متحدہ عرب امارات کے مریخ مشن کی روح رواں، سارہ الامیری
20 جولائی 2020
بارہ برس کی عمر میں اینڈرومیڈا کہکشاں کی تصویر دیکھ کر ایک سحر میں مبتلا ہو جانے والی سارہ الامیری متحدہ عرب امارات کے مریخ کی طرف پہلے خلائی مشن کی سربراہی کر رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
اشتہار
گزشتہ پانچ برسوں میں متحدہ عرب امارات کی جانب سے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں زبردست سرمایہ کاری دیکھنے میں آئی ہے۔ سن 2017ء میں متحدہ عرب امارات نے پہلی مرتبہ وزیر برائے مصنوعی ذہانت کا عہدہ متعارف کرایا تھا۔ اس کا مقصد اس خلیجی ریاست کو دیگر عرب ممالک کے مقابلے میں مشینوں کے ذریعے سیکھنے اور سکھانے کی ٹیکنالوجی میں سبقت دلوانا تھا۔ اسی سال نوجوان اماراتی انجینیئر سارہ الامیری کو خلائی شعبے میں ملکی کوششوں کی قیادت کی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔
الامیری نے برطانوی سائنسی جریدے نیچر سے رواں ماہ بات چیت میں کہا تھا، ''عالمی سطح پر ہم اس دوڑ میں داخل ہونے والا ایک نیا ملک ہیں۔ ظاہر ہے عام شہریوں کے لیے یہ جیسے کسی پاگل پن کی سی بات تھی۔‘‘
الامیری نے ابتدا میں کمپیوٹر انجینیئر کے بہ طور کام کا آغاز کیا تھا، مگر بعد میں وہ اماراتی انسٹیٹیوٹ برائے ایڈوانسڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں منتقل ہو گئیں۔ یہاں انہوں نے امارات کے پہلے سیٹلائٹ کی تیاری پر کام کیا۔ وہ اس پروجیکٹ کو اپنے خواب کی تعبیر قرار دیتی ہیں۔
دبئی میں ایک 'ٹیڈ ٹاک‘ میں 2017ء میں انہوں نے کہا تھا، ''میں 12 برس کی تھی جب میں نے اینڈرومیڈا کہکشاں کی تصویر دیکھی تھی۔ یہ ہماری کہکشاں ملکی وے کی ہم سایہ کہکشاں ہے۔‘‘ اس تصویر کی وجہ سے ہی سارہ میں فلکیات کے شعبے سے متعلق دلچسپی پیدا ہوئی۔
سن 2016ء میں سارہ الامیری کو اماراتی سائنس کونسل کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا اس وقت وہ امل (عربی لفظ برائے امید) نامی مریخ مشن کی ڈپٹی پروجیکٹ مینیجر ہیں۔
ان سائیٹ کے مریخ پر اترنے کے لمحات
ناسا کے خلائی جہاز ان سائیٹ نے چار سو بیاسی ملین کلومیٹر (تین سو ملین میل) کا سفر طے کیا ہے۔ یہ روبوٹ کنٹرول خلائی جہاز مسلسل چھ ماہ تک سفر کرنے کے بعد مریخ کی سطح پر اترنے میں کامیاب ہوا ہے۔
ان سائیٹ خلائی مشن تقریباً ایک بلین امریکی ڈالر کا بین الاقوامی پراجیکٹ ہے۔ اس میں جرمن ساختہ مکینکل دھاتی چادر بھی استعمال کی گئی ہے، جو مریخ کی حدت برداشت کرنے کے قابل ہے۔ فرانس کے ایک سائنسی آلات بنانے والے ادارے کا خصوصی آلہ بھی نصب ہے، جو مریخ کی سطح پر آنے والے زلزلوں کی کیفیات کو ریکارڈ کرے گا۔ اس کے اترنے پر کنٹرول روم کے سائنسدانوں نے انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/NASA/B. Ingalls
پہلی تصویر
تین ٹانگوں والا ان سائٹ مریخ کے حصے’الیسیم پلانیشیا‘ کے مغربی سمت میں اترا ہے۔ اس نے لینڈنگ کے بعد ابتدائی پانچ منٹوں میں پہلی تصویر کنٹرول ٹاور کو روانہ کی تھی۔ تین سو ساٹھ کلوگرام وزن کا یہ خلائی ریسرچ جہاز اگلے دو برسوں تک معلوماتی تصاویر زمین کی جانب روانہ کرتا رہے گا۔
تصویر: picture alliance/Zuma/NASA/JPL
ان سائنٹ مریخ کے اوپر
ان سائیٹ خلائی ریسرچ دو چھوٹے سیٹلائٹس کی مدد سے مریخ کی سطح تک پہنچنے میں کامیاب ہوا ہے۔ ان سیٹلائٹس کے توسط سے ان سائیٹ کی پرواز کے بارے میں معلومات مسلسل زمین تک پہنچتی رہی ہیں۔ اس خلائی مشن نے مریخ پر اترنے کے تقریباً ساڑھے چار منٹ بعد ہی پہلی تصویر زمین کے لیے روانہ کر دی تھی۔ اڑان سے لینڈنگ تک اِسے چھ ماہ عرصہ لگا۔ ناسا کے مریخ کے لیے روانہ کردہ خلائی مشن کی کامیابی کا تناسب چالیس فیصد ہے۔
ان سائیٹ مریخ کی سطح پر بارہ ہزار تین سو کلومیٹر کی رفتار سے پرواز کرتا ہوا اپنی منزل پر پہنچا۔ اترے وقت اس کو بریکوں کے علاوہ پیراشوٹس کی مدد بھی حاصل تھی۔ ان سائیٹ پراجیکٹ کے سربراہ سائنسدان بروس بینرٹ کا کہنا ہے کہ مریخ کی جانب سفر سے کہیں زیادہ مشکل امر لینڈنگ ہوتا ہے۔ سن 1976 کے بعد مریخ پر لینڈنگ کی یہ نویں کامیاب کوشش ہے۔
مریخ کی سطح پر ان سائیٹ نامی خلائی تحقیقی جہاز ایک ہی مقام پر ساکن رہتے ہوئے اگلے دو برس تک اپنا مشن جاری رکھے گا۔ اس مشن میں مریخ کی اندرونی سطح کا مطالعہ بھی شامل ہے۔ سرخ سیارے کے زلزلوں کی کیفیت کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ یہ ریسرچ مشن مریخ پر زندگی کے ممکنہ آثار بارے کوئی معلومات جمع نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters/M. Blake
5 تصاویر1 | 5
سارہ الامیری کہتی ہیں، ''اس مشن کا نام امید اس لیے ہے کیوں کہ ہم اس کے ذریعے سرخ سیارے سے متعلق عالمی معلومات میں اپنا حصہ ڈال سکیں گے۔ ہم بتا سکیں گے کہ ہمارا خطہ فقط تنازعات ہی سے عبارت نہیں بلکہ سائنسی شعبے میں اپنا مثبت حصہ شامل کرنا بھی ہماری پہچان ہے۔‘‘
اس مشن کی وجہ سے اماراتی سماج پر بھی گہرا اثر پڑا ہے۔ سائنسی جریدے نیچر کے مطابق متحدہ عرب امارات میں یوں تو افرادی قوت کا 28 فیصد خواتین پر مشتمل ہے، تاہم اس مشن میں یہ شرح 34 فیصد ہے۔ متحدہ عرب امارات کی سائنس ٹیم کا 80 فیصد خواتین پر مشتمل ہے۔ الامیری کا کہنا ہے کہ اس مشن سے اماراتی نوجوانوں کو سائنس، ٹیکنالوجی اور ریاضی جیسے شعبوں کی جانب مائل کرنے میں مدد ملے گی۔