متحدہ عرب امارات میں بنگلہ دیشی مظاہرین کو جیل کی سزائیں
23 جولائی 2024
متحدہ عرب امارات کی عدالت نے ان درجنوں بنگلہ دیشی مزدوروں کو قید کی سزا سنائی ہے، جو شیخ حسینہ حکومت کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔ بیشتر افراد کو طویل مدت کی قید کی سزا دی گئی جبکہ تین کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
اشتہار
متحدہ عرب امارات کے سرکاری خبر رساں ادارے وام کے مطابق بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے تین نامعلوم ملزمان کو ''متحدہ عرب امارات کی گلیوں میں فسادات بھڑکانے'' کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی، جب کہ دیگر 53 ملزمین کو 10 برس قید کی اور ایک شخص کو 11 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
ان تمام افراد پر الزام یہ تھا کہ وہ بنگلہ دیش کی شیخ حسینہ حکو مت کے خلاف مظاہرے کے لیے خلیجی ریاست متحدہ عرب امارات (جہاں وہ کام کرتے ہیں) کی سڑکوں پر نکلے تھے۔
اتوار کے روز ہونے والی مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کے مقرر کردہ دفاعی وکیل نے بطور دلیل کہا کہ ان ''اجتماعات کا کوئی مجرمانہ ارادہ نہیں تھا اور ان کے خلاف ثبوت بھی ناکافی'' تھے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس کی مذمت کی اور اس نے متحدہ عرب امارات کی سرزمین پر ''عوامی احتجاج کے محض وجود پر اس کو انتہائی قسم کا ردعمل'' قرار دیا۔
سرکاری نیوز ایجنسی نے کیا کہا؟
وام کے مطابق 57 بنگلہ دیشیوں کے اس مقدمے کی سماعت ہوئی، جس میں انہوں نے ''بنگلہ دیشی حکومت کے فیصلوں کے خلاف احتجاج میں متحدہ عرب امارات کی کئی سڑکوں پر بڑے پیمانے پر مارچ کا اہتمام کیا تھا۔''
اس نے کہا، ''اس کے نتیجے میں فسادات، عوامی سلامتی میں خلل، قانون کے نفاذ میں رکاوٹ، اور سرکاری اور نجی املاک کو خطرہ لاحق ہوا۔ پولیس نے مظاہرین کو متنبہ کیا تھا، انہیں منتشر ہونے کا حکم دیا تھا، جس کی وہ پرواہ نہیں کر رہے تھے۔''
ایجنسی کے مطابق عدالت نے مدعا علیہان کے دفاع کو مسترد کر دیا اور حکم دیا کہ سزا کاٹنے کے بعد انہیں ملک بدر کر دیا جائے۔
بنگلہ دیش کی حکومت کی جانب سے فوری طور پر ان سزاؤں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔ لیکن دبئی میں اس کے قونصل خانے نے اتوار کے روز ہی اپنی ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں شہریوں پر زور دیا کہ وہ مقامی قوانین کا احترام کریں۔
اشتہار
ایمنسٹی کی سخت تنقید
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے متحدہ عرب امارات میں محقق ڈیوین کینی نے کہا کہ اس ماہ متحدہ عرب امارات میں یہ دوسرا اجتماعی نوعیت مقدمہ تھا، جس میں درجنوں افراد کو ''تشدد کا کوئی عنصر شامل نہ ہونے کے الزام میں بھی بڑی سزائیں سنائی گئی ہیں۔''
انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''یہ اماراتی سرزمین پر عوامی احتجاج کے محض وجود پر شدید قسم کا ردعمل ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت ملک میں کسی بھی اختلاف رائے کے اظہار کو دبانے کو ترجیح دیتی ہے۔''
واضح رہے کہ دس جولائی کے روز متحدہ عرب امارات کی ایک عدالت نے انسانی حقوق کے علم برداروں اور ان سیاسی مخالفین کو عمر قید کی سزا سنائی جن پر ''دہشت گرد تنظیم قائم کرنے'' کا الزام تھا۔
انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے جن تنظیم کے لوگوں کو سزا سنائی گئی وہ ایک ''آزاد ایڈوکیسی گروپ'' ہے۔ انسانی حقوق کے اداروں نے اس مقدمے کو ''انصاف کا مذاق'' قرار دیتے ہوئے اس پر سخت تنقید کی۔
متحدہ عرب امارات میں احتجاجی مظاہروں پر پوری طرح سے پابندی عائد ہے، جہاں غیر ملکیوں کی آبادی تقریباً 90 فیصد ہے۔ ملک میں بنگلہ دیشی تارکین وطن تیسرا سب سے بڑا گروپ ہے۔
بنگلہ دیش میں، سرکاری ملازمتوں میں کوٹے کے خلاف طلباء کی قیادت میں مظاہروں کے نتیجے میں ہونے والے تشدد میں 150 سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں اور تقریبا ًایک ہزار کو گرفتار کیا گیا ہے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، نیوز ایجنسیاں)
اسرائیلی اماراتی معاہدہ اور مسلم ممالک کا ردِ عمل
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق متحدہ عرب امارات کی طرح کئی دیگر عرب اور مسلم ممالک اور اسرائیل کے مابین امن معاہدے جلد طے پا سکتے ہیں۔ موجودہ معاہدے پر مسلم ممالک کی جانب سے کیا رد عمل سامنے آیا، جانیے اس پکچر گیلری میں۔
’تاریخی امن معاہدہ‘ اور فلسطینیوں کا ردِ عمل
فلسطینی حکام اور حماس کی جانب سے اس معاہدے کو مسترد کیا گیا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس اور حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے آپسی اختلافات پس پشت ڈال کر ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ فلسطین نے متحدہ عرب امارات سے اپنا سفیر بھی فوری طور پر واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے مطابق جب خطے کے اہم ممالک اسرائیل کے ساتھ معاہدے کر لیں گے تو فلسطینیوں کو بھی آخرکار مذاکرات کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Desouki
متحدہ عرب امارات کا اپنے فیصلے کا دفاع
یو اے ای کے مطابق اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا ان کا فیصلہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے امکانات بڑھائے گا اور یہ فیصلہ مشرق وسطیٰ کے تنازعے میں ’درکار ضروری حقیقت پسندی‘ لاتا ہے۔ اماراتی وزیر خارجہ انور قرقاش کے مطابق شیخ محمد بن زیاد کے جرات مندانہ فیصلے سے فلسطینی زمین کا اسرائیل میں انضمام موخر ہوا جس سے اسرائیل اور فلسطین کو دو ریاستی حل کے لیے مذاکرات کرنے کے لیے مزید وقت مل جائے گا۔
تصویر: Reuters/M. Ngan
ترکی کا امارات سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے پر غور
ترکی نے اماراتی فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔ صدر ایردوآن نے یہ تک کہہ دیا کہ انقرہ اور ابوظہبی کے مابین سفارتی تعلقات ختم کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ ترک وزارت خارجہ نے کہا کہ ایسی ڈیل کرنے پر تاریخ یو اے ای کے ’منافقانہ رویے‘ کو معاف نہیں کرے گی۔ ترکی کے پہلے سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں تاہم حالیہ برسوں کے دوران دونوں ممالک کے مابین کشیدگی بڑھی ہے۔
خطے میں امریکا کے اہم ترین اتحادی ملک سعودی عرب نے ابھی تک اس پیش رفت پر کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا۔ اس خاموشی کی بظاہر وجہ موجودہ صورت حال کے سیاسی پہلوؤں کا جائزہ لینا ہے۔ بااثر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اماراتی رہنما محمد بن زاید النہیان اور امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔
تصویر: picture-alliance/abaca
امن معاہدہ ’احمقانہ حکمت عملی‘ ہے، ایران
ایران نے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کو ’شرمناک اور خطرناک‘ قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اس معاہدے کو متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی احمقانہ حکمت عملی قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس سے خطے میں مزاحمت کا محور کمزور نہیں ہو گا بلکہ اسے تقویت ملے گی۔ خطے میں ایرانی اثر و رسوخ سے لاحق ممکنہ خطرات بھی خلیجی ممالک اور اسرائیل کی قربت کا ایک اہم سبب ہیں۔
عمان نے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کی تائید کی ہے۔ سرکاری نیوز ایجنسی نے عمانی وزارت خارجہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ سلطنت عمان اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے اماراتی فیصلے کی حمایت کرتی ہے۔
تصویر: Israel Prime Ministry Office
بحرین نے بھی خوش آمدید کہا
خلیجی ریاستوں میں سب سے پہلے بحرین نے کھل کر اماراتی فیصلے کی حمایت کی۔ بحرین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے امکانات کو تقویت ملے گی۔ بحرین خود بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات کا حامی رہا ہے اور گزشتہ برس صدر ٹرمپ کے اسرائیل اور فلسطین سے متعلق منصوبے کی فنڈنگ کے لیے کانفرنس کی میزبانی بھی بحرین نے ہی کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Saudi Press Agency
اردن کی ’محتاط حمایت‘
اسرائیل کے پڑوسی ملک اردن کی جانب سے نہ اس معاہدے پر تنقید کی گئی اور نہ ہی بہت زیادہ جوش و خروش دکھایا گیا۔ ملکی وزیر خارجہ ایمن الصفدی کا کہنا ہے کہ امن معاہدے کی افادیت کا انحصار اسرائیلی اقدامات پر ہے۔ اردن نے سن 1994 میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters//Royal Palace/Y. Allan
مصری صدر کی ’معاہدے کے معماروں کو مبارک باد‘
مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی نے ٹوئیٹ کیا، ’’ اس سے مشرق وسطی میں امن لانے میں مدد ملے گی۔ میں نے فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے انضمام کو روکنے کے بارے میں امریکا، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان مشترکہ بیان کو دلچسپی اور تحسین کے ساتھ پڑھا۔ میں اپنے خطے کی خوشحالی اور استحکام کے لیے اس معاہدے کے معماروں کی کاوشوں کی تعریف کرتا ہوں۔“ مصر نے اسرائیل کے ساتھ سن 1979 میں امن معاہدہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Watson
پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک خاموش
پاکستان کی طرف سے ابھی تک کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی سربراہ اگست کے مہینے کے دوران انڈونیشیا کے پاس ہے لیکن اس ملک نے بھی کوئی بیان نہیں دیا۔ بنگلہ دیش، افغانستان، کویت اور دیگر کئی مسلم اکثریتی ممالک پہلے جوبیس گھنٹوں میں خاموش دکھائی دیے۔