ماں کے مذہب نے زندگی تباہ کر دی، آبے کے مشتبہ قاتل کا بیان
26 اگست 2022
سابق جاپانی وزیراعظم کے 41 سالہ قاتل کے مطابق اس کی ماں کے چرچ کو دیے گئے بھاری عطیات نے ان کے خاندان کو تباہ کردیا۔ ٹیتسویا یاماگامی پر الزام ہے کہ انہوں نے آٹھ جولائی کو گولی مارکر شینزو آبے کو قتل کر دیا تھا۔
اشتہار
ہاتھ سے بنائی گئی ایک بندوق کے ساتھ سابق جاپانی وزیر اعظم شینزو آبے کے سر عام قتل نے ایک ایسی قوم کو چونکا دیا جو اعلیٰ سطحی سیاسی تشدد کی عادی نہیں تھی۔ لیکن اس قتل کے ہفتوں بعد مبینہ حملہ آور کے بارے میں حیران کن تفصیلا ت سامنے آئی ہیں۔ 41 سالہ یہ شخص مالی طور پر آسودہ تھا، لیکن پھر اس کی والدہ کی طرف سے جاپان کے متنازعہ یونیفیکیشن چرچ کو بھاری عطیات دینے کے بعد سبب ان کا خاندان غریب ہوگیا۔ اس کے بعد غربت اور نظر انداز کیے جانے کے احساس نے اسے غصے سے بھر دیا۔
کچھ جاپانیوں نے اس مشتبہ شخص کے لیے تفہیم، حتیٰ کہ ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ ان لوگوں میں خاص طور پر اس حملہ آور کی عمر کے وہ افراد شامل ہیں جو گزشتہ تین دہائیوں کی معاشی بدحالی اور سماجی خلفشار کا شکار رہے ہیں۔ جاپانی سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے ایسی تجاویز بھی دی گئی ہیں کہ مشتبہ حملہ آور ٹیتسویا یاماگامی کی حوصلہ افزائی کے لیے حراستی مرکز میں تحائف بھجوائے جائیں۔ 7000 سے زائد افراد نے استغاثہ کی طرف سے یاگامی کےساتھ نرمی برتنے کی ایک درخواست پر دستخط کیے ہیں۔ یاگامی نے پولیس کو بتایا ہے کہ اس نے جاپان کے سب سے طاقتور اور مبینہ طور پر تفرقہ ڈالنے والے سیاست دانوں میں سے ایک آبے کو اس وجہ سے قتل کیا کہ ان کے ایک مذہبی گروہ کے ساتھ تعلقات تھے جن کے بارے میں وسیع پیمانے پر خیال کیا جاتا ہے کہ وہ یونیفیکیشن چرچ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس معاملے نے چرچ کے پیروکاروں کے ہزاروں دیگر بچوں کی حالت زار کو بھی اجاگر کردیا ہے، جنہیں بدسلوکی اور غفلت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جاپان کی ریشو یونیورسٹی کے نفسیات کے پروفیسر اور فرقوں کے علوم کے ایک ماہر کیمیاکی نشیدا کے مطابق، ''اگر یاماگامی نے مبینہ طور پر یہ جرم نہ کیا ہوتا تو وہ ہمدردی کا مستحق ہوتا۔ اور بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اپنے والدین کےعقیدے کی وجہ سے تکلیف اٹھاتے ہیں۔‘‘
سیاسی مضمرات
آبے کے قتل کی واردات کے جاپان کی حکمران جماعت کے لیے بھی سنجیدہ سیاسی مضمرات سامنے آئے ہیں اور ان کی وجہ اس جماعت کے قانونی تنازعات کے باوجود چرچ کے ساتھ رکھے گئے تعلقات ہیں۔ اس قتل کے بعد سے وزیر اعظم فومیو کشیدا کی مقبولیت میں کمی آئی ہے اور وہ مذہبی گروہوں سے تعلقات رکھنے والے ارکان سے اپنی کابینہ کو پاک کرنے کے لیے اس میں تبدیلیاں لائے ہیں۔ جمعرات 25 اگست کو قومی پولیس ایجنسی کے سربراہ نے آبے کے قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئےاپنا استعفیٰ پیش کر دیا۔
یونیفیکیشن چرچ
یاماگامی، جنہیں نومبر کے اواخر تک ذہنی تشخیص کے لیے حراست میں رکھا جا رہا ہے، اس سے قبل سوشل میڈیا پریونیفیکیشن چرچ کے خلاف نفرت کا اظہار کر چکے ہیں۔ اس چرچ کی بنیاد 1954ء میں جنوبی کوریا میں رکھی گئی تھی اور 1980ءکی دہائی سے اسے پیروکاروں کی بھرتی کے لیے مکروہ طریقے اختیار کرنے اور ان کی برین واشنگ کر کے بھاری عطیات وصول کرنے جیسے الزامات کا سامنا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی طرف سے دیکھے گئے یاماگامی کے ایک خط اور ٹویٹس میں ملزم کا کہنا ہے کہ اس کی ماں کے بھاری عطیات دینےکی وجہ سے چرچ نے اس کے خاندان اور زندگی کو تباہ کر دیا۔ پولیس نے تصدیق کی کہ یاماگامی کے خط کا مسودہ اس کے ایک کمرے کے اپارٹمنٹ سے ضبط کیے گئے کمپیوٹر سے ملا ہے۔
یاماگامی چار سال کا تھا جب اس کے والد نے خودکشی کر لی تھی۔ یہ اس کے بعد ہوا جب یاگامی کی والدہ نے یونیفیکیشن چرچ میں شامل ہونے کے بعد بڑے عطیات دینا شروع کر دیے تھے۔ اس نے خاندان کو دیوالیہ کر دیا اور یاماگامی کی کالج جانے کی امید بھی ٹوٹ گئی۔ بعد میں یاماگامی کے بھائی نےبھی خودکشی کر لی۔ جاپانی بحریہ میں تین سال کی ملازمت کے بعد، یاماگامی حال ہی میں ایک فیکٹری ورکر کے طور پر کام کر رہا تھا۔
یاماگامی کے چچا نے میڈیا انٹرویوز میں کہا کہ یاماگامی کی والدہ نے چرچ میں شمولیت کے چند ماہ کے اندر 60 ملین ین (440,000 ڈالر) عطیہ کیے۔ جب 1990ءکی دہائی کے اواخر میں ان کے والد کا انتقال ہوا تو انہوں نے 2002ء میں 40 ملین ین کی کمپنی کی جائیداد 293,000 ڈالر میں فروخت کی جس سے خاندان دیوالیہ ہو گیا۔‘‘
یاماگامی کے چچاکے مطابق انہوں نے بچوں کو کھانے اور اسکول کے لیے رقم دینا بند کرنا پڑی کیونکہ ان کی ماں یہ رقم اپنے بچوں کو دینے کی بجائے چرچ کو دے دیتی تھی۔
2005ء میں جب یاماگامی نے خودکشی کی کوشش کی تو اس کی والدہ یونیفکیشن چرچ کی جائے پیدائش یعنی جنوبی کوریا میں تھیں لیکن انہوں نے واپس آنا مناسب نہیں سمجھا۔
یاماگامی کی والدہ نے مبینہ طور پر استغاثہ کو بتایا کہ وہ اپنے بیٹے کے مبینہ جرم کی وجہ سے چرچ کو پریشان کرنے پر معذرت خواہ ہیں۔ اس کے چچا نے کہا کہ یاماگامی کی والدہ تباہ حال لگ رہی تھیں لیکن وہ چرچ کی پیروکار ہی رہیں۔
''کھوئی ہوئی نسل ‘‘
یاماگامی کے معاملے کا ایک اوراہم پہلو اس کے جاپانی میڈیا میں ''لاسٹ جنریشن‘‘ کہلائی جانے والی تنظیم کا ایک رکن ہونا ہے۔ ان میں س اکثر کم آمدن والی ٹھیکے کی ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں۔ دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہونے کے باوجود جاپان کو تین دہائیوں سے معاشی بدحالی اور سماجی تفاوت کا سامنا کرنا پڑا ہےاور ان سالوں میں پرورش پانے والے بہت سے لوگ غیر شادی شدہ ہیں اور غیر مستحکم ملازمتیں اور تنہائی اور بے چینی کے احساسات کےساتھ پھنسے ہوئے ہیں۔ حالیہ سالوں کے دوران جاپان میں ہونے والے چند اہم جرائم میں مبینہ طور پر مشکل خاندانی پس منظر اور ملازمت کے مسائل سے دوچار ''کھوئی ہوئی نسل ‘‘ کے ارکان ملوث تھے۔
اشتہار
آبے کے قتل کی تحریک
آبے نے ستمبر 2021ء کےاپنے ایک ویڈیو پیغام میں جزیرہ نما کوریا میں امن کے لیے چرچ کے کام اور خاندانی اقدار پر اس کی توجہ کی تعریف کی تھی۔ نفسیات کی پروفیسر نشیدا نے کہا کہ ان کی ویڈیو نے ممکنہ طور پر یاماگامی کو انہیں قتل کرنے کی تحریک دی۔
یاماگامی نے مبینہ طور پر پولیس کو بتایا کہ اس نے یونیفیکشن چرچ کے بانی کی اہلیہ ہاک جا ہان مون کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا جو 2012ء میں مون کی موت کے بعد سے چرچ کی قیادت کر رہی ہیں، لیکن بعد میں ہدف تبدیل کر دیا کیونکہ اس بات کا امکان نہیں تھا کہ وہ کووڈ کی وبا کے دوران جاپان کا دورہ کریں گی۔
یاماگامی نے اپنے خط میں لکھا کہ آبے یونیفیکیشن چرچ کے سب سے بااثر ہمدردوں میں سے صرف ایک ہیں: ''اگرچہ میں تلخ محسوس کرتا ہوں، آبے میرا حقیقی دشمن نہیں ہے۔ لیکن میں پہلے ہی آبے کی موت کے نتائج اور سیاسی معنی کے بارے میں سوچنے کی ذہنی سطح کھو چکا ہوں۔‘‘
اس معاملے نے 1964ء میں جاپان آنے والے چرچ اور دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان پر تقریباﹰ بلا تعطل حکومت کرنے والی حکمران لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے درمیان تعلقات کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔
ش ر ⁄ اب ا (اے پی)
رواں صدی کے دوران قتل ہونے والی اہم شخصیات
سابق جاپانی وزیر اعظم شینزو آبے جمعے کے روز ایک قاتلانہ حملے کے نتیجے میں دم توڑ گئے۔ اہم شخصیات کے قتل کے واقعات تو بہت ہیں لیکن دیکھیے اس پکچر گیلری میں کہ اکیسویں صدی میں کون کون سی انتہائی اہم شخصیات کو قتل کیا گیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
شینزو آبے، سابق جاپانی وزیر اعظم
سابق جاپانی وزیر اعظم کو آٹھ جولائی سن 2022 کو مغربی جاپانی شہر نارا میں اس وقت گولی مار دی گئی، جب وہ ایک انتخابی اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔ انہیں زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔
تصویر: Kyodo/picture alliance
ڈیوڈ امیس، برطانوی رکن پارلیمان
برطانوی قدامت پسند پارٹی کے رکن پارلیمان ڈیوڈ امیس پندرہ اکتوبر سن 2021 کو ایسیکس کے علاقے کے ایک چرچ میں اپنے حلقے کے لوگوں سے مل رہے تھے کہ ان پر چاقو سے حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہو گئے۔ ان پر حملہ کرنے والا دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے ہمدرری رکھتا تھا۔
ہیٹی کے صدر جووینیل موئز کو سات جولائی 2021 کو قتل کیا گیا تھا۔ پورٹ او پرانس میں موئز کے گھر پر کیے گئے اس حملے میں ان کی اہلیہ بھی زخمی ہو گئی تھیں۔ پولیس نے صدر کے قتل کے شبے میں چالیس سے زائد افراد کو گرفتار کیا تھا، جن میں اعلیٰ پولیس اہلکار اور کولمبیا کے سابق فوجی بھی شامل تھے۔
تصویر: Joseph Odelyn/AP Photo/picture alliance
ادریس دیبی، چاڈ کے صدر
ادریس دیبی بیس اپریل 2021 کو باغیوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے تھے۔ وہ شمالی علاقوں میں باغیوں کے خلاف لڑنے گئے تھے۔ قتل سے کچھ روز قبل ہی وہ ملکی صدارتی انتخابات میں ایک مرتبہ پھر کامیاب ہوئے تھے۔
تصویر: Renaud Masbeye Boybeye/AFP/Getty Images
کم جونگ نم، شمالی کوریائی رہنما کے سوتیلے بھائی
تیرہ فروری سن 2017 کو کوالالمپور کے ہوائی اڈے پر دو خواتین نے کم جونگ نم کے چہرے پر خطرناک زہریلا کیمیائی مادہ پھینک دیا تھا۔ بعد ازاں پولیس نے بتایا کہ کم جونگ نم کو اعصاب کو متاثر کرنے والے ایک کیمیکل وی ایکس سے ہلاک کیا گیا۔ کم جونگ ان اپنے اس سوتیلے بھائی کو اپنے اقتدار کے لیے ممکنہ خطرہ سمجھتے تھے۔ نم مبینہ طور پر امریکی خفیہ اداروں سے رابطے میں تھے۔
تصویر: Reuters/A. Perawongmetha
آندرے کارلوف، روسی سفیر
ترک دارالحکومت انقرہ میں تعینات روسی سفیر آندرے کارلوف کو انیس دسمبر سن 2016 گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ انہیں ہلاک کرنے والا ترک پولیس کا ایک اہلکار تھا، جس نے فائرنگ کے وقت چلا کر کہا تھا کہ شام پر حملے کو بھلایا نہیں جا سکتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/epa/S. Ilnitsky
جو کوکس، برطانوی رکن پارلیمان
برطانوی رکن پارلیمان جو کوکس کو سولہ جون 2016 کو انتہائی دائیں بازو کے ایک شدت پسند نے ہلاک کیا تھا۔ کوکس برسٹل کے ایک گاؤں میں موجود تھیں، جب حملہ آور نے پہلے فائرنگ کی اور پھر چاقو سے حملہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/PA Wire/Y. Mok
سبین محمود، انسانی حقوق کی کارکن
پاکستان میں سبین محمود کو چوبیس اپریل سن 2015 کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ کراچی کی رہائشی سبین انسانی حقوق کی ایک سرگرم اور فعال کارکن تھیں۔ پولیس نے اس قتل کو ٹارگٹ کلنگ قرار دیا تھا۔
تصویر: Twitter
شکیری بلعید، تیونس کے اپوزیشن لیڈر
چھ فروری سن 2013 کو تیونس کے بائیں بازو کے معروف سیاستدان کو ان کے گھر باہر ہی گولیاں ماری گئی تھیں، جس کے نتیجے میں یہ اپوزیشن لیڈر مارے گئے تھے۔ چھ ماہ قبل بائیں بازو کے ایک اور لیڈر محمد براہیمی کو بھی اسی طرح مارا گیا تھا۔ قتل کے ان دونوں واقعات میں کسی کو بھی سزا نہ ہوئی۔
تصویر: picture alliance / abaca
کرس سٹونسن، امریکی سفیر
گیارہ ستمبر سن 2012 کو لیبیا کے بندگارہی شہر بن غازی میں واقع یو ایس کمپاؤنڈ میں جنگجوؤں نے حملہ کرتے ہوئے امریکی سفیر کرس سٹونسن اور تین دیگر امریکیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: dapd
سلمان تاثیر، پاکستانی سیاستدان
پاکستانی صوبہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو چار جنوری سن 2011 کو ان کے اپنے ہی ایک گارڈ نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ میڈٰیا ٹائیکون سلمان تاثیر ملک میں توہین رسالت کے قوانین میں اصلاحات کے حق میں تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
کرنل معمر قذافی، لیبیا کے آمر
لیبیا کے باغیوں نے بیس اکتوبر 2011 کو کرنل معمر قذافی کو بہیمانہ طریقے سے ہلاک کر دیا تھا۔ قبل ازیں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے ان کی حکومت کا تختہ الٹنے میں مقامی اپوزیشن گروپوں کو معاونت فراہم کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/R.Drew
خواؤ برینادرو ویئرا، گنی بساؤ کے صدر
گنی بساؤ کے صدر خواؤ برینادرو ویئرا کو ان کے محل میں انہی کے ایک گارڈ نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس قتل کی واردات سے کچھ دیر قبل ہی اس مغربی افریقی ملک میں ان کے حریف کو بھی قتل کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Lusa De Almeida/dpa/picture-alliance
بے نظیر بھٹو، پاکستان کی سابق وزیر اعظم
بے نظیر بھٹو کو ستائیس دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ لیاقت باغ میں ایک جلسے کے اختتام پر جب وہ اپنی گاڑی میں سوار ہو کر واپس جا رہی تھیں تو انہیں پہلے گولی ماری گئی تھی جبکہ بعد ازاں ایک خود کش بم دھماکہ بھی کیا گیا تھا۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
رفیق الحریری، لبنان کے وزیر اعظم
چودہ فروری سن 2005 کو بیروت میں وزیر اعظم رفیق الحریری پر خود کش حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہو گئے۔ ٹرک کے ذریعے کیے گئے اس حملے میں حریری کے ساتھ اکیس دیگر افراد بھی ہلاک ہو گئے تھے۔ اس دہشت گردانہ کارروائی کے نتیجے میں دو سو چھبیس افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Hamzeh
زوران جنجچ، سربیا کے وزیر اعظم
بارہ مارچ سن 2003 کو سربیا کے وزیر اعظم زوران جنجچ کو دارالحکومت بلغراد میں حکومتی صدر دفاتر کے باہر گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس کیس میں کئی گرفتاریاں بھی ہوئیں اور مقدمے بھی چلے لیکن جنجچ کے قتل کا معمہ حل نہ ہو سکا۔
تصویر: AP
پم فارٹیئن، ڈچ سیاستدان
ڈچ پاپولسٹ سیاستدان پم فارٹیئن کو چھ مارچ سن 2002 کو نیدرلینڈز کے ایک شمالی شہر میں گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔ قتل کا یہ واقعہ اس سال ہونے والے پارلیمانی الیکشن سے ایک دن قبل رونما ہوا تھا۔ جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے کارکن پم اس الیکشن میں حصہ لے رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بریندرا، نیپال کے بادشاہ
نیپال کے بادشاہ بریندرا کو یکم جون سن 2001 کو ان کے اپنے ہی بیٹے نے قتل کر دیا تھا۔ ولی عہد دیپندرا نے شاہی محل میں اپنے گھر والوں کے سامنے ہی فائر کر کے اپنے والد کی جان لے لی تھی۔ فائرنگ کے اس واقعے میں ملکہ ایشوریا اور چھ دیگر افراد بھی مارے گئے تھے۔
تصویر: AP
لاراں کابیلا، کانگو کے صدر
کانگو کے صدر لاراں کابیلا کو ان کے اپنے ہی ایک گارڈ نے صدارتی محل میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ چند ہی لمحے بعد ایک دوسرے سکیورٹی گارڈ نے حملہ آور کو بھی ہلاک کر دیا تھا۔