متنازعہ اروناچل پردیش پر بھارت اور چین میں تلخ کلامی
26 نومبر 2025
چین اور بھارت کی سرحد پر واقع متنازعہ خطہ اروناچل پردیش کے حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان ایک بار پھر سے اس وقت سخت تلخ کلامی کا سلسلہ شروع ہوا، جب شنگھائی ایئر پورٹ پر حکام نے مبینہ طور پر ایک خاتون کے بھارتی پاسپورٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
واضح رہے کہ چین بھارتی ریاست اروناچل پردیش کو زنگنان کہتا ہے اور اسے بھارت کے بجائے اپنا علاقہ قرار دیتا ہے۔
نئی دہلی کا کہنا ہے کہ تازہ واقعے کے حوالے سے اس نے بیجنگ کے ساتھ اپنا سخت احتجاج درج کروایا۔ ادھر چین نے مذکورہ خاتون کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اروناچل پردیش کو تسلیم ہی نہیں کرتا۔
تازہ تنازعہ کس بات پر ہے؟
اروناچل پردیش سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون بھارتی پاسپورٹ پر جاپان کا سفر کر رہی تھیں اور ان کا الزام ہے کہ چین کے شنگھائي ایئر پورٹ پر حکام نے ان کا بھارتی پاسپورٹ یہ کہہ کر تسلیم کرنے سے منع کر دیا کہ یہ تو چین کا علاقہ ہے اور انہیں چینی پاسپورٹ پر سفر کرنا چاہیے۔
دو روز قبل جب پہلی بار سوشل ميڈيا کے ذریعے یہ معاملہ سامنے آیا تو بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا کہ نئی دہلی نے اس معاملے کو چینی حکام کے ساتھ "سختی سے" اٹھایا ہے اور اس بات کا اعادہ کیا کہ اروناچل پردیش بھارت کا "ناقابل تنسیخ" حصہ ہے۔
منگل کے روز بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا، "اروناچل پردیش بھارت کا ایک اٹوٹ اور ناقابل تنسیخ حصہ ہے، اور یہ ایک بذات خود واضح حقیقت ہے۔ چین کی طرف سے کسی قسم کی تردید اس ناقابل تردید حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتی۔"
بھارت عموماً اس طرح کا بیان متنازعہ خطہ کشمیر اور اورناچل پردیش کے حوالے سے اس وقت جاری کرتا ہے، جب اسے ان متنازعہ علاقوں کے بارے میں اپنی پوزیشن کا دفاع کرنا ہوتا ہے۔
اس سے قبل پیر کے روز وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ شنگھائی ایئر پورٹ کے مبینہ واقعے پر حکومت ہند کی طرف سے چینی فریق کو ایک "مضبوط ڈیمارش" جاری کیا گیا ہے۔
چین کا رد عمل
بھارتی بیان سے قبل منگل کے روز ہی چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ نے اس بات کو سختی سے مسترد کیا کہ مذکورہ خاتون کے ساتھ کوئی سخت کارروائی کی گئی، حراست میں لیا گیا یا ہراساں کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا، "ہمیں معلوم ہوا کہ چین کے سرحدی معائنہ کرنے والے حکام نے پوری کارروائی قانون اور ضوابط کے مطابق کی ہے اور متعلقہ شخص کے قانونی حقوق اور مفادات کا مکمل تحفظ کیا ہے۔"
ان کا مزید کہنا تھا، "زنگنان چین کا علاقہ ہے۔ چین نے کبھی بھی نام نہاد اروناچل پردیش کو تسلیم نہیں کیا، جسے غیر قانونی طور پر بھارت نے قائم کیا ہے۔"
واضح رہے کہ خاتون کا دعوی تھا کہ انہیں "21 نومبر 2025 کو شنگھائی ایئر پورٹ پر چین کے امیگریشن حکام نے 18 گھنٹے سے زیادہ کے لیے روکا۔ اور چونکہ میری جائے پیدائش اروناچل پردیش ہے، اس لیے انہوں نے میرے بھارتی پاسپورٹ کو غلط قرار دیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ تو چین کا علاقہ ہے۔
ایک بھارتی نیوز ایجنسی سے بات چیت میں خاتون نے کہا کہ "جب میں نے ان سے سوال کرنے کی کوشش کی اور ان سے پوچھا کہ مسئلہ کیا ہے، تو انہوں نے کہا، 'اروناچل بھارت کا حصہ نہیں ہے' اور مذاق اڑاتے ہوئے ہنسنے لگے اور یہ کہنے لگے کہ 'آپ کو چینی پاسپورٹ کے لیے اپلائی کرنا چاہیے، آپ تو چینی ہیں، آپ بھارتی نہیں ہیں۔"
متنازعہ علاقہ اور کشیدگي
دو برس قبل چین نے اپنے نقشے میں بھارتی ریاست اروناچل پردیش کے 15 مقامات کا نام تبدیل کر کے نئے ناموں کا اعلان کیا تھا۔ چین کا دعویٰ ہے کا اروناچل پردیش اس کا علاقہ تبت کا ہی ایک حصہ ہے اور وہ اس ریاست پر بھارتی قبضے کو غیر قانونی بتاتا ہے۔ تاہم بھارت کا کہنا ہے کہ ارونا چل اس کا اٹوٹ حصہ ہے۔
چین اروناچل پردیش کے 90 ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر اپنا دعویٰ کرتا ہے۔ بھارت نے اس وقت ان ناموں کی تبدیلی کو بھی یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ یہ ''ایک فضول کی مشق ہے‘‘ اور اروناچل پردیش اس کا اٹوٹ حصہ ہے۔
بھارت اور چین کے درمیان شمال مشرقی علاقے سکم سے لے کر مشرقی لداخ تک تقریباً تین ہزار کلو میٹر لمبی سرحد ہے۔ بیشتر علاقے میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول قائم ہے اور دونوں کے درمیان سرحدی تنازعہ بھی دیرینہ ہے۔
ایل اے سی پر تنازعے کی وجہ سے ہی دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین گزشتہ کئی برسوں سے مشرقی لداخ میں کچھ زیادہ ہی کشیدگی پائی جاتی تھی، جس میں متعدد ادوار کی بات چیت کے بعد کچھ کمی آئی ہے۔
سن 2020 کے جون میں رات گئے مشرقی لداخ کی وادی گلوان میں دونوں ممالک کے فوجی دستوں کے مابین شدید جھڑپیں ہوئی تھیں، جن میں بھارت کے کم از کم بیس اور چین کے چار فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔
ادارت: جاوید اختر