’ماما‘ ایک بار پھر جہاز پر سوار نہ ہو سکے
5 مارچ 2015پاکستانی حکام نے شورش زدہ صوبے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے لیے سرگرم اور بلوچستان کے لاپتہ افراد کے لیے کام کرنے والی تنظیم کے چیئرمین عبدالقادر بلوچ پر سفری پابندی عائد کر دی ہے۔
'ماما‘ کہلانے والے عبدالقادر بلوچ کو بدھ کی شب کراچی ایئرپورٹ سے ابو ظہبی اور وہاں سے نیو یارک کے لیے روانہ ہونا تھا۔ آئندہ ویک اینڈ پر بلوچستان اور صوبہ سندھ میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے حوالے سے منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے عبدالقادر بلوچ کو نیو یارک میں آباد سندھی برادری نے مدعو کر رکھا ہے۔
عبدالقادر بلوچ ایک ایسے پریشر گروپ کے بانی ہیں جو لاپتہ افراد کی معلومات حاصل کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ خاص طور سے حکومت پاکستان اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے مابین ایک طویل عرصے سے چلے آ رہے تنازعے کے دوران جتنے افراد لاپتہ ہوئے ہیں اُن کے بارے میں معلومات کے حصول کے لیے اس بلوچ لیڈر نے بہت جدو جہد کی ہے۔
اطلاعات کے مطابق ایسے سینکڑوں افراد جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ یہ مبینہ طور پر بلوچ علیحدگی پسند گروپوں کے ساتھ رِابطے میں ہیں، مبینہ طور پر پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں غائب کر دیے گئے ہیں۔ لاپتہ ہو جانے والے متعدد افراد بشمول عبدالقادر بلوچ کے بیٹے کی لاش مل چکی ہیں تاہم زیادہ تر لاپتہ افراد دوبارہ کبھی نظر نہیں آئے۔
گزشتہ سال عبدالقادر بلوچ نے لاپتہ افراد کے خاندان والوں کے ساتھ مل کر دو ہزار کلو میٹر طویل مارچ کی قیادت کی تھی جس کا مقصد اس گروپ کے مقاصد کے بارے میں آگاہی بڑھانا اور حکومت سے لاپتہ افراد کے بارے میں کیے جانے والے سوالات کا جواب طلب کرنا تھا۔
پاکستان کی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی ایف آئی اے نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بیان دیتے ہوئے اس خبر کی تصدیق کر دی ہے کہ عبدالقادر بلوچ اور اُن کی رفیق فرزانہ مجید، جن کا بھی ایک بھائی لاپتہ ہے، کو نیو یارک جانے سے روک دیا گیا ہے کیونکہ یہ دونوں حکومت کی ’ ایگزٹ کنٹرول لسٹ‘ ECL میں شامل ہیں۔ اور اس فہرست میں شامل افراد کو ملک سے باہر سفر کی اجازت نہیں دی جاتی۔
فرزانہ مجید نے اس موقع پر ایک بیان میں کہا کہ وہ ایک ماہ پہلے دُبئی جا چُکی ہیں اور تب انہیں سفر کرنے میں کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے کہا،" بُدھ کی شب جب ہم کراچی کے جناح انٹر نیشنل ایئر پورٹ پہنچے تو چیک اِن کے بعد ایف آئی اے کے اہلکاروں نے ہم سے کہا کہ ہم ECL کی لسٹ میں شامل ہیں اور ہم ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں اس لیے ہمیں جانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی"۔
عبدالقادر بلوچ کے مطابق انہوں نے حکام کو آگاہ کیا کہ انہیں بیرون ملک سفر پر پابندی کی کبھی کوئی اطلاع نہیں ملی نہ کبھی ایسے کسی حکم نامے کے بارے میں میڈیا میں کوئی خبر آئی ہے لیکن حکام نے ان کا موقف تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔
ماضی میں وہ جینیوا، ناروے، سوئٹرزلینڈ اور ہانگ کانگ میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی دعوت پر ویزہ نہ ملنے کی وجہ سے شرکت نہیں کر سکے تھے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق جنوری 2011 ء سے اب تک بلوچستان میں 300 سے زائد افراد کو ’ مارو اور ذخیرہ کرو‘ کے اصول کے تحت غائب کیا جا چُکا ہے۔ ہیومن رائٹس گروپوں کی طرف سے پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور اینٹیلیجنس سروسز پر الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ یہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی اور ظلم و ستم کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ خاص طور سے مبینہ باغیوں کو قتل کر کے ان کی لاشوں کو سڑک کے کنارے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
بلوچستان سے لاپتہ نوجوانوں کے لواحقین نے جولائی 2009 ء میں ’وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز‘ کی بنیاد رکھی تھی جس کے بعد بلوچستان کے علاوہ کراچی اور اسلام آباد میں بھی یہ کیمپ لگایا گیا۔