مالی: دہشت گردانہ حملوں میں ملوث دو افراد کو سزائے موت
29 اکتوبر 2020
ان دونوں افراد نے فخریہ طور پر تسلیم کیا تھا کہ انہوں نے چارلی ایبدو میں شائع پیغمبر اسلام کے متنازعہ خاکوں کا ’انتقام‘ لینے کے لیے بیسیوں مغربی باشندوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
اشتہار
افریقی ملک مالی کی ایک عدالت نے 2015 میں دہشت گردانہ حملے کرکے دو درجن سے زیادہ افراد کو ہلاک کرنے کے قصوروار دو اسلام پسندوں کو بدھ کے روز موت کی سزا سنائی۔ سزائے موت کا فیصلہ سنائے جانے کے فوراً بعد ہی ان دونوں کو پھانسی دے دی گئی۔
دو روز تک چلنے والی سماعت کے بعد جج سولے میگیانے اپنے فیصلے میں کہا”عدالت نے شواہد کی بنیاد پر آپ دونوں کو قصور وار پایا ہے اور ایسی کوئی وجہ نہیں دکھائی دیتی کہ آپ کو کوئی رعایت دی جاسکے۔"
ان دونوں افراد نے فخریہ طورپر اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے ہوٹلوں اور ریستورانوں پر حملہ کرکے وہاں موجود غیر ملکیوں اور مالی کے شہریوں کوبے رحمی سے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا اوراس پر عمل درآمد کیا تھا۔ یہ دونوں افراد تین حملوں میں ملوث تھے۔ پہلا حملہ مارچ میں دارالحکومت بماکو میں La Terrassere ریستورا ں پر کیا گیا، جس میں پانچ افراد مارے گئے۔ دوسرا حملہ اگست میں ہوٹل بائبلوس پر کیا گیا جس میں 17 افراد ہلاک ہوگئے اور نومبر میں تیسرے حملے میں بماکو میں ہوٹل ریڈیسن بلیو پردھاوا بول کر 170 افراد کو یرغمال بنالیا اور ان میں سے 20 کو مار ڈالا۔
’پیغمبر اسلام کے نام پر انتقام‘
عدالت میں دو روز تک چلنے والی کارروائی کے دوران ان دونو ں افراد نے کہا کہ انہیں اپنے اقدم پر کسی طرح کی 'پشیمانی نہیں‘ ہے بلکہ انہیں اس پر فخر ہے کہ انہوں نے ایسے’سفید فام‘ افراد کو نشانہ بنایا جو ان کے بقول ’کافر‘ تھے۔
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman
7 تصاویر1 | 7
پھانسی دیے جانے والے دو نوں افراد میں سے ایک موریطانی شہری کا کہنا تھا ”چارلی ایبدو نے،تصویریں اور خاکوں کے نام پر جو کچھ شائع کیے تھے، اس کی وجہ سے یہ پیغمبر اسلام کے نام پر ان کا انتقام تھا... اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسی تصویروں اور خاکوں کی اشاعت کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے، یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔"
یہ اشارہ غالبا ً فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں کی طرف سے اظہار رائے کی آزادی کے حق دیے جانے والے ان بیانات کی طرف ہے جو انہوں نے ایک فرانسیسی اسکول ٹیچر سیمویل پیتی کا سر قلم کردیے جانے کے بعد دیے تھے۔ مذکورہ ٹیچر نے اپنے کلاس میں اظہار رائے کی آزادی کے سلسلے میں سبق پڑھاتے ہوئے چارلی ایبدو کا متنازعہ کارٹون بھی مثال کے طور پر پیش کیا تھا۔
اشتہار
القاعدہ اور دیگر سے تعلق
بتایا جاتا ہے کہ مذکورہ موریطانی شہری اور مالی سے تعلق رکھنے والے اس کے دیگر دو ساتھیوں کے مغرب میں القاعدہ (اے کیو آئی ایم) اور المورابیطون نامی دہشت گرد گروپوں سے قریبی تعلقات تھے۔ ان تنظیموں نے مالی نیز پڑوسی ملک برکینا فاسو اور آئیوری کوسٹ میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
مالی اور ساحل کے دیگر ممالک کو تقریباً ایک عشرے سے انتہا پسندوں کی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انتہا پسندانہ کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک علاقے میں ہزاروں افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ لاکھوں دیگر افراد کو اپنے گھروں کو چھوڑنے کے لیے مجبور ہوجانا پڑا ہے۔
ج ا/ ص ز (اے ایف پی، روئٹرز)
مذہبی عبادت گاہیں دہشت گردی کا نشانہ کیوں بنتی ہیں؟