یورپی یونین کے اہم ممالک نے سمندروں سے بچائے جانے والے مہاجرین کو یورپی ممالک میں تقسیم کرنے کا ایک ضابطہ تیار کیا ہے۔ منگل کے دن لکسمبرگ میں یورپی یونین کے وزرائے داخلہ کی ایک ملاقات میں اس منصوبے پر غور کیا جائے گا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ جرمنی، فرانس اور اٹلی کی کوشش ہے کہ وہ دیگر رکن ریاستوں کو مالٹا ڈیکلریشن پر دستخط کرنے پر رضامند کر لیں، جس کے تحت سمندروں سے بچائے جانے والے مہاجرین کو یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں منصفانہ طریقے سے تقسیم کیا جا سکے۔
جرمنی، فرانس، اٹلی اور مالٹا نے اس حوالے سے رواں ماہ ہی ایک منصوبہ تیار کیا، جیسے مالٹا ڈیکلریشن قرار دیا جا رہا ہے۔ اب ان ممالک کی کوشش ہے کہ وہ دیگر رکن ریاستوں کو اس منصوبے پر رضامند کر لیں۔ اس تناظر میں سفارتی کوششیں جاری ہیں تاہم ابھی تک واضح نہیں کہ کتنے ممالک اس ڈیکلریشن پر دستخط کریں گے۔
مالٹا ڈیکلریشن میں زور دیا گیا ہے کہ بحیرہ روم سے بچائے جانے والے مہاجرین کو دیگر رکن ریاستوں میں تقسیم کیا جائے کیونکہ یہ لوگ اس سمندری راستے کے ذریعے اٹلی یا مالٹا ہی پہنچتے ہیں یا امدادی ٹیمیں ان مہاجرین کو سمندر سے ریسکیو کرتے ہوئے انہی ممالک ہی لا سکتی ہیں۔ اگر ان مہاجرین کو دیگر رکن ریاستوں میں منتقل نہیں کیا جائےگا تو اٹلی اور مالٹا پر دباؤ زیادہ بڑھ جائے گا۔
مالٹا ڈیکلریشن میں نہ تو کوئی کوٹہ سسٹم واضح کیا گیا ہے اور نہ ہی ایسی ریاستوں کے لیے کوئی سزا، جو رضاکارانہ طور پر ان مہاجرین کو لینے کے لیے تیار نہیں ہوں گی۔ اس منصوبے میں اس بارے میں بھی کوئی بات نہیں کی گئی ہے کہ اقتصادی مقاصد کی غرض سے یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کو واپس ان کے آبائی ممالک روانہ کرنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی جائے گی۔
یورپی کمیشن نے اس منصوبے کو اہم قرار دیا ہے کیونکہ ابھی تک اس بارے میں فیصلہ نہیں کیا گیا کہ سمندروں سے بچائے جانے والے مہاجرین کو کون سے ممالک پناہ دیں گے۔ مہاجرین کا بحران اب بھی یوپی یونین میں ایک حساس موضوع تصور کیا جاتا ہے۔
سن دو ہزار پندرہ میں جب یہ بحران شروع ہوا تھا تو مہاجرین کا ایک سمندر یورپ میں داخل ہو گیا تھا۔ اگرچہ اب اس بحران کی شدت میں کمی پیدا ہو چکی ہے لیکن یورپی رہنما اس معاملے پر کافی محتاط ہیں۔
ع ب / ع ا / خبر رساں ادارے
جرمنی میں برسر روزگار غیر ملکیوں کا تعلق کن ممالک سے؟
وفاقی جرمن دفتر روزگار کے مطابق جرمنی میں کام کرنے والے بارہ فیصد افراد غیر ملکی ہیں۔ گزشتہ برس نومبر تک ملک میں چالیس لاکھ اٹھاون ہزار غیر ملکی شہری برسر روزگار تھے۔ ان ممالک پر ایک نظر اس پکچر گیلری میں:
تصویر: picture alliance/dpa/H. Schmidt
1۔ ترکی
جرمنی میں برسر روزگار غیر ملکیوں میں سے سب سے زیادہ افراد کا تعلق ترکی سے ہے۔ ایسے ترک باشندوں کی تعداد 5 لاکھ 47 ہزار بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld
2۔ پولینڈ
یورپی ملک پولینڈ سے تعلق رکھنے والے 4 لاکھ 33 ہزار افراد گزشتہ برس نومبر تک کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں برسر روزگار تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
3۔ رومانیہ
رومانیہ سے تعلق رکھنے والے 3 لاکھ 66 ہزار افراد جرمنی میں کام کر رہے ہیں۔
تصویر: AP
4۔ اٹلی
یورپی یونین کے رکن ملک اٹلی کے بھی 2 لاکھ 68 ہزار شہری جرمنی میں برسر روزگار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/McPHOTO
5۔ کروشیا
یورپی ملک کروشیا کے قریب 1 لاکھ 87 ہزار شہری جرمنی میں کام کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Gerten
6۔ یونان
یورپی یونین کے رکن ملک یونان کے قریب 1 لاکھ 49 ہزار باشندے جرمنی میں برسر روزگار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Steffen
7۔ بلغاریہ
جرمنی میں ملازمت کرنے والے بلغاریہ کے شہریوں کی تعداد بھی 1 لاکھ 34 ہزار کے قریب ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kalaene
8۔ شام
شامی شہریوں کی بڑی تعداد حالیہ برسوں کے دوران بطور مہاجر جرمنی پہنچی تھی۔ ان میں سے قریب 1 لاکھ 7 ہزار شامی باشندے اب روزگار کی جرمن منڈی تک رسائی حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Kögel
9۔ ہنگری
مہاجرین کے بارے میں سخت موقف رکھنے والے ملک ہنگری کے 1 لاکھ 6 ہزار شہری جرمنی میں کام کر رہے ہیں۔
جرمنی میں کام کرنے والے روسی شہریوں کی تعداد 84 ہزار ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/H. Schmidt
17۔ افغانستان
شامی مہاجرین کے بعد پناہ کی تلاش میں جرمنی کا رخ کرنے والوں میں افغان شہری سب سے نمایاں ہیں۔ جرمنی میں کام کرنے والے افغان شہریوں کی مجموعی تعداد 56 ہزار بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-U. Koch
19۔ بھارت
بھارتی شہری اس اعتبار سے انیسویں نمبر پر ہیں اور جرمنی میں کام کرنے والے بھارتیوں کی مجموعی تعداد 46 ہزار سے زائد ہے۔
تصویر: Bundesverband Deutsche Startups e.V.
27۔ پاکستان
نومبر 2018 تک کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں برسر روزگار پاکستانی شہریوں کی تعداد 22435 بنتی ہے۔ ان پاکستانی شہریوں میں قریب دو ہزار خواتین بھی شامل ہیں۔