مالی میں اسلام پسند جنگجووں نے یرغمال بنائے گئے ایک سابق صدارتی امیدوار،ایک فرانسیسی امدادی کارکن اور دو اطالوی شہریوں کو رہا کردیا ہے۔ انہیں مبینہ طورپر 200 انتہاپسندوں کے بدلے میں رہا کیا گیا ہے۔
اشتہار
مالی کی حکومت نے جمعرات کے روز اس بات کی تصدیق کی کہ یرغمال بنائے گئے مالی کے ایک معروف اپوزیشن رہنما، ایک فرانسیسی امدادی کارکن اور دو اطالوی شہریوں کو جہادیوں نے رہا کر دیا ہے۔ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ ان چاروں افراد کو تقریباً 200 جہادیوں، جو حکومت کی تحویل میں تھے، کے بدلے میں آزاد کیا گیا ہے۔
فرانسیسی امدادی کارکن 75 سالہ سوفی پیٹرونا کو دسمبر 2016 میں مالی کے شمالی شہر گاو سے اس وقت اغوا کرلیا گیا تھا، جب وہ یتیم بچوں کے لیے ایک یتیم خانہ چلارہی تھیں۔ سمجھا جاتا ہے کہ وہ ایسی آخری فرانسیسی شہری ہیں جنہیں بیرون ملک یرغمال بنایا گیا تھا۔
فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں نے پیٹرونا کی رہائی پر جمعرات کے روز اطمینان کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا”مجھے یہ جا ن کر خوشی ہوئی ہے کہ وہ اب آزاد ہیں۔"
ماکروں نے 'ساحل میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مالی کی مدد کرنے‘ کی فرانس کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔
پیٹرونا کے بیٹے سبیسٹین شادو پیٹرونا اپنی والدہ کی رہائی سے قبل ہی مالی پہنچ گئے تھے تاہم انہوں نے، اپنے ایک رشتہ دار کی جانب سے پیٹرونا کی رہائی کے بارے میں فرانسیسی میڈیا کو اطلاع دیے جانے کے باوجود، محتاط رویہ اپنایا۔
مالی کے70 سالہ سیاسی رہنما سومیئلا سیس کو انتہا پسندوں نے اس سال مارچ میں ان کی گاڑی پر حملہ کرکے اغوا کرلیا تھا۔ وہ ماضی میں تین مرتبہ مالی کے صدارتی انتخابات میں قسمت آزما چکے ہیں۔ ان کے زندہ رہنے کا واحد ثبوت اگست میں اس وقت ملا جب حکام کو ایک خط موصول ہوا تھا۔
سومیئلا سیس کی رہائی ان کے حریف سابق صدر ابراہیم بوبکر کیتیا کو اس سال اگست میں فوجی بغاوت کے بعد اقتدار سے برطرف کردیے جانے کے چند ہفتوں بعد عمل میں آئی ہے۔ مالی میں اس وقت ایک عبوری سویلین حکومت کام کررہی ہے۔
مالی کے صدارتی دفتر نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا ”سابق یرغمالی بماکو واپس لوٹ رہے ہیں۔"
حکومت نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ اٹلی کے دو یرغمالی نیکولا کیاکیو اور پیئر لوئجی مکالی کو بھی اغواکاروں نے رہا کردیا ہے۔
حالیہ دنوں میں یہ قیاس آرائیا ں زوروں پر تھیں کہ حکومت ان یرغمالوں کے بدلے میں 180سے زائد انتہاپسندوں کو رہا کرسکتی اور انہیں ملک کے شمالی علاقے میں بھیج سکتی ہے۔
سمجھا جاتا ہے کہ القاعدہ سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند گروپ نے پیٹرونا، کیاکیو اور مکالی کو رہا کرنے کے باوجود اب بھی کم از کم پانچ غیر ملکیوں کو یرغمال بنارکھا ہے۔ ان میں آسٹریلیائی ڈاکٹر کین ایلیٹ، کولمبیائی راہبہ گلوریا سیسیلا ناروائزارگوتی، جنوبی افریقہ کے کرسٹو بوتھما، سوئس شہری بیٹرس اسٹاکلی اور رومانیہ کی ژولیان گیرغوت شامل ہیں۔
ج ا/ ص ز (ڈی پی اے، اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔