آسٹریلوی میڈیکل ایسوسی ایشن نے مطالبہ کیا ہے کہ پاپوا نیو گنی میں موجود تارکین وطن کے آزادانہ طبی معائنے کی اجازت دی جائے۔ پاپوا نیو گنی کے جزیرے مانوس پر سینکڑوں مہاجرین انتہائی ابتر صورتحال میں رہنے پر مجبور ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے اٹھارہ نومبر بروز ہفتہ بتایا کہ آسٹریلوی میڈیکل ایسوسی ایشن نے مانوس جزیرے میں موجود سینکڑوں تارکین وطن اور مہاجرین کی طبی صورتحال پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ کینبرا میں منعقد ہونے والے اس میڈیکل ایسوسی ایشن کی وفاقی کونسل کے ایک اجلاس میں متقفہ طور پر زور دیا گیا کہ مانوس میں موجود مہاجرین کو پہنچائی جانے والی طبی مدد پر آزادانہ رپورٹنگ کو ممکن بنایا جائے۔
پاپوا نیو گنی کے جزیرہ مانوس میں قائم اس مہاجر مرکز کا انتظام آسٹریلیا کے پاس ہی ہے۔ پاپوا نیو گنی کی حکومت نے اس حراستی مرکز کو بند کر دیا ہے تاہم اب بھی کم از کم تین سو مہاجرین اس کیمپ کو چھوڑنے پر رضا مند نہیں ہیں۔
آسٹریلوی حکومت نے پاپوا نیو گنی کی مدد سے مانوس میں تین دیگر مہاجر مراکز تعمیر کیے ہیں لیکن مہاجرین کو خوف ہے کہ اگر وہ وہاں منتقل ہوئے تو مقامی آبادی انہیں تشدد کا نشانہ بنا سکتی ہے۔
تین ہفتے قبل مانوس کے مرکزی حراستی مرکز کو بند کرتے ہوئے وہاں بجلی، پانی اور دیگر سہولیات کی فراہمی روک دی گئی تھی۔ خبر رساں اداروں نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس صورتحال میں اس کیمپ میں موجود سینکڑوں مہاجرین کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ان میں سے متعدد بیمار بھی ہیں، جنہیں مناسب طبی مدد کی فراہمی میں بھی مشکلات درپیش ہیں۔
آسٹریلوی میڈیکل ایسوسی ایشن پہلے بھی مانوس جزیرے میں موجود مہاجرین کی ابتر صورتحال پر تحفظات کا اظہار کر چکی ہے تاہم حالیہ عرصے کے دوران اس جزیرے میں صورتحال مزید ابتر ہونے کی خبروں کے نتیجے میں اس طبی تنظیم کی وفاقی کونسل نے کہا ہے کہ مانوس میں مہاجرین کی حالت زار کے بارے میں اٹھنے والے سوالات کے جوابات دینا اب ناگزیر ہو گیا ہے۔
آسٹریلوی میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر مائیکل گانن نے اپنے ایک بیان میں کہا، ’’ انسانی حقوق کا بہترین ریکارڈ رکھنے والی قوم کے حوالے سے یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم ان (تارکین وطن) افراد کی صحت کا خیال رکھیں اور ان کو حفظان صحت کی سہولیات فراہم کریں۔‘‘ دوسری طرف ہفتے کے دن ہی سڈنی میں ایک احتجاجی ریلی کا انعقاد بھی کیا گیا، جس میں شامل شرکاء نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ مانوس جزیرے میں موجود مہاجرین کو بنیادی سہولیات کی فراہمی ممکن بنائی جائے۔
یورپ میں مہاجرین کا بحران کیسے شروع ہوا؟
مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی ممالک میں بڑھتی ہوئی شورش مہاجرت کے عالمی بحران کا سبب بنی ہے۔ اس تناظر میں یورپ بھی متاثر ہوا ہے۔ آئیے تصویری شکل میں دیکھتے ہیں کہ اس بحران سے نمٹنے کی خاطر یورپ نے کیا پالیسی اختیار کی۔
تصویر: picture-alliance/PIXSELL
جنگ اور غربت سے فرار
سن دو ہزار چودہ میں شامی بحران کے چوتھے سال میں داخل ہوتے ہی جہاں اس عرب ملک میں تباہی عروج پر پہنچی وہاں دوسری طرف انتہا پسند گروہ داعش نے ملک کے شمالی علاقوں پر اپنا قبضہ جما لیا۔ یوں شام سے مہاجرت کا سلسلہ تیز تر ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی دیگر کئی ممالک اور خطوں میں بھی تنازعات اور غربت نے لوگوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا۔ ان ممالک میں عراق، افغانستان، ارتریا، صومالیہ، نائجر اور کوسووو نمایاں رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پناہ کی تلاش
شامی باشندوں کی ایک بڑی تعداد سن دو ہزار گیارہ سے ہی جنگ و جدل سے چھٹکارہ پانے کی خاطر ہمسائے ممالک ترکی، لبنان اور اردن کا رخ کرنے لگی تھی۔ لیکن سن دو ہزار پندرہ میں یہ بحران زیادہ شدید ہو گیا۔ ان ممالک میں شامی مہاجرین اپنے لیے روزگار اور بچوں کے لیے تعلیم کے کم مواقع کی وجہ سے آگے دیگر ممالک کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ تب مہاجرین نے یورپ کا رخ کرنا بھی شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
طویل مسافت لیکن پیدل ہی
سن دو ہزار پندرہ میں 1.5 ملین شامی مہاجرین نے بلقان کے مختلف رستوں سے پیدل ہی یونان سے مغربی یورپ کی طرف سفر کیا۔ مہاجرین کی کوشش تھی کہ وہ یورپ کے مالدار ممالک پہنچ جائیں۔ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کے سبب یورپی یونین میں بغیر ویزے کے سفر کرنے والا شینگن معاہدہ بھی وجہ بحث بن گیا۔ کئی ممالک نے اپنی قومی سرحدوں کی نگرانی بھی شروع کر دی تاکہ غیر قانونی مہاجرین کو ملک میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔
تصویر: Getty Images/M. Cardy
سمندرعبور کرنے کی کوشش
افریقی ممالک سے یورپ پہنچنے کے خواہمشند پناہ کے متلاشی نے بحیرہ روم کو عبور کرکے اٹلی پہنچنے کی کوشش بھی جاری رکھی۔ اس دوران گنجائش سے زیادہ افراد کو لیے کئی کشتیاں حادثات کا شکار بھی ہوئیں۔ اپریل سن 2015 میں کشتی کے ایک خونریز ترین حادثے میں آٹھ سو افراد ہلاک گئے۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔ رواں برس اس سمندری راستے کو عبور کرنے کی کوشش میں تقریبا چار ہزار مہاجرین غرق سمندر ہوئے۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
یورپی ممالک پر دباؤ
مہاجرین کی آمد کے سلسلے کو روکنے کی خاطر یورپی یونین رکن ممالک کے ہمسایہ ممالک پر دباؤ بڑھتا گیا۔ اس مقصد کے لیے ہنگری، سلووینیہ، مقدونیہ اور آسٹریا نے اپنی قومی سرحدوں پر باڑیں نصب کر دیں۔ پناہ کے حصول کے قوانین میں سختی پیدا کر دی گئی جبکہ شینگن زون کے رکن ممالک نے قومی بارڈرز پر عارضی طور پر چیکنگ کا نظام متعارف کرا دیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/B. Mohai
کھلا دروازہ بند ہوتا ہوا
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے مہاجرین کی یورپ آمد کے لیے فراخدلانہ پالیسی اپنائی۔ تاہم ان کے سیاسی مخالفین کا دعویٰ ہے کہ میرکل کی اسی پالیسی کے باعث مہاجرین کا بحران زیادہ شدید ہوا، کیونکہ یوں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو تحریک ملی کہ وہ یورپ کا رخ کریں۔ ستمبر سن دو ہزار سولہ میں بالاخر جرمنی نے بھی آسٹریا کی سرحد پر عارضی طور پر سکیورٹی چیکنگ شروع کر دی۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
ترکی کے ساتھ ڈیل
سن دو ہزار سولہ کے اوائل میں یورپی یونین اور ترکی کے مابین ایک ڈیل طے پائی، جس کا مقصد ترکی میں موجود شامی مہاجرین کی یورپ آمد کو روکنا تھا۔ اس ڈیل میں یہ بھی طے پایا کہ یونان پہنچنے والے مہاجرین کو واپس ترکی روانہ کیا جائے گا۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس ڈیل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ اس ڈیل کی وجہ سے یورپ آنے والے مہاجرین کی تعداد میں واضح کمی ہوئی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Altan
مہاجرین کا نہ ختم ہونے والا بحران
مہاجرین کے بحران کی وجہ سے یورپ میں مہاجرت مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ یورپی ممالک ابھی تک اس بحران کے حل کی خاطر کسی لائحہ عمل پر متفق نہیں ہو سکے ہیں۔ رکن ممالک میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کا کوٹہ سسٹم بھی عملی طور پرغیرمؤثر ہو چکا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور دیگر کئی ممالک میں بدامنی کا خاتمہ ابھی تک ختم ہوتا نظر نہیں آتا جبکہ مہاجرت کا سفر اختیار کرنے والے افراد کی اموات بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔