مغربی افریقی ملک مالی میں حکام نے سابق وزیر اعظم بوبو سیس سمیت چھ افراد کے خلاف ملک میں بغاوت کی کوشش کا الزام عائد کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Mori
اشتہار
مالی کے سرکاری دفتر استغاثہ نے جمعرات کے روز بتایا کہ'حکومت کے خلاف منصوبہ بندی، مجرمانہ شراکت، ملک کے سربراہ کی توہین اور جرم میں معاونت کرنے‘ کے الزامات کے تحت چھ افراد کے خلاف تفتیش ہو رہی ہے۔
ان چھ افراد کا قانونی دفاع کرنے والے ایک گروپ نے بتایا کہ ان لوگوں میں سابق وزیر اعظم بوبو سیس بھی شامل ہیں، جن پر 'بغاوت کی کوشش‘ کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
خبر رسا ں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سیس کو چھوڑ کر بقیہ پانچ ملزمین پولیس کی تحویل میں ہیں تاہم یہ پتہ نہیں چل سکا ہے کہ انہیں کہاں رکھا گیا ہے۔
حکومت کے خلاف کئی ہفتوں تک چلنے والے احتجاجی مظاہروں کے بعد نوجوان آرمی افسروں نے 18 اگست کو صدر ابراہیم بو بکر کیتا کو اقتدار سے باہر کردیا تھا۔
بین الاقوامی پابندیا ں عائد ہوجانے کے خطرے کے مدنظر فوج نے اقتدار ایک نگراں ادارے کو سونپ دیا تھا جو امید ہے کہ آئندہ انتخابات ہونے تک اگلے 18 ماہ تک نظم و نسق سنبھالے گا۔
ملک میں اصلاحات کی رفتار کے سلسلے میں عوام میں مایوسی ہے نیز عبوری ادارے میں فوج کا غلبہ کے الزامات بھی عائد کیے جارہے ہیں۔
فوج نے 18 اگست کو صدر ابراہیم بو بکر کیتا کو اقتدار سے باہر کردیا تھا۔تصویر: AFP/L. Marin
بغاوت کا یہ مبینہ معاملہ دسمبر میں مالی کی انٹلیجنس سروس، جنرل ڈائریکٹوریٹ آف اسٹیٹ سروسز، کی جانب سے سلسلے وار گرفتار یوں کے بعد سامنے آیا تھا تاہم پورے معاملے پر اب بھی پردہ پڑا ہوا ہے۔
جن اہم افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، مشاہدین اس پر حیرت کا اظہار کررہے ہیں۔
حکام نے سابق وزیر اعظم سیس کے ساتھ محمد یوسف باتھیلی کو بھی گرفتار کیا ہے۔ وہ 'راس باتھ‘ کے نام سے مشہور ہیں اور ریڈیو کے متنازعہ میزبان رہے ہیں اور ان کے چاہنے والوں کی کافی تعدا د موجود ہے۔ جن دیگر افراد پر الزامات عائد کیے گئے ہیں ان میں وائٹل رابرٹ ڈیوپ بھی شامل ہیں۔ ڈیوپ جوئے کا کاروبار چلانے والے ایک گروپ کے ڈائریکٹر جنرل بھی ہیں۔
فرانسیسی سرکاری ریڈیو آر ایف آئی نے بتایا کہ وزارت خزانہ کے دو اعلی عہدیداروں اور ایک سرکاری فائنانس ایجنسی کے ڈپٹی ڈائریکٹر کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔
استغاثہ نے ان پر'ملک کی داخلی سلامتی پر حملہ کرنے‘، ایک جرائم پیشہ گروپ کے ساتھ تعاون کرنے اور نگران انتظامیہ کے خلاف 'سبوتاز کے اقدامات‘ کرنے کے الزامات عائد کیے ہیں۔
رچرڈ کونور/ ج ا / ص ز
ٹمبکٹو کی نارد دستاویزات
2012ء میں جب شمالی مالی اسلام پسندوں کے قبضے میں چلا گیا تھا تو وہاں موجود ہزاروں تاریخی دستاویزات کے تباہ کر دیے جانے کا خطرہ بھی بڑھ گیا تھا۔ مالی کے کچھ شہریوں نے اِنہیں محفوظ بنانے کی کوششیں شروع کر رکھی ہیں۔
تصویر: DW/P. Breu
تاریخی اثاثے
ٹمبکٹو کی نادر تحریریں تاریخی اعتبار سے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ یہ کئی سو سال کی اسلامی تحقیق کا نچوڑ ہیں۔ اُس دور میں ٹمبکٹو افریقہ میں اسلامی اور قرآنی تعلیمات کا مرکز ہوا کرتا تھا۔
تصویر: DW/P. Breu
دھاتی کنٹینرز میں اسمگلنگ
2012ء میں مسلمان شدت پسندوں نے جب شمالی مالی میں حملے شروع کیے تو اس دوران بہت سے تاریخی مقامات کو تباہ کر دیا گیا اور اس موقع پر مالی کے کچھ باسیوں نے ان تاریخی دستاویزات کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے انہیں ٹمبکٹو سے اسمگل کر کے ملکی دارالحکومت بماکو پہنچا دیا تھا۔ یہاں ان تاریخی دستاویزات کو چھانٹے بغیر دھات کے ڈبوں میں رکھا گیا ہے۔ اب انہیں محفوظ بنانے اور ڈیجیٹلائز کرنے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/P. Breu
تحریروں کو محفوظ کر لینے والا
عبدالقادر حیدرہ نے ان تحریروں کو محفوظ کرنے کا ذمہ اپنے سر لیا ہوا ہے۔ وہ ایک خاندانی کتب خانہ چلاتے ہیں اور وہ اپنی دستاویزات کے ساتھ ساتھ ٹمبکٹو کی ان تحریروں کو بھی بچانا چاہتے ہیں، جو تباہی کے خطرے سے دوچار ہیں۔
تصویر: DW/P. Breu
تمام لوگوں کی دستاویزات تک رسائی
ان تاریخی دستاویزات کو ڈیجیٹلائز کرنے کے دو مقاصد ہیں۔ ایک تو اگر کسی وجہ سے اصل تحریروں کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اُن کی ڈیجیٹل کاپیاں موجود ہوں اور دوسرے یہ کہ جو بھی چاہے، اِن دستاویزات تک رسائی حاصل کر سکے۔ اِن دستاویزات کو اُن کی اصل حالت میں محفوظ رکھنے کے حوالے سے ابھی تک کوئی منصوبہ نہیں بنایا گیا ہے۔
تصویر: DW/P. Breu
گتے کے ڈبوں میں منتقلی
ڈیجیٹلائزیشن کے بعد ان دستاویزات کو تیزابیت سے پاک ڈبوں میں منتقل کر کے رکھا جائے گا۔ ان میں سے ہر تحریر مختلف نوعیت کی ہے اور ان کے سائز بھی ایک دوسرے سے جدا ہیں۔ اس وجہ سے انہیں رکھنے کے لیے ہاتھ سے خصوصی ڈبے تیار کرنا ہوں گے۔
تصویر: DW/P. Breu
خالی بک شیلف
کوئی بھی کتاب ٹمبکٹو کے ماما حیدرا میموریل کتب خانے میں موجود نہیں ہے۔ یہ امر بھی ابھی تک غیر واضح ہے کہ آیا یہ تاریخی دستاویزات دوبارہ کبھی اس لائبریری کی زینت بنیں گی یا نہیں۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ نادر نمونے بماکو میں زیادہ محفوظ ہیں جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ ان کے بغیر ٹمبکٹوکی ساکھ متاثر ہو گی۔
تصویر: DW/P. Breu
بے یار و مددگار کتب خانے
احمد بابا نامی ادارہ آغا خان ٹرسٹ کے علاوہ جنوبی افریقہ اور سعودی عرب کے مالی تعاون سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس میں صرف ایک لائبیری اور آرکائیو ہی نہیں ہے بلکہ اس میں ایسے جدید آلات بھی نصب ہیں، جن کی مدد سے دستاویزات کو ڈیجیٹلائز اور محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ ادارہ ویران ہے اور خستہ حال ہو چکا ہے۔
تصویر: DW/P. Breu
سیاہ دن
اسلام پسندوں نے یونیسکو اور مغربی ممالک کے سامنے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی خاطر ٹمبکٹو میں چند تاریخی نمونوں کو جمع کر کے احمد بابا انسٹیٹیوٹ میں نذر آتش کر دیا تھا۔ اس دوران چار ہزار سے زائد تحریریں جل کر راکھ ہو گئی تھیں۔ یہ آج بھی اسے ادارے میں موجود ہیں، مگر خاک کی صورت میں۔
تصویر: DW/P. Breu
ٹمبکٹو خطرے سے دوچار
بیسویں صدی میں اپنی اقتصادی اہمیت کھونے کے بعد صرف سیاحت ہی ٹمبکٹو کے لوگوں کا واحد ذریعہ معاش تھا۔ 2012ء میں شروع ہونے والے تنازعہ کے بعد سیاحوں نے بھی اس شہر کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے۔
تصویر: DW/P. Breu
غیر یقینی مستقبل
مالی کی سیاسی صورتحال کشیدہ ہے اور ملکی فوج اس قدر کمزور ہے کہ وہ مستقل بنیادوں پر سلامتی کی صورتحال کو قابو میں نہیں رکھ سکتی۔ 2012ء میں ٹمبکٹو کے اکثر باسی نقل مکانی کر گئے تھے اور وہ آج تک واپس نہیں لوٹے ہیں کیونکہ انہیں حالات پر بھروسہ نہیں ہے۔