فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں نے اپنے ایرانی ہم منصب ابراہیم رئیسی سے ٹیلی فون پر بات چیت کے دوران ویانا میں جاری ایرانی جوہری مذاکرات اور علاقائی مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔ ماکروں نے مذاکراتی عمل میں تیزی پر زور دیا۔
فرانس کے صدارتی دفتر کے جاری کردہ بیان کے مطابق ماکروں نے اپنے ایرانی ہم منصب سے ویانا میں کئی ماہ سے جاری مذاکرات میں تیزی برتنے کی ضرورت پر اصرار کیا تاکہ 'اس تناظر میں جلد سے جلد ٹھوس پیش رفت حاصل کی جاسکے۔‘
ایرانی جوہری معاہدہ: ملکی عوام کتنے پر امید ہیں؟
03:11
بیان کے مطابق ماکروں نے کہا، ''ایران کی جوہری سرگرمیوں سے متعلق سفارتی حل ابھی بھی ممکن ہے لیکن اس کے لیے کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
ماکروں نے اپنے ایرانی ہم منصب کے ساتھ 'طویل تبادلہ خیال‘ کے دوران، 'تہران کی طرف سے تعمیری طرز عمل کا مظاہرہ کرنے اور اپنی ذمہ داریوں کو مکمل طور پر پورا کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔‘
رئیسی کا مؤقف
ایرانی خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق دونوں رہنماؤں کی گفتگو میں ''دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے‘‘ اور ''ایران پر عائد پابندیوں کے خاتمے‘‘ پر بھی گفتگو ہوئی۔
اطلاعات کے مطابق صدر ابراہیم رئیسی نے تہران پر عائد پابندیوں کے خاتمے اور اس کی ضمانتوں کی تصدیق پر زور دیتے ہوئے کہا کہ 'ایران پر امریکی پابندیوں کا دباؤ بے اثر رہا ہے۔‘
کیا ایران کی قدیم تاریخ معدوم ہوجائے گی؟
02:24
This browser does not support the video element.
اطلاعات کے مطابق دونوں رہنماؤں نے علاقائی صورتحال پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے لبنان کی سیاسی صورتحال اور یمن کی جنگ کے موضوعات پر بھی بات چیت کی۔
ایرانی جوہری معاہدے کی بحالی
برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس، چین اور یورپی یونین اس وقت سن 2015 میں ایران کے ساتھ طے ہونے والے معاہدے پر ویانا میں مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تقریباً دو ماہ قبل یہ مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے تھے، تاہم ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکا ہے۔ ویانا میں موجود مغربی سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ مذاکرات بہت سست رفتار سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
امریکا بھی ان مذاکرات میں بالواسطہ طور پر شامل ہے۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2018 میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے امریکا کو یکطرفہ طور پر نکال لیا تھا، جس سے واشنگٹن اور تہران کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو گیا تھا۔
صدر جو بائیڈن نے سال 2021 کے آغاز میں عہدہ سنبھالنے کے بعد اس معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے کی بات کہی لیکن وہ ایران پر عائد ایسی بیشتر پابندیاں ختم کرنے کے حق میں نہیں جو ایرانی معیشت کو کمزور کر رہی ہیں۔
ع آ / ع ب (اے ایف پی، روئٹرز)
ترکی کا ایرانی سرحد پر دیوار کی تعمیر کا منصوبہ
ترک حکومت ایران سے متصل مشرقی صوبے وان کی سرحد پر 63 کلومیٹر طویل دیوار تعمیر کر رہی ہے۔ اس کنکریٹ کی دیوار کا مقصد غیر قانونی مہاجرت اور اسمگلنگ کی روک تھام سمیت سکیورٹی کو یقینی بنانا ہے۔
تصویر: Mesut Varol/AA/picture alliance
کنکریٹ کی 63 کلومیٹر طویل دیوار
ترک حکومت ایران سے جڑی سرحد کے ساتھ مشرقی صوبے وان میں تریسٹھ کلومیٹر طویل کنکریٹ کی سرحدی دیوار تعمیر کر رہی ہے۔ اس دیوار کے تین کلومیٹر حصے کی تعمیر کا کام مکمل ہوچکا ہے۔
تصویر: Mesut Varol/AA/picture alliance
تین میٹر اونچی بارڈر وال
اس دیوار کی اونچائی تین میٹر اور چوڑائی دو عشاریہ اسّی میٹر ہے۔ سات ٹن وزنی کنکریٹ کے بلاکس تیار کرنے کے بعد بھاری مشینوں کے ذریعے نصب کیے جارہے ہیں۔
تصویر: Mesut Varol/AA/picture alliance
نگرانی کے لیے ’اسمارٹ واچ ٹاورز‘
ترک حکومت کے مطابق صوبہ وان کے سرحدی علاقوں میں نگہداشت کے لیے اب تک 76 ٹاورز نصب کیے گئے ہیں اور گہری کھائی بھی کھودی گئی ہے۔
تصویر: Mesut Varol/AA/picture alliance
بارڈر سکیورٹی میں اضافہ
انقرہ حکومت کے مطابق کنکریٹ کی دیوار کی تعمیر کا مقصد دہشت گردی، سامان کی اسمگلنگ اور غیر قانونی مہاجرت کے خلاف سکیورٹی سخت کرنا ہے۔
تصویر: Mesut Varol/AA/picture alliance
’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘
اس دیوار کی تعمیر کا ایک مقصد دہشت گردی کے خلاف لڑائی ہے۔ ترک میڈیا کے مطابق کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے ایک ہزار سے زیادہ کارکن ایران کی سرحد پر کیمپوں میں سرگرم ہیں۔ اس دیوار کے ذریعے اس گروپ کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جائے گی۔
تصویر: Mesut Varol/AA/picture alliance
غیر قانونی مہاجرت کی روک تھام
یورپ پہنچنے کے لیے ہزاروں تارکین وطن ایران کے راستے سے غیر قانونی طریقے سے ترکی کی حدود میں داخل ہوتے ہیں۔ اس دیوار کی تعمیر کا مقصد افغانستان، پاکستان اور ایران سے ہونے والی انسانی اسمگلنگ کو روکنا ہے۔ ترک میڈیا کے مطابق گزشتہ چند ہفتوں کے دوران کم از کم پانچ سو افغان مہاجرین ترکی میں داخل ہوئے ہیں۔
تصویر: Mesut Varol/AA/picture alliance
منشیات اور سامان کی اسمگلنگ
اس سرحدی دیوار کی تعمیر کے ذریعے ترک حکومت منشیات اور سامان کی اسمگلنگ کو بھی روکنا چاہتی ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے عہدیدار نے ترکی کے اس اقدام کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس دیوار کی تعمیر سے اسمگلنگ کو روکا جاسکے گا۔
تصویر: Mesut Varol/AA/picture alliance
سرحدی علاقے میں جنگلی حیات
ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ سرحدی دیوار کی تعمیر سے علاقے میں جنگلی حیات کی نقل و حرکت محدود ہوجائے گی۔ اس وجہ سے ماحولیاتی نظام پر طویل مدتی تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔
تصویر: Mesut Varol/AA/picture alliance
محفوظ سرحدیں
ترک حکام امید کر رہے ہیں کہ اس دیوار کی تکمیل کے ساتھ ہی ترک ایران سرحد کو مزید محفوظ بنانا ہے۔ اُن کو خدشہ ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا مکمل ہونے کے بعد افغان مہاجرین بڑی تعداد میں ایران کے راستے ترکی میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے۔
تصویر: Mesut Varol/AA/picture alliance
ترکی اور سرحدی دیواریں
یو این ایچ سی آر کے مطابق ترکی میں دنیا بھر میں مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد موجود ہے۔ اس وقت ملک میں تقریبا تین عشاریہ چھ ملین رجسٹرڈ شامی پناہ گزین اور قریب تین لاکھ بیس ہزار دیگر قومیتوں سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد موجود ہیں۔