مالاکنڈ آپریشن: لاکھوں محصور، ہجرت پر مجبور
6 مئی 2009تین اضلاع دیر، بونیر اور سوات سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد پانچ لاکھ تک پہنچ چکی ہے جب کہ اس میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
مینگورہ شہر میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن اور مسلسل کرفیو کی وجہ سے لاکھوں لوگ گھر میں محصور ہیں۔ مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ طلباء و طالبات کی ایک بڑی تعداد بھی ہاسٹلوں میں محصور ہے جہاں تین دن سے جاری کشیدگی اور عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے بجلی پانی اور خوراک ناپید ہو چکی ہے۔ ان طلباء و طالبات میں سیدو میڈیکل کالج میں زیر تعلیم چالیس طالبات اور اساتذہ بھی شامل ہیں جنہوں نے حکومت سے کرفیو میں ریلیف دے کر انہیں سوات سے نکالے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔
ان طالبات کا کہنا ہے کہ وہ گذشتہ تین روز سے ہاسٹل میں محصور ہیں۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پانی اور خوراک ختم ہو چکی ہے۔ انہیں بیماریوں نے گھیر رکھا ہے، ان کے اساتذہ بھی ان کے لیے کوشیشیں کر رہے ہیں لیکن کرفیو کی وجہ سے انہین نکلنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ کرفیو میں اتنی نرمی کی جائے کہ وہ وہاں سے نکل سکیں۔
یہاں مردان ،کشمیر اور ہزارہ سے تعلق رکھنے والی طالبات بھی محصور ہیں۔ غیر سرکاری تنظیموں کے اعداد و شمار کے مطابق دیر سے گیارہ روزہ آپریشن کے دوران ایک لاکھ تیس ہزار لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ان تنظیموں کے ساتھ رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے مردان،چارسدہ، درگئی، چکدرہ میں ریلیف کیمپ قائم کئے گئے ہیں جب کہ ہزاروں لوگ رشتہ داروں کے ہاں ٹھیرے ہیں۔
اسی طرح بونیر سے نقل مکانی کر نے والوں کی تعداد بھی ایک لاکھ سے سے تجاوز کر چکی ہے۔ ان لوگوں کے لیے مردان اور صوابی میں کیمپ قائم کئے گئے ہیں تاہم کئی خاندانوں کو آسمان تلے رات گذارتے دیکھا گیا ہے۔
صوبائی حکومت نے ہنگامی حالات کے پیش نطر مختلف اضلاع کو اٹھارہ کروڑ روپے کے فنڈز جاری کر دیئے ہیں تاکہ متاثرین کے لیے خوراک، ادویات اور ٹینٹ فراہم کیے جائیں۔
دوسری جانب مرکزی حکومت نے متاثرین کے لیے پچاس کروڑ اسی لاکھ روپے کی گرانٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔ صوبہ سرحد مین قبائلی علاقوں سے بے گھر ہونے والے ساڑھے پانچ لاکھ سے زیادہ متاثرین کے لیے گیارہ ریلیف کیمپ بنائے گئے ہیں۔
ریلیف کمشنر جاوید امجد کا کہنا ہے کہ ان کیمپوں میں مزید متاثرین رکھنے کی گنجائش نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بونیر اور دیر کے آپریشن کی وجہ مردان اور صوابی کیمپوں میں چار ہزار سے زیادہ خاندان رجسٹرڈ کیے گئے ہیں۔ مردان، صوابی میں کیمپوں سے باہر بھی تین ہزار سے زیادہ خاندان آئے ہیں۔ پہلے گیارہ کیمپوں میں جگہ نہیں ہے صرف جلوزئی میں ایک ہزار خاندانوں کو رکھنے کی گنجائش ہے۔
وفاقی حکومت اور پاکستان ریڈ کریسنٹ نے صوابی اور شاہ منصور میں ٹینٹ لگانے میں تعاون کیا ہے۔ ضلع صوبی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اب تک ڈھائی ہزار خاندان رجسٹرڈ ہو چکے ہیں۔ ان کے علاوہ ہزاروں لوگوں نے اپنے رشتہ داروں، سرکاری اسکولوں، ہسپتال اور دیگر عمارتوں میں پناہ لی ہے۔ بونیر، دیر اور سوات سے نقل مکانی کرنے والوں کو مردان، چارسدہ اور صوابی کے لوگوں نے گھروں اور حجروں مین پناہ دی ہے جب کہ عوام اپنی مدد آپ کے تحت ان کی ضروریات بھی پورا کر رہے ہیں۔
ترکئی کے علاقے میں پورے گاؤں کو متاثرین کے لیے خالی کر دیا گیا ہے۔ مینگورہ میں طالبان کی سرگرمیوں کے خلاف جاری آپریشن سے خدشہ ہے کہ وہاں کرفیو میں نرمی کے اعلان کے ساتھ ہزاروں خاندان نقل مکانی کریں گے تاہم انہیں طالبان کی جانب سے مینگورہ کی سڑکوں اور گلیوں میں جگہ جگہ بچھائی انے والی بارودی سرنگوں کا بھی خوف ہے۔