’ماسکو کی نئی دہلی سے قریبی تعلق قائم رکھنے کی خواہش‘
21 دسمبر 2010ٹائمز آف انڈیا کو دئے گئے حالیہ انٹرویو میں صدر میدویدیف نے کہا ہے کہ ان کے دورے میں 2020ء تک سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے سے متعلق معاہدے طے پائیں گے۔ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ روس کے ساتھ بھارت کے تعلقات دوستانہ ہیں اور امید ہے کہ مستقبل میں بھی ایسے ہی رہیں گے۔
نئی دہلی میں روسی سفیر الیکزینڈر کاداکین نے انکشاف کیا ہے کہ جوہری بجلی گھروں کی تعمیر اور جنگی جہازوں سے متعلق درجنوں معاہدے کئے جائیں گے۔ روسی ذرائع ابلاغ کے مطابق ماسکو حکومت بھارت میں 14 سے 16 جوہری بجلی گھروں کی تعمیر پر غور کر رہی ہے تاہم اس کے لئے نئی دہلی حکومت کے سامنے سویلین جوہری ذمہ داری کے قانون میں ترامیم کی شرط رکھی گئی ہے۔
بھارت کی خواہش ہےکہ 2032ء تک 63 ہزار میگا واٹ مزید بجلی کا حصول ممکن کیا جاسکے، جس سے معیشت کا پہیہ مزید تیز ہو۔ بھارت میں نافذ موجودہ قوانین کے باعث امریکی کمپنیاں جوہری توانائی کے شعبے میں داخل ہونے سے کترا رہی ہیں جبکہ روسی اور فرانسیسی کمپنیاں زیادہ پر اعتماد دکھائی دے رہی ہیں۔
صدر میدویدیف منگل کو وزیر اعظم من موہن سنگھ سے ملیں گے۔ ماسکو حکومت کی خواہش ہے کہ بھارت کے لئے 126 نئے لڑاکا جیٹ طیاروں کا ٹھیکہ اسے ملے۔ روایتی طور پر بھارت، دفاعی ساز و سامان کے حوالے سے بڑی حد تک روس پر انحصار کرتا تھا۔ حالیہ دنوں میں پھلتی پھولتی معیشت کے بعد اب نئی دہلی حکومت سے تجارتی لین دین کی خواہش واشنگٹن، پیرس اور لندن جیسے مغربی ایوانوں میں بھی پیدا ہوائی ہے۔
رواں سال ہی برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون، امریکی صدر باراک اوباما، فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی اور چینی وزیر اعظم وین جیا باؤ بھارت کا دورہ کرچکے ہیں۔ بھارت دنیا کے سر فہرست اسلحہ بر آمدکنندگان میں شمار کیا جاتا ہے جو اب ماسکو پر انحصار کرنے کے بجائے امریکہ، فرانس اور اسرائیل سے بھی دفاعی نوعیت کا ساز و سامان خرید رہا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے صدر میدویدیف کے دورے پر تبصرے میں لکھا ہے کہ روس، امریکہ کے ساتھ بھارت کے بڑھتے تعلقات سے قدرے خائف ہے۔ اسی طرح روئٹرز نے افغانستان کی صورتحال اور چین، پاکستان دوستی کے تناظر میں بھارت، روس تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : عدنان اسحاق