنیا کو آگاہ کیا۔ ابھی یہ مضمون چھپا بھی نہیں تھا کہ انہیں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے اغوا کر لیا۔ انہیں 18 برس تک پس زنداں رکھا گیا۔ 2004ء میں اپنی رہائی کے بعد ان کا کہنا تھا کہ امن کی بحالی اور جوہری ہتھیاروں کے خلاف ان کی جدوجہد جاری رہے گی۔ انہیں اسرائیل چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
ماسکو ایئرپورٹ کا ٹرانزٹ زون
ہانگ کانگ سے ماسکو پہنچنے کے بعد سے سنوڈن اس ایئرپورٹ کے ٹرانزٹ زون تک ہی محدود ہیں۔ امریکی حکومت کی ہر ممکن کوشش ہے کہ سنوڈن کو کسی اور ملک میں سیاسی پناہ نہ دی جائے۔ ایکواڈور کی حکومت کو امریکا کی طرف سے یہ دھمکی بھی دی گئی ہے کہ اگر سنوڈن کو سیاسی پناہ دی گئی تو اس سے جاری آزاد تجارت سے متعلق مذاکرات معطل کر دیے جائیں گے۔