مالی، سیاسی اتحاد نے پانچ سالہ فوجی منصوبہ مسترد کر دیا
3 جنوری 2022
مالی کی اہم سیاسی پارٹیوں نے اقتدار کی منتقلی کے حوالے سے فوجی حکومت کی طرف سے تجویز کردہ پانچ سالہ منصوبے کو مسترد کر دیا ہے۔ اس مغربی افریقی ملک میں گزشتہ دو برسوں میں دو مرتبہ فوجی بغاوت ہو چکی ہے۔
اشتہار
مغربی افریقی ملک مالی کی تمام اہم سیاسی پارٹیوں نے فوجی حکومت کے پانچ سالہ منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے فوری طور پر سول حکومت کی بحالی کا مطالبہ کر دیا ہے۔ اس منصوبے میں فوج نے اقتدار سول حکومت کو سونپنے کے لیے ایک نظام الاوقات ترتیب دیا ہے، جیسے متنازعہ قرار دیا جا رہا ہے۔
اگست سن دو ہزار بیس کے بعد سے مالی کی فوج دو مرتبہ سول حکومتوں کا تختہ الٹ چکی ہے جبکہ الیکشن ملتوی کرتی آئی ہے۔ فوجی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس وقت ملکی حالات ایسے نہیں کہ فوری طور اقتدار سول حکومت کے سپرد کر دیا جائے۔
ملک میں استحکام کی خاطر فوجی حکومت کی طرف سے پیش کردہ پانچ سالہ مںصوبے میں کہا گیا ہے کہ اداروں کی مضبوطی اور انتظامی مسائل حل کرنے کے بعد شفاف الیکشن کرائیں جائیں گے۔
اس منصوبے کے تحت سن دو ہزار تئیس میں آئینی ریفرنڈم منعقد کیا جائے گا جبکہ سن دو ہزار پچیس میں الیکشن کا انعقاد کیا جائے گا۔ ملک کو جمہوریت کی طرف لے جانے کی خاطر بنائے گئے اس منصوبے میں کہا گیا ہے کہ سن دو ہزار چھبیس سے قبل صدارتی الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔
مالی کی فوج کا کہنا ہے کہ سیاسی اور اداراتی اصلاحات ناگزیر ہیں اور اس سے قبل ملک میں صدارتی الیکشن شفاف اور غیرجانبدار نہیں ہو سکتے۔
ملک کی سیاسی صورتحال کیسی ہے؟
مالی میں ملکی فوج اگست دن دو ہزار بیس سے اقتدار میں ہے۔ اس دوران فوج دو بغاوتیں کر چکی ہے جبکہ الیکشن بھی ملتوی کر چکی ہے۔ گزشتہ برس فوج نے کہا تھا کہ وہ فروری سن دو ہزار بائیس میں الیکشن کرائے گی لیکن اب یہ منصوبہ بھی بدل دیا گیا ہے۔
اس صورتحال میں مالی کی فوج کی طرف سے بنائی گئی حکومت کو علاقائی اور عالمی سطح پر سخت دباؤ کا سامنا ہے۔ اسی لیے اب فوج نے پانچ سالہ منصوبہ بنایا، جسے ہفتے کے دن مغربی افریقی ممالک کی علاقائی تنظیم ایکواس (ای سی ڈبلیو اے ایس) کو جمع کرایا گیا۔
اِن خاندانوں کے شکنجے میں پورا افریقہ
براعظم افریقہ میں سیاست اکثر خاندان کے اندر ہی رہتی ہے: باپ کے بعد بیٹا عہدہٴ صدارت کا وارث بنتا ہے، بیٹی ریاستی اداروں کی سربراہی کرتی ہے اور اہلیہ وزیر کے منصب پر فائز ہوتی ہے۔ دیکھیے خاندانی سیاست کی چند ایک مثالیں۔
تصویر: DW/E. Lubega
میرا بیٹا، میرا باڈی گارڈ
یوویری موسوینی ایک طویل عرصے سے یوگنڈا کے صدر ہیں۔ یہ تصویر اُن کے سب سے بڑے بیٹے موھوزی کاینیروجابا کی ہے، جو ملکی فوج میں ایک بڑے افسر ہیں اور اُس خصوصی یونٹ کے کمانڈر بھی، جو صدر کی حفاظت پر مامور ہے۔ موسوینی کی اہلیہ جینٹ تعلیم و تربیت اور کھیلوں کی وزیر کے طور پر کابینہ میں شامل ہیں۔ اُن کے ہم زُلف سَیم کُٹیسا وزیر خارجہ ہیں۔
تصویر: DW/E. Lubega
صدر کی بیٹی، اربوں کی مالک
انگولا کے صدر کی سب سے بڑی صاحبزادی ازابیل دوس سانتوس افریقہ کی دولت مند ترین خواتین میں سے ایک ہیں۔ وہ ملک کی سب سے بڑی فرنیچر ساز کمپنی اور سرکاری تیل کمپنی سون انگول کی بھی مالک ہیں اور اُن کی سُپر مارکیٹ کی شاخیں ملک بھر میں ہیں۔ اُن کا بھائی انگولا کے پانچ ارب ڈالر سے زیادہ کے سرمایے کے حامل ریاستی فنڈ FSDEA کا سربراہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
باپ صدر، بیٹا نائب صدر
یہ ہیں، تیودور انگوئما اوبیانگ مانگُو، اُستوائی گنی کے دوسرے نائب صدر۔ اُن کے والد تیودور اوبیانگ مباسوگُو 1979ء سے ملک کے صدر چلے آ رہے ہیں۔ صدر کا سوتیلا بیٹا گیبریئل ایمبیگا اوبیانگ تیل کے امور کا وزیر ہے۔ صدر کا سالا اینسُو اوکومو تیل کے کاروبار سے متعلق سرکاری ادارے GEPetrol کا سربراہ ہے۔
تصویر: Picture-alliance/AP Photo/F. Franklin II
انتہائی با اثر جڑواں بہن
یہ ہیں، کانگو کے سابق صدر لاؤراں کابیلا کی صاحبزادی جینٹ دیسیرے کابیلا کیونگُو، جن کے بھائی جوزیف کابیلا آج کل ملک کے صدر ہیں۔ جینٹ ملکی پارلیمان کی بھی رکن ہیں اور ایک میڈیا کمپنی کی بھی مالک ہیں۔ ’پانامہ لِیکس‘ سے پتہ چلا کہ وہ ایک ایسی آف شور کمپنی کی سربراہ بھی ہیں، جو کانگو کی سب سے بڑی موبائل فون کمپنی کے شیئرز کی مالک ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. D. Kannah
کل سیکرٹری، آج خاتون اوّل
گریس مُوگابے زمبابوے میں ایک طویل عرصے سے صدر چلے آ رہے رابرٹ مُوگابے کی دوسری اہلیہ ہیں۔ ان دونوں کا معاشقہ اُس وقت شروع ہوا تھا، جب گریس ابھی صدر کی سیکرٹری تھیں۔ اب گریس مُوگابے حکومتی پار ٹی کی ’خواتین کی لیگ‘ کی چیئر پرسن ہیں اور انتہائی با اثر ہیں۔ گو وہ اس کی تردید کرتی ہیں تاہم اُنہیں اپنے 92 سالہ شوہر کی جانشین تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Mukwazhi
سابقہ اہلیہ کے بڑے سیاسی عزائم
نکوسازانا دلامینی زُوما پہلی خاتون ہیں، جنہیں افریقی یونین کا سربراہ چُنا گیا ہے۔ اس سے پہلے وہ جنوبی افریقہ کے اُس دور کے صدر تھابو ایم بیکی کی کابینہ میں وزیر خارجہ تھیں اور پھر اپنے سابق شوہر جیکب زُوما کی حکومت میں وزیر داخلہ۔ وزارت کا قلمدان سنبھالنے سے پہلے ہی نکوسازانا کی اپنے شوہر جیکب زُوما سے علیحدگی ہو چکی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Prinsloo
ریاست بہ طور فیملی بزنس
ری پبلک کانگو کے صدر ڈینس ساسُو اینگوئیسو کے خاندان کے ارکان کئی بڑے سیاسی عہدوں پر فائز ہیں اور متعدد اہم کمپنیوں کے مالک ہیں۔ اُن کی بیٹی کلاؤڈیا (تصویر میں) اپنے والد کے مواصلاتی شعبے کی نگران ہیں، اُن کے بھائی ماؤریس متعدد کمپنیوں کے مالک ہیں جبکہ صدر کے بیٹے ڈینس کرسٹل کے بارے میں سننے میں آیا ہے کہ اُسے جانشینی کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Gervais
نصف صدی سے حکمران خاندان
گیبون میں عمر بونگو اوندیمبا نے اکتالیس برس تک حکومت کی، یہاں تک کہ 2009ء میں اُن کا بطور صدر ہی انتقال ہو گیا۔ بعد ازاں متنازعہ انتخابات میں اُن کے بیٹے علی بونگو سترہ دیگر امیدواروں کو واضح طور پر شکست دے کر کامیاب ٹھہرے۔ 2016ء میں ایک بار پھر انتخابات جیت گئے۔ یوں یہ خاندان گیبون پر گزشتہ نصف صدی سے برسرِاقتدار ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Longari
جیسا باپ، ویسا بیٹا
غناسینغبی ایادیما ٹوگو میں طویل عرصے تک صدر کے عہدے پر براجمان رہے۔ اُن کے تقریباً پچاس بچوں میں سے صرف ایک یعنی فور غناسینغبی (تصویر میں) نے سیاست میں قدم رکھا۔ آج کل وہی ملک کے حکمران ہیں۔ کینیا اور بوتسوانہ میں بھی آج کل جو شخصیات حکمرانی کر رہی ہیں، اُن سے پہلے اُن کے باپ ملک کے حکمران تھے۔
تصویر: I. Sanogo/AFP/Getty Images
9 تصاویر1 | 9
ایکواس نے مالی کی فوجی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر الیکشن نہ کرائے گئے تو اس پر پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔ نو جنوری کو گھانا کے دارالحکومت عکرہ میں مالی کی صورتحال پر ایکواس کی خصوصی کانفرنس منعقد کی جا رہی ہے۔
مالی کی سیاسی جماعتوں نے اس پانچ سالہ منصوبے کو رد کیوں کیا؟
مالی کی دس اہم سیاسی جماعتوں نے فوج کے خلاف ایک اتحاد بنایا ہوا ہے۔ اس اتحاد کے مطابق فوج کی طرف سے تجویز کردہ یہ پانچ سالہ منصوبہ منتقلی اقتدار کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے جبکہ اس پر نہ تو بحث کی گئی اور نہ ہی یہ عوامی امنگوں کے مطابق ہے۔
اس سیاسی اتحاد نے کے مطابق یہ نظام الاوقات یک طرفہ اور غیر منطقی ہے۔ اس اتحاد کے ترجمان سیکو نیامے نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا کہ وہ توقع کرتے ہیں کی فوجی حکومت جلد ہی الیکشن کا انعقاد ممکن بنائے گی۔
حالات خراب کیسے ہوئے؟
اگست سن دو ہزار بیس میں کرنل اسیمی گوئٹا نے سابق صدر ابراہیم بوبکر کیتا کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ یہ فوجی بغاوت اس وقت کی گئی، جب عوام نے بدعنوانی اور پرتشدد اسلامی بغاوت پر حکومتی ردعمل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عوامی مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا۔
فرانس کی اس سابق نو آبادی میں جمہوری حکومت کی بحالی کی خاطر مالی کے ہمسایہ ممالک اور پیرس حکومت نے دباؤ دیا لیکن گوئٹا نے اقتدار سول حکومت کے حوالے کرنے کے بجائے مئی سن دو ہزار اکیس میں ایک اور بغاوت کر دی۔
یہ بغاوت تھی، اس عبوری سول حکومت کے خلاف جسے الیکشن کے انعقاد کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ فوج نے کہا کہ شمالی مالی میں سکیورٹی کے شدید خطرات ہیں، اس لیے الیکشن ملتوی کیے جا رہے ہیں۔
یہ امر اہم ہے کہ مالی کے ںصف سے زیادہ حصوں پر حکومت کا کنٹرول نہیں ہے۔ ان علاقوں میں متعدد مسلح گروہ فعال ہیں، جو ملک پر اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں دہشت گرد تنظیم القاعدہ اور داعش سے وابستہ گروہ بھی شامل ہیں۔
اشتہار
غیر ملکی افواج کا کردار
مالی میں اسلامی انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے غیر ملکی افواج بھی تعینات ہیں، جو مقامی فوسز کو بالخصوص داعش اور القاعدہ سے وابستہ گروہوں کے خلاف برسر پیکار ہیں۔
تاہم موجودہ صورتحال میں مسلح افواج سے متعلق جرمن پارلیمانی کمشنر ایفا ہوگل نے کہا ہے کہ جرمن فوج کو مالی میں اپنے آپریشن پر نظر ثانی کرنا چاہیے اور اسے ختم کر دینا چاہیے۔
اس وقت مالی میں تیرہ سو پچاس جرمن فوجی تعینات ہیں، جو اقوام متحدہ کے مشن اور یورپی یونین کے تربیتی مشن کے تحت اپنی سرگرمیاں سر انجام دے رہے ہیں۔
سن دو ہزار تیرہ سے شمالی مالی میں تعینات فرانسیسی افواج بھی اب اپنا مشن ختم کر رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ فرانسیسی فوج نے جنگجوؤں کو پسپا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے تاہم کچھ مقامی حلقوں کا خیال ہے کہ غیر ملکی افواج کی مداخلت سے سکیورٹی کی صورتحال بگڑی ہے۔
عالمی سطح پر یہ تشویش پائی جا رہی ہے کہ اگر مغربی ممالک نے مالی میں اپنے تمام تر عسکری مشن ختم کر دیے تو وہاں بھی افغانستان کی طرح طاقت کا خلا پیدا ہو جائے گا، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جنگجو ایک مرتبہ پھر فعال ہو جائیں گے۔
ع ب، ع ت (خبر رساں ادارے)
افریقہ سن 2021 میں، ایک تصویری جائزہ
کانگو رمبا کی فتح سے لے کر مختلف بغاوتوں نے براعظم افریقہ کو ہِلا کر رکھ دیا۔ مختلف واقعات درج ذیل تصاویر میں دیکھیں:
تصویر: Ericky Boniphase/DW
تنزانیہ اور کووڈ انیس
کورونا وبا کے اوائل میں تنزانیہ کئے صدر جان ماگوفلی نے کہا تھا کہ خدائی طاقت سے ان کا ملک کورونا وبا سے آزاد ہے۔ ان کی رحلت مارچ سن2021 میں ہو گئی تو جانشین خاتون صدر سامیہ حسن نے مرحوم صدر کی پالیسی تبدیل کر دی اور ویکسینیشن کے پروگرام کا آغاز کر دیا۔
تصویر: Ericky Boniphase/DW
ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں تاریخ رقم ہو گئی
نائجیریا کی اینگوزی اوکانجو اِیویلا کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل کے منصب کے لیے چُن لیا گیا۔ عالمی مالیاتی امور کی ماہر اوکانجو اِیویلا اس انتخاب سے قبل ویکسین آلائنس جی اے وی ای (GAVI) تنظیم کی سربراہ تھیں۔ وہ دو دفعہ نائجیریا کی وزیر خزانہ بھی رہ چکی ہیں۔
تصویر: Luca Bruno/AP Photo/picture alliance
چاڈ میں خاموش بغاوت
اس تصویر میں چاڈ کے مقتول صدر ادریس دیبی رواں برس کے صدارتی الیکشن میں ووٹ ڈال رہے ہیں۔ وہ ملک کے چھٹی مرتبہ صدر منتخب ہو گئے تھے لیکن باغیوں کے خلاف میدانِ جنگ میں گولی لگنے سے ہلاک ہو گئے۔ فوج کے جرنیلوں نے ان کے بیٹے محمد کو عارضی صدر بنا دیا۔ ناقدین نے اسے ایک ’نسلی بغاوت‘ قرار دیا۔ ادریس دیبی کا دورِ صدارت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، اقربا پروری اور کرپشن سے عبارت قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: MARCO LONGARI/AFP
بغاوتیں، بغاوتیں اور بغاوتیں
مامادی ڈومبُویا (ہاتھ ہلاتے ہوئے) وہ فوجی لیڈر ہیں جنہوں نے سن 2021 میں جبری طور پر اقتدار پر قبضہ کیا۔ سن 2021 کے اوائل میں مالی کی فوج نے نو ماہ میں میں دوسری بغاوت کر کے اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ سوڈان میں بھی فوج نے اکتوبر میں سویلین حکومت کو فارغ کر کے اقتدار پر قبضہ حاصل کیا تھا۔ سوڈان میں ایمرجنسی کا نفاذ ہے اور عوامی مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
تصویر: CELLOU BINANI/AFP/ Getty Images
حیرانی میں دھرے گئے
کانگو کا آتش فشاں ماؤنٹ نیئراگونگو مئی میں اُبل پڑا تھا۔ ہزاروں افراد گھربار چھوڑؑنے پر مجبور ہو گئے۔ تین ہزار مکانات راکھ ہو کر رہ گئے۔ حکومت پر الزام لگایا گیا کہ آتش فشاں کی نگرانی کے لیے سرمایہ فراہم نہیں کیا گیا لہذا اس کے پھٹنے کی فوری اطلاع نہیں دی جا سکی۔
تصویر: Moses Sawasawa/AFP/Getty Images
موزمبیق میں مشترکہ آپریشن
ستمبر میں روانڈا کے صدر پال کاگامے نے موزمبیق میں تعینات اپنی فوج سے ملاقات کی تھی۔ موزمبیق کے شمالی صوبے کابو ڈیلگاڈو میں یہ افواج تعینات ہیں۔ موزمبیق کے صدر فیلیپے نیوسی نے روانڈا کی فوج کی کارروائیوں کی تعریف بھی کی ہے۔ اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں کے خلاف جنوبی افریقی ترقیاتی کمیونٹی (SADC) کے رکن ملکوں کے فوجی بھی ایک مشترکہ آپریشن میں شریک ہیں۔
تصویر: Estácio Valoi/DW
ایتھوپیا کی خانہ جنگی اور سویلین کی مشکلات
ایتھوپیا میں کسی جنگ بندی کے امکانات معدوم ہو رہے ہیں۔ ملکی وزیر اعظم آبی احمد اور تگرائی کے باغی ابھی تک مدمقابل ہیں۔ یہ مسلح تنازعہ سن 2020 سے شروع ہے۔ ہزاروں افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ عام شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
تصویر: Maria Gerth-Niculescu/DW
جنوبی افریقہ دنیا سے کٹ کر رہ گیا
جنوبی افریقہ دنیا کے کئی حصوں سے اُس وقت کٹ کر رہ گیا جب نومبر میں اس ملک میں سائنسدانوں نے کورونا وائرس کے اومیکرون ویرئنٹ دریافت کیا۔ اب برطانیہ سمیت کچھ اور ممالک نے اس ملک کے سیاحوں پر عائد سفری پابندیوں کو ہٹا دیا ہے۔ لیکن ابھی بھی بہت سے ملکوں کی پابندیاں بدستور موجود ہیں۔
تصویر: Jerome Delay/AP Photo/picture alliance
لوٹے آرٹ کی واپسی کا جشن
سن 2021 افریقی ثقافتی ورثے کی بحالی میں ایک نیا موڑ لے کر آیا۔ فرانس، جرمنی، بیلجیم اور نیدرلینڈز سمیت کئی اور ملکوں نے اس بر اعظم کے قیمتی تاریخی نوادرات کی واپسی کا سلسلہ شروع کیا۔ بنین میں فرانسیسی دارالحکومت پیرس سے بادشاہ غیزو کے تخت کو فوجی اعزار کے ساتھ وصول کیا گیا۔
تصویر: Seraphin Zounyekpe/Presidence of Benin/Xinhua/picture alliance
مالی سے فرانس کا انخلاء
فرانس نے ٹمبکٹو کے فوجی اڈے کا کنٹرول مالی کی فوج کے حوالے کر دیا ہے۔ فرانس کے فوجی مالی میں نو برس سے باغیوں کے خلاف برسرِپیکار ہیں۔ اس کے دو ہزار فوجی سن 2022 تک واپس وطن لوٹ آئیں گے۔ مالی کے وزیر خاجہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کا ملک فرانس کے ساتھ تعمیری مذاکرات کا خواہشمند ہے۔
تصویر: Blondet Eliot/ABACA/picture alliance
افریقی لٹریچر کا ایک عظیم سال
سن 2021 کو افریقی ادیبوں کے لیے ایک اچھا سال قرار دیا گیا ہے۔ تصویر میں زمبابوے کی ادیب ہی ٹسِٹسی ڈانگاریمبگا ہیں۔ ان کو جرمنی کا سالانہ پیس پرائز دیا گیا ہے۔ سینیگال کے محمد مبوگر سار کو فرانس کا معتبر پری گونکور پرائز اور جنوبی افریقی ادیب ڈامون گالگوٹ کو بُکرز پرائز سے نوازا گیا۔ سن 2021 ہی میں تنزانیہ کے عبدالرزاق گُرناہ کو نوبل انعام کا حقدار ٹھہرایا گیا۔
تصویر: Sebastian Gollnow/dpa/picture alliance
آئیے ڈانس کریں
افریقی رمبا اس براعظم کا محبوب ترین رقص ہے۔ کانگو اور جمہوریہ کانگو میں رمبا موسیقی سے بھی زیادہ مقام رکھتا ہے۔ یونیسکو نے سن 2021 میں اس رقص کو دنیا کے ان چھوئے ورثے میں شامل کیا ہے۔ اس رقص و موسیقی کی صنف کو یہ اعزاز مشہور و معروف رمبا موسیقار پاپا ویمبا (تصویر میں) کی موت کے پانچ سالوں بعد ملا ہے۔