متحدہ عرب امارات کے اعلیٰ سکیورٹی عہدیدار کا ایران کا دورہ
5 دسمبر 2021
متحدہ عرب امارات کے قومی سلامتی امور کے اعلیٰ سطحی مشیر شیخ طحنون بن زائد النہیان تہران کے دورے پر ایرانی سکیورٹی حکام کے ساتھ ملاقات کے دوران دوطرفہ تعلقات کے فروغ پر بات چیت کریں گے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایران کے سرکاری میڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے سکیورٹی مشیر شیخ طحنون بن زائد النہیان کل بروز پیر تہران کے دورے پر پہنچ رہے ہیں۔
ایرانی نور نیوز کے مطابق شیخ طحنون کی ایرانی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکریٹری جنرل علی شامخانی اور دیگر اعلیٰ سطحی اہلکاروں سے ملاقات متوقع ہے۔ شامخانی اور شیخ طحنون دوطرفہ تعلقات کو وسعت دینے پر تبادلہ خیال کریں گے۔
ابو ظہبی کے ولی عہد محمد زائد کے بھائی شیخ طحنون کے تہران کے دورے کے بارے میں متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ کی جانب سے ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔
متاثرکُن اور شاندارایرانی ثقافتی مقامات
بہت سے ماہرین تاریخ و آثار قدیمہ ایران کو انسانی تہذیب کا گہوارہ قرار دیتے ہیں۔ ایران کے تاریخی ثقافتی مراکز اس ملک اور خطے کے شاندار ماضی کا احوال بیان کرتے ہیں۔
تصویر: Mohammad Reza Domiri Ganji
تخت جمشید
ہخامنشی شاہی خاندان نے تخت جمشید یا پرسیپولس نامی شہر کی تعمیر 520 قبل از مسیح شروع کی تھی۔ یہ قدیم پارس تہذیب کا مرکز تھا۔ سکندر اعظم یونانی نے ہخامنشی خاندان کی بادشاہت کا خاتمہ اپنی عسکری مہم جوئی کے دوران کیا۔ اس کے کھنڈرات میں محلات، مقبروں، عمارتوں کے ستون اور قدیم نوادرات قابل تعریف و توصیف ہیں۔
تصویر: Mohammad Reza Domiri Ganji
چغا زنبیل
سلطنت ایلام کے بادشاہ انتاشا ناپیرشا نے چغا زنبیل نامی شہر تیرہویں صدی قبل از مسیح میں تعیمر کیا تھا۔ میسوپوٹیمیا کی ریاستوں کے ساتھ جنگ و جدال ہی اس کی تعمیر کی وجہ تھی۔ اس قدیمی شہر کے وسط میں ایران میں واقع قدیم ترین مذہبی عبادت گاہ ہے۔ یہ تاریخ مقام ایرانی صوبے خوزستان میں واقع ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. D. Kley
پاسارگاد
یہ شیراز شہر سے نوے کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ یہ ہخامنشی بادشاہ سائرس اعظم کے دور میں سلطنت کا صدرمقام تھا۔ چھٹی صدی عیسوی اس کے عروج کا زمانہ تھا۔ اس قدیمی شہر میں زیرزمین آب پاشی کا نظام قابل تعریف ہے۔ تصویر میں سائرس سوم کا مقبرہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/imageBroker/S. Auth
سینٹ تادؤس کی خانقاہ
یہ کلیساٴ سیاہ کے طور پر بھی مشہور ہے اور یہ آرمینیائی خانقاہ ہے۔ یہ ایرانی صوبے مغربی آذربائیجان میں واقع ہے۔ آرمینیائی مسیحی کمیونٹی کا خیال ہے کہ یہ یہودہ تادؤس کے نام منصوب کلیسا پہلی بار اڑسٹھ عیسوی میں تعمیر ہوئی تھی۔ ایک زلزلے میں تباہی کے بعد اس کو چودہویں صدی میں دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا۔ آرمینیائی اور ایرانی مسیحی کمیونٹی کے علاوہ کئی اور ممالک کے مسیحی زائرین یہاں آتے ہیں۔
تصویر: Mohammad Reza Domiri Ganji
تبریز کا بازار
ایرانی شہر تبریز مشہور سلک روڈ پر واقع ہے۔ یہ برسوں سے کارباری اہمیت کا حامل رہا ہے۔ تاریخی بازار کے ساتھ ساتھ مذہبی اور تعلیمی مراکز کا شہر بھی تصور کیا جاتا ہے۔ دنیا کا سب سے طویل احاطہ بازار تیرہویں صدی عیسوی کی نشانی ہے۔ تبریز شہر صفوی خاندان کی سلطنت کا دارالحکومت اور اسی دور میں شیعہ اسلام کو فروغ ملا اور سلطنت کا سرکاری مذہب قرار پایا۔
تصویر: picture-alliance/Dumont/T. Schulze
شیخ صفی الدین کا مزار
صفوی دور کے شیخ صفی الدین شاعر اور صوفی بزرگ تھے۔ اُن کا مزار یونیسکو کے عالمی ورثے میں شامل ہے۔اردبیل میں واقع مزار پہلے شیخ صفی الدین کا تربیتی و تعلیمی مرکز تھا۔ اربیل کا شہر صفوی دور حکومت میں ایک متبرک شہر خیال کیا جاتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Design Pics/P. Langer
یزد کا قدیمی شہر
جدید ایران کے تقریباً وسط میں یزد کا شہر واقع ہے۔ یہ صحرا میں ایک نخلستان پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اپنے دور میں یہ زرتشتی مذہب کا مرکز و محور بنا۔ عظیم الشان عبادت خانوں کی وجہ سے بھی یزد شہر مشہور ہے۔ اس شہر کے اندر آبی گزرگاہوں کا نظام جسے قناط ٹکنالوجی کہا جاتا ہےقابل دید تھا۔یہاںونڈ ٹاورز بھی قائم کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/ZB/R. Zimmermann
یزد کا آتش کدہ
زرتشتی مذہب میں آگ انتہائی مقدس و متبرک ہے اور تخلیق کائنات کی اساس خیال کی جاتی ہے۔ یزد کا آتشکدہ مرکزی عبادت خانہ تھا۔ یہ عبادت کے ساتھ ساتھ زائرین اور عقیدت مندوں کی ملاقاتوں اور تبادلہٴ خیال کا ایک مقام بھی تھا۔ زرتشتی دور حکومت دوسری سے ساتویں صدی عیسوی میں اپنے عروج پر تھا۔
تصویر: Mohammad Reza Domiri Ganji
باغ ارم
ارم گارڈن تاریخی فارسی باغات کی ایک متاثر کن مثال ہے جو قرون وسطی میں پہلی بار تعمیر ہوا تھا۔ اونچی دیواروں سے گھرا ہوا،ان میں عام طور پر واٹر چینل اور ایک سمر محل شامل ہوتا ہے۔ فارسی ثقافت کا ایک اہم حصہ،باغات نے زمینی جنت کے تصور کو مجسم بنایا۔ یہ لفظ در حقیقت باغیانے کے لئے قدیم فارسی اصطلاح سے ماخوذ ہے ، "پیرادیدا"۔
تصویر: Mohammad Reza Domiri Ganji
اصفہان کا سی وسہ پل
دریائے ژائندہ پر بنائے گئے گیارہ پلوں میں ایک سی وسہ پل ہے۔ یہ دو منزلہ پل صفوی دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کا سن تعمیر سولہویں صدی ہے۔ اس میں کئی چائے خانے بہت مشہور ہیں۔ اس مقام پر لوگ بڑے شوق و ذوق سے طعام کے لیے جمع ہوتے ہیں۔
تصویر: Mohammad Reza Domiri Ganji
تہران کا گلستان محل
قاجار خاندان کے دور کی یہ نشانی ایرانی دارالحکومت تہران میں موجود ہے۔ اس کے بعض حصے سن 1925 اور 1945 کے درمیان مسمار کر دیے گئے تھے۔ ان مسمار شدہ جگہوں پر نئی عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ آج کل گلستان محل میں قدیمی زیورات، ہتھیاروں اور ظروف کا میوزیم قائم ہے۔
تصویر: picture-alliance/imagebroker/S. Auth
تہران کا مینار آزادی
تہران میں تعمیر کیا گیا فریڈم ٹاور پینتالیس میٹر بلند ہے۔ یہ جدید دور کا ایک شاہکار خیال کیا جاتا ہے۔ اسلامی انقلاب سے قبل یہ یادگارِ شاہ کے نام سے موسوم تھا۔ اسے بادشاہ رضا شاہ نے ایران میں بادشاہت کے ڈھائی ہزار برس مکمل ہونے کے موقع پر تعمیر کروایا تھا۔ اس کا طرز تعمیر ساسانی دور سے ملتا ہے۔
تصویر: Mohammad Reza Domiri Ganji
12 تصاویر1 | 12
روئٹرز کے مطابق شامی وزیر خارجہ فیصل مقداد بھی دو روزہ دورے کے لیے تہران پہنچ چکے ہیں۔
شیخ طحنون کا تہران کا دورہ ایسے وقت ہورہا ہے جب ایک ہفتہ قبل ہی سن 2015 کے ایران جوہری معاہدے کو بحال کرنے، ایران پر امریکی پابندیاں ہٹانے اور تہران کے جوہری پروگرام میں اضافے کو روکنے کے لیے ویانا میں مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے ہیں۔
دریں اثناء فرانسیسی خبر رساں ادارے کی اطلاعات کے مطابق ایران کے چیف جوہری مذاکرات کار علی بغیری بھی شیخ طحنون سے ملاقات کریں گے۔
اسرائیلی اماراتی معاہدہ اور مسلم ممالک کا ردِ عمل
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق متحدہ عرب امارات کی طرح کئی دیگر عرب اور مسلم ممالک اور اسرائیل کے مابین امن معاہدے جلد طے پا سکتے ہیں۔ موجودہ معاہدے پر مسلم ممالک کی جانب سے کیا رد عمل سامنے آیا، جانیے اس پکچر گیلری میں۔
’تاریخی امن معاہدہ‘ اور فلسطینیوں کا ردِ عمل
فلسطینی حکام اور حماس کی جانب سے اس معاہدے کو مسترد کیا گیا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس اور حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے آپسی اختلافات پس پشت ڈال کر ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ فلسطین نے متحدہ عرب امارات سے اپنا سفیر بھی فوری طور پر واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے مطابق جب خطے کے اہم ممالک اسرائیل کے ساتھ معاہدے کر لیں گے تو فلسطینیوں کو بھی آخرکار مذاکرات کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Desouki
متحدہ عرب امارات کا اپنے فیصلے کا دفاع
یو اے ای کے مطابق اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا ان کا فیصلہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے امکانات بڑھائے گا اور یہ فیصلہ مشرق وسطیٰ کے تنازعے میں ’درکار ضروری حقیقت پسندی‘ لاتا ہے۔ اماراتی وزیر خارجہ انور قرقاش کے مطابق شیخ محمد بن زیاد کے جرات مندانہ فیصلے سے فلسطینی زمین کا اسرائیل میں انضمام موخر ہوا جس سے اسرائیل اور فلسطین کو دو ریاستی حل کے لیے مذاکرات کرنے کے لیے مزید وقت مل جائے گا۔
تصویر: Reuters/M. Ngan
ترکی کا امارات سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے پر غور
ترکی نے اماراتی فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔ صدر ایردوآن نے یہ تک کہہ دیا کہ انقرہ اور ابوظہبی کے مابین سفارتی تعلقات ختم کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ ترک وزارت خارجہ نے کہا کہ ایسی ڈیل کرنے پر تاریخ یو اے ای کے ’منافقانہ رویے‘ کو معاف نہیں کرے گی۔ ترکی کے پہلے سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں تاہم حالیہ برسوں کے دوران دونوں ممالک کے مابین کشیدگی بڑھی ہے۔
خطے میں امریکا کے اہم ترین اتحادی ملک سعودی عرب نے ابھی تک اس پیش رفت پر کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا۔ اس خاموشی کی بظاہر وجہ موجودہ صورت حال کے سیاسی پہلوؤں کا جائزہ لینا ہے۔ بااثر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اماراتی رہنما محمد بن زاید النہیان اور امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔
تصویر: picture-alliance/abaca
امن معاہدہ ’احمقانہ حکمت عملی‘ ہے، ایران
ایران نے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کو ’شرمناک اور خطرناک‘ قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اس معاہدے کو متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی احمقانہ حکمت عملی قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس سے خطے میں مزاحمت کا محور کمزور نہیں ہو گا بلکہ اسے تقویت ملے گی۔ خطے میں ایرانی اثر و رسوخ سے لاحق ممکنہ خطرات بھی خلیجی ممالک اور اسرائیل کی قربت کا ایک اہم سبب ہیں۔
عمان نے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کی تائید کی ہے۔ سرکاری نیوز ایجنسی نے عمانی وزارت خارجہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ سلطنت عمان اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے اماراتی فیصلے کی حمایت کرتی ہے۔
تصویر: Israel Prime Ministry Office
بحرین نے بھی خوش آمدید کہا
خلیجی ریاستوں میں سب سے پہلے بحرین نے کھل کر اماراتی فیصلے کی حمایت کی۔ بحرین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے امکانات کو تقویت ملے گی۔ بحرین خود بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات کا حامی رہا ہے اور گزشتہ برس صدر ٹرمپ کے اسرائیل اور فلسطین سے متعلق منصوبے کی فنڈنگ کے لیے کانفرنس کی میزبانی بھی بحرین نے ہی کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Saudi Press Agency
اردن کی ’محتاط حمایت‘
اسرائیل کے پڑوسی ملک اردن کی جانب سے نہ اس معاہدے پر تنقید کی گئی اور نہ ہی بہت زیادہ جوش و خروش دکھایا گیا۔ ملکی وزیر خارجہ ایمن الصفدی کا کہنا ہے کہ امن معاہدے کی افادیت کا انحصار اسرائیلی اقدامات پر ہے۔ اردن نے سن 1994 میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters//Royal Palace/Y. Allan
مصری صدر کی ’معاہدے کے معماروں کو مبارک باد‘
مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی نے ٹوئیٹ کیا، ’’ اس سے مشرق وسطی میں امن لانے میں مدد ملے گی۔ میں نے فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے انضمام کو روکنے کے بارے میں امریکا، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان مشترکہ بیان کو دلچسپی اور تحسین کے ساتھ پڑھا۔ میں اپنے خطے کی خوشحالی اور استحکام کے لیے اس معاہدے کے معماروں کی کاوشوں کی تعریف کرتا ہوں۔“ مصر نے اسرائیل کے ساتھ سن 1979 میں امن معاہدہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Watson
پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک خاموش
پاکستان کی طرف سے ابھی تک کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی سربراہ اگست کے مہینے کے دوران انڈونیشیا کے پاس ہے لیکن اس ملک نے بھی کوئی بیان نہیں دیا۔ بنگلہ دیش، افغانستان، کویت اور دیگر کئی مسلم اکثریتی ممالک پہلے جوبیس گھنٹوں میں خاموش دکھائی دیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Nabil
10 تصاویر1 | 10
علاوہ ازیں متحدہ عرب امارات کے صدر کے سفارتی امور کے مشیر انور گرگاش نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ ان کا ملک ایران کے ساتھ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے محاذ آرائی سے اجتناب کرتے ہوئے سفارت کاری کی پالیسی کے اقدامات کر رہا ہے۔ تاہم متحدہ عرب امارات ایران کے عراق، شام، یمن اور لبنان میں برتاؤ پر گہری تشویش رکھتا ہے۔
رواں برس اپریل میں سعودی عرب نے بھی ایران کے ساتھ براہ راست بات چیت کا آغاز کیا تھا، جو کہ ان دونوں سنّی اور شیعہ حریف مسلم ملکوں کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے عمل کا حصہ تھا۔