ماں بیٹی نے ایک سو ملین کی جعلی ادویات فروخت کیں
29 مارچ 2016چین میں عالمی ادارہ صحت کے حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر لانس روڈویلڈ نے چینی حکومت پر زور دیا ہے کہ نجی مارکیٹ میں فروخت ہونے والی ویکسین دواؤں کے حوالے سے اسے ہر حال میں اپنا کنٹرول سخت کرنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ماہ منظر عام پر آنے والے اسکینڈل کی روشنی میں ایسے نئے طریقے تلاش کرنے میں مدد ملے گی، جن کے تحت نگرانی کا عمل بہتر بنایا جا سکے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’اصل مسئلہ نجی شعبے کا ہے اور ان کے ڈسٹری بیوشن کے طریقے کا ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ویکسینز کے معاملے میں نجی شعبے کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں ویکسینز کی اسٹوریج اور تقسیم کے طریقہ ء کار کو بین الاقوامی معیارات کے مطابق کرنا ہوگا۔ گزشتہ برس پولیس نے ایک ایسی خاتون اور ان کی بیٹی کو گرفتار کیا تھا، جنہوں نے مبینہ طور پر سن دو ہزار گیارہ کے بعد ملک بھر میں تقریباﹰ ایک سو ملین ڈالر کی جعلی ادویات فروخت کیں۔
اس کے بعد چین کی پولیس نے ان ماں بیٹی کے علاوہ ایک سو تیس افراد سے تفتیش کی ہے اور تقریباﹰ ستر افراد کے خلاف فوجداری مقدمات قائم کیے۔ اس اسکینڈل میں ملوث ماں اور بیٹی کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے۔
جعلی ویکسینز کی فروخت پر انتیس دوا ساز کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کر دیے گئے ہیں جبکہ یہ ادویات خریدنے والے سولہ اداروں پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد چین میں پائے جانے والے ان دیرینہ عوامی خدشات کو تقویت ملی ہے، اس ملک میں خوراک اور ادویات کی فراہمی کی حوالے سے پائے جاتے ہیں۔
چین میں ایسی جعلی ادویات کی ایک بڑی مارکیٹ ہے، جس میں نقلی فارمولہ سے دوائیں تیار کی جاتی ہیں۔ ٹیکوں کے ساتھ ساتھ ویکسینز بھی جعلی کیمیائی مادوں کی مدد سے تیار ہوتی ہیں۔ چین کی فوڈ اینڈ ڈرگ انتظامیہ ابھی تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہیں کہ کس طرح جعلی ویکسینز ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک میں شامل ہوئیں۔