مبینہ مالیاتی بے ضابطگیوں کی تفتیش، ترکی میں آپریشن
2 اکتوبر 2018
ترک استغاثہ نے احکامات جاری کیے ہیں کہ 417 مشتبہ افراد کو غیر قانونی طریقے سے پیسہ بیرون ملک منتقل کرنے کے الزام میں حراست میں لے لیا جائے۔
اشتہار
نشریاتی ادارے سی این این ترک کے مطابق حکام ڈھائی ارب لیرا یا سات سو انیس ملین ڈالر غیرقانونی طریقے سے ملک سے باہر جانے کی تفتیش کر رہے ہیں۔ حکام کے مطابق منی لانڈرنگ کے ذریعے منتقل کیے گئے اس سرمایے میں سے زیادہ تر کو وصول کرنے والے وہ ایرانی شہری تھے، جو امریکا میں مقیم ہیں۔
اس معاملے میں ملوث افراد کی گرفتاری کے لیے استنبول پولیس نے مختلف ٹیمیں تشکیل دی ہیں، جو ملک کے مختلف علاقوں میں چھاپے مارنے کے علاوہ مختلف املاک کی تلاشی کے کام میں بھی مصروف ہیں۔
ترکی کی سرکاری نیوز ایجنسی انادولو کا کہنا ہے کہ اس مقدمے میں مطلوب افراد میں سے 216 کو ملک کے چالیس صوبوں سے گرفتار کیا جا چکا ہے، جب کہ باقی کی گرفتاری کے لیے آپریشن جاری ہے۔ تاہم ترک میڈیا پر نشر ہونے والی ان اطلاعات کی پولیس، دفتر استغاثہ یا عدالتی ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
استنبول کے چیف پراسیکیوٹر کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق، ’’یہ تفتیش ترک جمہوریہ کی مالیاتی اور اقتصادی سلامتی کو ہدف بنانے والوں کے خلاف جاری ہے۔‘‘
غیر ملکی سرمایے کی منتقلی ترکی میں سیاسی اعتبار سے نہایت حساس موضوع ہے۔ رواں برس ترک کرنسی لیرا کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں چالیس فیصد تک کی کمی دیکھی گئی تھی۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اس تناظر میں ترک شہریوں کو خبردار کیا تھا کہ سرمایہ کاری کے علاوہ کسی بھی دوسری صورت میں بیرون ملک سرمایے کی منتقلی سے باز رہیں۔
ترک لیرا کا بحران ہے کیا؟
ترک کرنسی کی قدر میں کمی ترکی کو قرضوں اور مالی ادائیگیوں کے بحران کی جانب لے جا رہی ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کہ ترک کرنسی اپنے ان بحرانی حالات تک کیسے پہنچی۔
تصویر: picture-alliance/A.Gocher
ایک واضح تصویر
ترکی میں کرنسی کے بحران کے بعد اقتصادی کرب کی کیفیت پیدا ہے۔ ترک لیرا رواں برس کے آغاز سے اب تک اپنی قدر پینتالیس فیصد گنوا چکی ہے۔ اس کرنسی کے بحران سے دنیا کی اٹھارہویں بڑی اقتصادیات مالی بحران کی دہلیز پر ہے اور یہ نزاعی صورت حال دوسری ابھرتی اقتصادیات اور یورپ تک پھیل سکتی ہے۔
تصویر: Getty Images/C. Mc Grath
خسارا پورا کرنے کے لیے سرمایے کی ضرورت
ترکی کو روایتی طور پر روزمرہ کے اخراجات کے تناظر میں خسارے کا سامنا ہے۔ برآمدات و درآمدات کے درمیان پیدا مالی تفریق کو ختم کرنے کے لیے بیرونی قرضوں کا سہارا لیا جاتا رہا ہے۔ سن 2008 میں امریکا اور یورپ میں پائے جانے والے مالی بحران کے بعد سرمایہ کاروں کو بھاری منافع کے لیے ترکی جیسے ممالک کی ضرورت تھی۔
تصویر: AP
ادھاری شرح پیداوار
بین الاقوامی سرمایے کی قوت پر ترکی کے مالی خسارے کو کم کرنے کے علاوہ بھاری حکومتی اخراجات کو جاری رکھنے اور اداروں کو مالی رقوم کی فراہمی کی گئی۔ قرضوں پر انحصار کرتی شرح پیداوار نے ترک اقتصادیات کو قوت فراہم کی اور حکومت کی مقبولیت میں اضافے کے لیے بڑے تعمیراتی منصوبوں کو فروغ دیا گیا۔ کسی بھی مقام پر اس تیز عمل کو قدرے کم رفتار دینے کی ہمت حکومتی ایوانوں سے سامنے نہیں آئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose
ابھرتی اقتصادیات کے تشخص میں کمی
سرمایہ کاروں نے حالیہ کچھ عرصے سے بتدریج ابھرتی اقتصادیات کے حامل ملکوں میں سے اپنے سرمایے کو نکالنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ امریکی اقتصادیات میں زورآور ترقی کے بعد امریکا کے مرکزی بینک نے شرح سود میں اضافہ اور آسان مالیاتی پالیسیوں کو ترک کرنا شروع کر دیا۔ اس بنیادی فیصلے سے امریکی ڈالر کی قدر بلند ہوئی اور دوسری جانب ترک لیرا کی قدر گر گئی، اس نے ترک معاشی افزائشی عمل کو بھی روک دیا۔
تصویر: Getty Images/S. Platt
ایردوآن پر عوامی اعتماد میں کمی
ابھرتی اقتصادیات میں ترک کرنسی لیرا کی قدر میں کمی انتہائی زیادہ ہونے پر عالمی معاشی منظر پر نمایاں بھی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ سرمایہ کاروں کا ایردوآن حکومت میں اقتصادی بدنظمی خیال کی گئی ہے۔ ایسا کہا جا رہا ہے کہ ایردوآن اقتصادی پالیسیوں میں جدت پر یقین نہیں رکھتے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic
ٹرمپ کے ٹویٹ نے ہلچل پیدا کر دی
دس اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترک فولاد اور ایلومینیم پر درآمدی محصولات میں اضافہ کر دیا۔ بظاہر یہ محصولات کم نوعیت کے ہیں لیکن کے اثرات کا حجم بہت وسیع ہے یعنی ایک ارب ڈالر کے قریب ہے۔ اس فیصلے نے ترک اقتصادیات میں دراڑیں ڈال دیں۔ اس کے بعد ٹرمپ نے ٹویٹ کیا کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں ترک لیرا اپنی حیثیت کھو رہا ہے۔
تصویر: Twitter/Trump
دوستی سے دشمنی
امریکی پادری اینڈریو برونسن کی گرفتاری اور جیل میں مقید رکھنے نے ترک امریکی تعلقات کو شدید انداز میں متاثر کیا۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے اتحادیوں کے درمیان اختلاف کی ایک اور وجہ شامی کردوں کی امریکی حمایت بھی ہے۔ دیگر نزاعی معاملات میں انقرہ حکومت کی روس سے میزائل نظام کی خرید اور امریکا کا جلاوطن مبلغ فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے نہ کرنا بھی اہم ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Lemarque
فرد واحد کی حکمرانی
ترک کرنسی لیرا کی قدر میں رواں برس جون کے بعد تیس فیصد کی کمی اور بازارِ حصص میں مالی بحران پیدا ہوا۔ اسی ماہِ جون میں رجب طیب ایردوآن نے مئی کے انتخابات کے بعد انتہائی قوت اور اختیارات کے حامل صدر کا منصب سنبھالا۔ اس مطلق العنانیت نے ترکی کو اپنے یورپی اتحادیوں سے دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/E. Gurel
ترک صدر کا داماد: البیراک
جون میں منصبِ صدارت سنبھالنے کے بعد رجب طیب ایردوآن نے وزارت مالیات کسی ٹیکنو کریٹ کو دینے کے بجائے اپنے داماد بیرات البیراک کوسونپ دی۔ ترک وزارت مالیات کے دائرہٴ کار و اختیارات میں بھی ایردوآن کے حکم پر اضافہ کیا گیا۔ اس فیصلے نے بھی ترک مرکزی بینک کی آزادی کو محدود کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/M. Alkac
’اقتصادی جنگ‘
ترک صدر ایردوآن کے اعتماد میں ملکی کرنسی لیرا کی قدر میں شدید کمی پر بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ انہوں نے اپنی تقاریر میں ترکی کو کمزور کرنے کے اقدامات کو ’اقتصادی جنگ‘ سے تعبیر کیا۔ انٹرنینشل مانیٹری فنڈ سے مدد طلب کرنے یا شرح سود میں اضافہ کرنے جیسے اقدامات کی جگہ وہ زوردار تقاریر پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Sezer
10 تصاویر1 | 10
اپریل میں کاروباری برادری سے خطاب میں ایردوآن کا کہنا تھا، ’’ہم انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے، جو اپنے پیسے میں اضافہ کرنے یا کاروبار کو ترقی دینے کے علاوہ کسی بھی دوسرے مقصد کے لیے پیسے کو اسمگل کرنے میں ملوث ہوئے۔‘‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کا تاہم کہنا ہے کہ فی الحال ایسے اشارے نہیں ملے کہ آیا منی لانڈرنگ سے متعلق جاری تفتیش اور صدر ایردوآن کی جانب سے ترک شہریوں کو اپنا سرمایہ ترکی ہی میں رہنے دینے سے متعلق ہدایات کے درمیان کوئی تعلق ہے۔