مالی میں فوجیوں کے ذریعہ سویلین رہنماؤں کو حراست میں لینے کے بعد عبوری صدر باہ نداو اور وزیر اعظم مختار وان کے 'اغوا‘ کی یورپی یونین نے مذمت کی ہے۔
اشتہار
مالی کے فوجی عہدیداروں نے صدر باہ نداو اور وزیر اعظم مختار وان کو پیر کے روز گرفتار کرلیا۔ عالمی برادری نے اس کی سخت مذمت کی ہے۔ وزیر دفاع سلیمان دوکور کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ ان رہنماوں کو گرفتار کرنے کے بعد مالی کے دارالحکومت بماکو کے قریب واقع فوجی اڈے کاٹی لے جایا گیا ہے۔
یہ گرفتاریاں کابینہ میں رد و بدل میں فوجی جنتا کے دو اراکین کے اپنے عہدوں سے محروم ہوجانے کے چند گھنٹوں کے اندر ہوئیں۔
بین الاقوامی برداری کا ردعمل
اقوام متحدہ، افریقی یونین اور مغربی افریقی ریاستوں کی اقتصادی کمیونٹی (ای سی او ڈبلیو اے ایس) نے اس کارروائی کی مذمت اور رہنماوں کو فوراً رہا کرنے کی اپیل کی ہے۔ یورپی یونین، امریکا اور برطانیہ نے بھی اس ”ممکنہ بغاوت" کی نکتہ چینی کی ہے۔ یورپی یونین نے اس اقدام کو”اغوا“ قرار دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرس نے کہا ”انہیں نداو اور وان کی گرفتاری پر ”انتہائی تشویش" ہے۔ انہوں نے ٹوئٹر پر کہا”میں امن و سکون اور ان کی غیر مشروط رہائی کی اپیل کرتا ہوں۔“
یورپی کونسل کے صدر چارلس مشیل نے برسلز میں یورپی یونین سربراہی کانفرنس کے دوران نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا”جو کچھ بھی ہوا ہے وہ انتہائی غلط اور سنگین ہے اور ہم اس کے خلاف ضروری اقدامات پر غور کرنے کے لیے تیار ہیں۔"
مالی کی سیاسی صورت حال
اگست میں مالی کی فوج نے صدر ابراہیم بوبکر کیتا کو معزول کردیا تھا جس کے بعد انہیں مجبوراً استعفی دینا پڑا۔ ستمبر میں نداو کی قیادت میں ایک عبوری حکومت تشکیل دی گئی۔
عبوری حکومت اٹھارہ ماہ کے لیے بنائی گئی تھی اور اسے ملک میں اصلاحات نافذ کرنے اور انتخابات کرانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ عبوری حکومت میں شامل بہت سے اہم رہنما وں کا تعلق فوج سے ہے۔ نداو خود بھی آرمی افسر کے طورپر خدمات انجام دے چکے ہیں۔
ٹمبکٹو کی نارد دستاویزات
2012ء میں جب شمالی مالی اسلام پسندوں کے قبضے میں چلا گیا تھا تو وہاں موجود ہزاروں تاریخی دستاویزات کے تباہ کر دیے جانے کا خطرہ بھی بڑھ گیا تھا۔ مالی کے کچھ شہریوں نے اِنہیں محفوظ بنانے کی کوششیں شروع کر رکھی ہیں۔
تصویر: DW/P. Breu
تاریخی اثاثے
ٹمبکٹو کی نادر تحریریں تاریخی اعتبار سے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ یہ کئی سو سال کی اسلامی تحقیق کا نچوڑ ہیں۔ اُس دور میں ٹمبکٹو افریقہ میں اسلامی اور قرآنی تعلیمات کا مرکز ہوا کرتا تھا۔
تصویر: DW/P. Breu
دھاتی کنٹینرز میں اسمگلنگ
2012ء میں مسلمان شدت پسندوں نے جب شمالی مالی میں حملے شروع کیے تو اس دوران بہت سے تاریخی مقامات کو تباہ کر دیا گیا اور اس موقع پر مالی کے کچھ باسیوں نے ان تاریخی دستاویزات کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے انہیں ٹمبکٹو سے اسمگل کر کے ملکی دارالحکومت بماکو پہنچا دیا تھا۔ یہاں ان تاریخی دستاویزات کو چھانٹے بغیر دھات کے ڈبوں میں رکھا گیا ہے۔ اب انہیں محفوظ بنانے اور ڈیجیٹلائز کرنے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/P. Breu
تحریروں کو محفوظ کر لینے والا
عبدالقادر حیدرہ نے ان تحریروں کو محفوظ کرنے کا ذمہ اپنے سر لیا ہوا ہے۔ وہ ایک خاندانی کتب خانہ چلاتے ہیں اور وہ اپنی دستاویزات کے ساتھ ساتھ ٹمبکٹو کی ان تحریروں کو بھی بچانا چاہتے ہیں، جو تباہی کے خطرے سے دوچار ہیں۔
تصویر: DW/P. Breu
تمام لوگوں کی دستاویزات تک رسائی
ان تاریخی دستاویزات کو ڈیجیٹلائز کرنے کے دو مقاصد ہیں۔ ایک تو اگر کسی وجہ سے اصل تحریروں کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اُن کی ڈیجیٹل کاپیاں موجود ہوں اور دوسرے یہ کہ جو بھی چاہے، اِن دستاویزات تک رسائی حاصل کر سکے۔ اِن دستاویزات کو اُن کی اصل حالت میں محفوظ رکھنے کے حوالے سے ابھی تک کوئی منصوبہ نہیں بنایا گیا ہے۔
تصویر: DW/P. Breu
گتے کے ڈبوں میں منتقلی
ڈیجیٹلائزیشن کے بعد ان دستاویزات کو تیزابیت سے پاک ڈبوں میں منتقل کر کے رکھا جائے گا۔ ان میں سے ہر تحریر مختلف نوعیت کی ہے اور ان کے سائز بھی ایک دوسرے سے جدا ہیں۔ اس وجہ سے انہیں رکھنے کے لیے ہاتھ سے خصوصی ڈبے تیار کرنا ہوں گے۔
تصویر: DW/P. Breu
خالی بک شیلف
کوئی بھی کتاب ٹمبکٹو کے ماما حیدرا میموریل کتب خانے میں موجود نہیں ہے۔ یہ امر بھی ابھی تک غیر واضح ہے کہ آیا یہ تاریخی دستاویزات دوبارہ کبھی اس لائبریری کی زینت بنیں گی یا نہیں۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ نادر نمونے بماکو میں زیادہ محفوظ ہیں جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ ان کے بغیر ٹمبکٹوکی ساکھ متاثر ہو گی۔
تصویر: DW/P. Breu
بے یار و مددگار کتب خانے
احمد بابا نامی ادارہ آغا خان ٹرسٹ کے علاوہ جنوبی افریقہ اور سعودی عرب کے مالی تعاون سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس میں صرف ایک لائبیری اور آرکائیو ہی نہیں ہے بلکہ اس میں ایسے جدید آلات بھی نصب ہیں، جن کی مدد سے دستاویزات کو ڈیجیٹلائز اور محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ ادارہ ویران ہے اور خستہ حال ہو چکا ہے۔
تصویر: DW/P. Breu
سیاہ دن
اسلام پسندوں نے یونیسکو اور مغربی ممالک کے سامنے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی خاطر ٹمبکٹو میں چند تاریخی نمونوں کو جمع کر کے احمد بابا انسٹیٹیوٹ میں نذر آتش کر دیا تھا۔ اس دوران چار ہزار سے زائد تحریریں جل کر راکھ ہو گئی تھیں۔ یہ آج بھی اسے ادارے میں موجود ہیں، مگر خاک کی صورت میں۔
تصویر: DW/P. Breu
ٹمبکٹو خطرے سے دوچار
بیسویں صدی میں اپنی اقتصادی اہمیت کھونے کے بعد صرف سیاحت ہی ٹمبکٹو کے لوگوں کا واحد ذریعہ معاش تھا۔ 2012ء میں شروع ہونے والے تنازعہ کے بعد سیاحوں نے بھی اس شہر کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے۔
تصویر: DW/P. Breu
غیر یقینی مستقبل
مالی کی سیاسی صورتحال کشیدہ ہے اور ملکی فوج اس قدر کمزور ہے کہ وہ مستقل بنیادوں پر سلامتی کی صورتحال کو قابو میں نہیں رکھ سکتی۔ 2012ء میں ٹمبکٹو کے اکثر باسی نقل مکانی کر گئے تھے اور وہ آج تک واپس نہیں لوٹے ہیں کیونکہ انہیں حالات پر بھروسہ نہیں ہے۔
تصویر: DW/P. Breu
10 تصاویر1 | 10
مالی کو اس وقت متعدد سکیورٹی اور انسانی بحران کا سامنا ہے۔
علیحدگی پسند اور اسلام پسند گروپوں نے سن 2012 سے ہی حکومت کے خلاف مسلح جنگ چھیڑ رکھی ہے۔اس جنگ کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کو بے گھر ہونا پڑا ہے اور تشدد کا دائرہ پڑوسی ملک برکینا فاسو اور نائجر تک پھیل گیا ہے۔
ماحولیاتی مسائل نے ملک میں خوراک کی سپلائی اور زرعی شعبے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ کووڈ انیس کی وبا کی وجہ سے مالی کے خستہ حال صحت نظام پر اضافی بوجھ پڑ گیا ہے۔
ج ا/ ص ز (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے)
تنازعات کے شکار ملک کانگو میں چاکلیٹ سازی
جمہوریہ کانگو مختلف پرتشدد تنازعات کا شکار ملک ہے۔ اس ملک میں مقامی چاکلیٹ انڈسٹری کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ جنگ زدہ علاقے شمالی کیوُو میں چاکلیٹ ہاتھ سے تیار کی جاتی ہے۔
تصویر: DW/J. Raupp
بینی علاقے کے کوکو بیج
اس تصویر میں ایڈل گیوٹ اور میتھیو چیمبرز بینی علاقے سے لائے گئے کوکو بیج کا معائنہ کرتے ہوئے ان کے معیار کو پرکھ رہے ہیں۔ بینی کا علاقہ کانگو چاکلیٹ کمپنی کے صدر دفتر سے ساڑھے تین سو کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ اس ابتدائی پڑتال کے بعد ہی چاکلیٹ سازی کا عمل شروع کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/J. Raupp
کوکو بیج کی فراہمی میں مشکلات
بینی علاقے سے کوکویا کاکاؤ بیج کی فراہمی میں بسا اوقات تاخیر ہو جاتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ طویل فاصلہ اور جنگلاتی سڑک ہے، جو گڑھوں کے ساتھ ساتھ کیچڑ سے بھری رہتی ہے۔ اس کے علاوہ مسلح ملیشیا کے حملوں کا بھی خطرہ رہتا ہے۔
تصویر: DW/J. Raupp
ذاتی تجربے سے چاکلیٹ بنانے والے
چاکلیٹ سازی میں شریک خاتون ایڈل گیوٹ کیمرون میں پروان چڑھیں اور پھر کینیا میں تعلیم حاصل کرتی رہیں۔ وہ کانگو لوٹ کر مقامی خواتین کو عملی میدان میں حصہ لینے کی ترغیب دیتے ہوئے اُن کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گیوٹ نے چاکلیٹ سازی کا علم ذاتی مطالعے سے حاصل کیا ہے۔
تصویر: DW/J. Raupp
ہاتھ سے بنائی گئی چاکلیٹ
کوکو کانگو کمپنی میں کام کرنے والی خواتین چھوٹے چھوٹے چولہوں پر چاکلیٹس کو پگھلا کر اُن کو مناسب ٹکڑوں میں تقسیم کرتی ہیں۔ اس کمپنی کو قائم ہوئے صرف تین ماہ ہوئے ہیں لیکن یہ اگلے مہینوں میں اپنی پروڈکشن میں غیرمعمولی اضافہ کرنے کیا عزم رکھتی ہے۔
تصویر: DW/J. Raupp
سو فیصد ساختہ کانگو
کوکو کمپنی میں میمی سمیئرز کُل دس ملازمین میں سے ایک ہیں۔ اُس کے لیے یہ ایک ناقابل یقین بات ہے کہ وہ سو فیصد میڈ اِن کانگو چاکلیٹ تیار کرتی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کانگو میں غربت اور نامساعد حالات کی وجہ سے چاکلیٹ خریدنا انتہائی مشکل ہے۔ میمی سمیئرز کا کہنا ہے کہ اُس نے صرف ٹیلی وژن پر لوگوں کو چاکلیٹ کھاتے دیکھا تھا لیکن اس کمپنی کی وجہ سے اُس کے پانچ بچوں کو چاکلیٹ کی دستیابی ہوئی ہے۔
تصویر: DW/J. Raupp
خوبصوہرت پیکنگ
کوکو کانگو نے اپنی چاکلیٹ کے لیے خاص طور پر دلفریب اور خوبصورت پیکنگ کو فوقیت دے رکھی ہے۔ اس پبیکنگ کی ڈیزائنگ گوما شہر سے کرائی گئی ہے۔ اس کمپنی کی پچاس گرام کی تین بارز کی قیمت قریب بیس ڈالر ہے۔ اس کمپنی کا یہ بھی کہنا ہے کہ فی الحال اس چاکلیٹ کو ایکسپورٹ کرنے کے بجائے پوری طرح مقامی منڈیوں میں کھپایا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/J. Raupp
ایک پرخطر کاروبار
جنگ زدہ علاقے بینی کے کسانوں کو اپنے خطرناک حالات کا احساس ہے اور وہ اس کی کاشت کو ایک خطرناک فعل قرار دیتے ہیں۔ ایسے کسانوں میں ایک خاتون سلوی کروسہنگوا زوادی ہیں اور وہ کہتی ہیں کہ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے علاوہ اغوا کی وارداتیں بھی عام ہیں۔ بظاہر یہ علاقہ مسلح ملیشیا کے رحم و کرم پر ہے۔ اس علاقے میں حکومت بھی سکیورٹی صورت حال کو بہتر بنانے کی کوشش میں ہے۔