مالیاتی بحران بیجنگ سمٹ میں چھایا رہا
25 اکتوبر 2008سمٹ کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ موجودہ مالیاتی نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے اور مالیاتی بحران پر قابو پانے کے لئے مل جل کر اقدامات ، اور ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں واضح حد تک کمی لانے کی مشترکہ کوششیں کرنا ہو گی۔ مزکورہ سمٹ میں سولہ ایشیائی اور ستائیس یورپی رہنماٴوں نے عالمی مالیاتی نظام میں بہتری لانے اور مالی منڑیوں میں استحکام لانے کے لئے ٹھوس اقدامات اُٹھانے پر اتفاق کیا۔ سمٹ میں شریک جرمن چانسلر اینگلا میرکل نے نئے عالمی مالیاتی آرڈر کے ابتدائی خاکے کو پیش کیا ۔ میرکل کے مطابق نیا مالیاتی نظام چار نکات پر مشتمل ہے جس میں مالی اداروں پر سخت کنٹرول اور مالی منڈیوں میں شفافیت کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ مالی خطرات سے احسن انداز میں نمٹنا بھی ہے۔ جرمن چانسلر نے عالمی مالیاتی ادارے یا آئی ایم ایف کے کردار نبھانے پر بھی زور دیا اور آئی ایم ایف سے اپیل کی کہ وہ مالی مشکلات میں گھرے ہوئے ممالک کی مدد کرے۔
سمٹ کے میزبان ملک چین کے وزیر اعظم وین جیاباٴو نے کہا کہ مالیاتی بحران پر قابو پانے کے لئے اب تک کے اقدامات ناکافی ہیں۔ جیاباٴو نے کہا کہ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام ممالک ایک ساتھ مل کر کام کرے۔ عالمی رہنماؤں نے سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں کمی لاتے ہوئے ماحولیاتی تبدیلی پر قابو پانے پر بھی تفصیلی گفتگو کی۔ سولہ ایشیائی اور ستائیس یورپی رہنما ؤں کا یہ پلان ہے کہ کیوٹو پروٹوکول کی طرز پر فضائی آلودگی اور دنیا میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت پر قابو پانے کے لیے ایک معاہدے کو حتمی صورت دی جائے۔
دوسری طرف نیویارک میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے موجود مالیاتی بحران کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت سب سے زیادہ امداد کی ضرورت غریب ممالک کو ہے۔ بان کی مون نے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ، آئی ایم ایف اور ترقی یافتہ ممالک کے مرکزی بینکوں سے اپیل کی کہ وہ غریب ممالک کی فوری طور پر مدد کریں۔ سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اگر اس وقت غریب ممالک کی مدد نہیں کی جاتی ہے، تو بین الاقوامی سطح پر غربت کے خاتمے کے لئے کی جانے والی اب تک کی تمام کوششیں بے کار اور بے سود ثابت ہوں گی۔ ان خیالات کا اظہار بان کی مون نے اقوام متحدہ کے اداروں، آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے سربراہوں کے ساتھ ایک ملاقات میں کیا۔ علاوہ ازیں آئس لینڈ کی حکومت کا کہنا ہے کہ اسے عالمی مالیاتی ادارے کی طرف سے دوارب ڈالر کی امداد مل رہی ہے۔ موجودہ مالیاتی بحران کے سبب اس ملک کی معیشت عدم استحکام کا شکار ہے۔