1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مالدیپ کے صدر نے استعفیٰ پیش کر دیا

8 فروری 2012

مالدیپ میں سیاسی افراتفری کے بعد صدر محمد نشید نے منصب صدارت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ ان کی سیاسی پارٹی نے صدر کے استعفے کا تعلق بغاوت سے قرار دیا ہے۔

مالدیپ کی پولیس کے افسرانتصویر: dapd

جنوبی ایشیا کے ملکوں کی تنظیم سارک کے ایک رکن ملک مالدیپ کے پہلے آزادانہ انتخابات میں منتخب ہونے والے صدر محمد نشید کو مسلسل مظاہروں کے تناظر میں منصب صدارت سے استعفیٰ دینا پڑا۔ مگر ان کی سیاسی جماعت مالدیپ ڈیموکریٹک پارٹی کا مؤقف ہے کہ نشید کو ایک ایسی بغاوت کی وجہ سے اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا جو اپوزیشن پارٹیوں نے سکیورٹی فورسز کی حمایت سے مکمل کی ہے۔

محمد نشید کے مستعفی ہونے کے بعد نائب صدر محمد وحید حسن نے صدر کا عہدہ سنبھال لیا ہے۔ نئے صدر کا حلف اٹھانے کے بعد وحیدحسن نے مالدیپ میں قانون کی حکمرانی کو نافذ کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ نائب صدر اور صدر کے درمیان ایک سینئر جج کی گرفتاری پر خاصی کشیدگی پائی جاتی تھی۔ نئے صدر نے اپنے عوام کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے کے لیے کہا ہے۔ وحید حسن نے اگلے صدارتی انتخابات معمول کے مطابق سن 2013 میں کروانے کا بھی اعلان کیا۔

محمد نشید نے منصب صدارت سے مستعفی ہونے کا اعلان سرکاری ٹیلی وژن پر خطاب کے دوران کیا۔ اس تقریر میں مستعفی ہونے والے صدر کا کہنا تھا کہ وہ ملک کی بہتری میں استعفیٰ دے رہے ہیں۔ نشید نے یہ بھی کہا کہ وہ ملک پر زور اور جبر سے حکومت کرنے کی خواہش نہیں رکھتے۔ نشید نے استعفیٰ دینے کے بعد کچھ وقت اپنی سرکاری رہائش گاہ پر گزارا اور پھر اپنے خاندان کے ہمراہ اپنے آبائی گھر منتقل ہو گئے۔

مستعفی ہونے والے صدر محمد نشیدتصویر: dapd

نشید کی مالدیپ ڈیموکریٹک پارٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر نے رضاکارانہ بنیادوں پر استعفیٰ نہیں دیا ہے بلکہ انہیں مجبور کردیا گیا تھا کہ وہ ایسا کریں۔ مالدیپ ڈیموکریٹک پارٹی نے ملک میں بغاوت جیسی صورتحال پیدا کیے جانے کی مذمت بھی کی۔ نشید کی پارٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت مخالف مظاہروں کے پس پشت سابق صدر مامون عبدالقیوم کا ہاتھ بھی ہو سکتا ہے۔ پارٹی کا مزید کہنا ہے کہ فوج اور پولیس نے ان کے پارٹی ہیڈکوارٹرز پر حملے بھی کیے۔

مالدیپ کی فوج کے ترجمان کرنل عبدالرحیم عبداللطیف نے پرزور انداز میں فوجی بغاوت کی تردید کی ہے۔ فوج کے ترجمان کے مطابق سابق صدر نے ملکی صورتحال پر فوج سے رائے مانگی تھی اور انہیں بتایا گیا تھا کہ ان حالات میں ان کا مستعفی ہونا ہی بہتر حل ہے۔ دارالحکومت مالے میں فوج اور پولیس کے درمیان بھی جھڑپیں رپورٹ کی گئی تھیں۔ پولیس نے مظاہرین کے جلوس کو منتشر کرنے کے حکومتی حکم کو ماننے سے اکنار کردیا تھا۔

مالدیپ کے داخلی حالات خاصی افراتفری سے عبارت ہیں۔ تین ہفتوں سے حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ جاری تھا۔ پولیس کی جانب سے حکومتی احکامات کا انکار بھی ان حالات میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ نشید حکومت کی جانب سے ایک سینئر جج کی گرفتاری کے معاملے کو بھی خاصا اچھالا گیا تھا۔ جسٹس عبداللہ محمد کو حکم عدولی اور اپوزیشن کے اراکین کی غیر ضروری حمایت کی بنا پر فوج کی مدد سے گزشتہ ماہ حراست میں لیا گیا تھا۔ گرفتاری کے وقت جسٹس عبداللہ محمد فوجداری عدالت کے سربراہ تھے۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: ندیم گِل

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں