متنازعہ خاکے بنانے والے ڈینش کارٹونسٹ کُرٹ ویسٹرگارڈ چل بسے
19 جولائی 2021
ڈنمارک کے متنازعہ ہو جانے والے کارٹونسٹ کُرٹ ویسٹرگارڈ چھیاسی برس کی عمر میں وفات پاگئے ہیں۔ ویسٹرگارڈ کے دو ہزار پانچ میں بنائے گئے پیغمبر اسلام کے متنازعہ خاکوں نے بین الاقوامی سطح پر ایک طوفان کھڑا کر دیا تھا۔
اشتہار
کُرٹ ویسٹرگارڈ کی موت کی ڈینش میڈیا نے انیس جولائی کو ان کے اہل خانہ کے حوالے سے تصدیق کر دی۔ ڈنمارک کے اخبار 'بَیرلِنگسکے‘ نے لکھا ہے کہ ویسٹرگارڈ طویل عرصے سے بیمار تھے۔
ڈینش نشریاتی ادارے ٹی وی ٹو نے بھی اخبار 'ژیلانڈز پوسٹن‘ کے ایک سابق ایڈیٹر اور ویسٹرگارڈ کے دیرینہ دوستوں میں سے ایک کا حوالہ دیتے ہوئے اس کارٹونسٹ کی موت کی تصدیق کر دی۔
2005ء میں بنائے جانے والے متنازعہ خاکے
کُرٹ ویسٹرگارڈ کا نام 2005ء میں بین الاقوامی سطح پر اس وقت شہ سرخیوں کا موضوع بنا تھا، جب ڈینش روزنامے 'ژیلانڈز پوسٹن‘ نے پیغمبر اسلام کے متنازعہ خاکوں کی ایک سیریز شائع کی تھی، جس میں ویسٹرگارڈ کے بنائے ہوئے خاکے بھی شامل تھے۔
ان خاکوں کی اشاعت کے بعد ڈنمارک کے لیے ایک ایسا سیاسی اور سفارتی بحران کھڑا ہو گیا تھا، جو دوسری عالمی جنگ کے بعد کوپن ہیگن کی خارجہ پالیسی کا سب سے بڑا بحران بن گیا تھا۔
ڈنمارک میں نقاب پر پابندی عائد
02:26
مسلم ممالک میں پرتشدد احتجاج
ان خاکوں کی اشاعت کے چار ماہ بعد یہی خاکے کئی مسلم اکثریتی ممالک میں وسیع تر عوامی مظاہروں کی وجہ بن گئے تھے۔ متعدد ممالک میں تو یہ احتجاج پرتشدد اور خونریز بھی ہو گیا تھا۔
ان مظاہروں کے دوران متعدد ملکوں میں ڈنمارک اور ناروے کے سفارت خانوں پر حملے بھی کیے گئے تھے اور ایسی پرتشدد کارروائیوں پر قابو پانے کی کوششوں کے دوران درجنوں انسان مارے بھی گئے تھے۔
یہ خاکے ڈنمارک اور کئی دیگر ممالک کے مابین شدید سفارتی تناؤ کا سبب بھی بنے تھے۔ ان کی اشاعت کے نتیجے میں ہی ڈنمارک اور بہت سی دیگر ریاستوں میں یہ بحث بھی شروع ہو گئی تھی کہ آزادی اظہار رائے اور آزادی مذہب کی حدود کیا ہیں۔
اشتہار
سب سے زیادہ غصہ ویسٹرگارڈ کے خاکوں پر
ڈنینش اخبار 'ژیلانڈز پوسٹن‘ نے کارٹونسٹوں کو جو خاکے بنانے کی دعوت دی تھی، اس کے نتیجے میں بہت سے آرٹسٹوں نے خاکے بنائے تھے۔ لیکن جس طرح ویسٹرگارڈ نے اپنے خاکوں میں پیغمبر اسلام کی شخصیت کو پیش کیا تھا، اس پر مسلم ممالک میں پایا جانے والا غصہ سب سے زیادہ رہا تھا۔
ویسٹرگارڈ بنیادی طور پر ایک ٹیچر تھے، جو 1980ء کی دہائی سے قدامت پسند ڈینش اخبار 'ژیلانڈز پوسٹن‘ کے لیے کام کرتے آ رہے تھے۔
ناکام قاتلانہ حملہ
کُرٹ ویسٹرگارڈ کو اپنے بنائے ہوئے انہی خاکوں کے بہت متنازعہ ہو جانے کے بعد سے اپنی جان کو لاحق خطرات کے باعث مسلسل اپنے باڈی گارڈز کی حفاظت میں رہنا پڑتا تھا۔
سن 2010ء میں ایک 28 سالہ شخص نے ان کے گھر میں داخل ہو کر ان پر ایک کلہاڑے سے حملہ کرنے کی کوشش بھی کی تھی تاہم یہ قاتلانہ حملہ ناکام رہا تھا اور کُرٹ ویسٹرگارڈ بال بال بچ گئے تھے۔
م م / ع ب (ڈی پی اے، اے پی، اے ایف پی)
پیغمبر کا بچپن، مہنگی ترین ایرانی فلم
سات سال کے عرصے میں چالیس ملین ڈالر کی لاگت سے پیغمبر اسلام کے بچپن پر بننے والی ایرانی ہدایتکار مجید مجیدی کی فلم ’محمد‘ کی نمائش جاری ہے۔ اس فلم کو سراہا بھی جا رہا ہے اور ہدفِ تنقید بھی بنایا جا رہا ہے۔
تصویر: mohammadmovie.com
صدیوں پہلے کا عربستان
فلم ’محمد‘ کا دورانیہ 190 منٹ ہے اور اس میں چَودہ سو سال پہلے کا دور دکھایا گیا ہے، جس میں بے آب و گیاہ پہاڑوں پر بکریاں چراتے چرواہوں کے ساتھ ساتھ اپنے روایتی ملبوسات کے ساتھ ریت کے زرد صحراؤں میں اونٹوں کی سواری کرتے عرب بھی نظر آتے ہیں۔ اس فلم کے لیے ایرانی حکومت نے بھی سرمایہ فراہم کیا۔
تصویر: mohammadmovie.com
بچپن سے لڑکپن تک
اس فلم میں مستقبل کے پیغمبر کی پیدائش سے لے کر اُن کے لڑکپن تک کے دور کو دکھایا گیا ہے۔ اس فلم میں اسلامی تاریخ کا وہ واقعہ بھی انتہائی مہارت اور محو کر دینے والی معجزاتی کیفیت کے ساتھ عکس بند کیا گیا ہے، جب مکہ میں ہاتھیوں کے ساتھ حملہ کرنے والے یمنی قبائل پر پرندوں نے کنکریاں پھینک کر حملہ آوروں کے پورے لشکر کو نیست و نابود کر دیا تھا۔
تصویر: mohammadmovie.com
پیغمبرِ اسلام پر یہ پہلی فلم نہیں
پیغمبر اسلام کی زندگی پر ’محمد‘ دوسری اہم پروڈکشن ہے۔ اس سے قبل شامی نژاد امریکی فلم ساز مصطفیٰ عکاد نے 1976ء میں ’محمد، دا میسنجر آف گاڈ‘ نامی فلم بنائی تھی، جو بالخصوص ایرانی شیعہ کمیونٹی میں ایک سپر ہٹ فلم ثابت ہوئی تھی۔ پیغمبر اسلام کی زندگی پر قریب چالیس برس بعد بنائی گئی اس دوسری اہم ترین فلم پر پہلی فلم کے مقابلے میں تقریباﹰ بیس گنا زیادہ خرچ آیا۔
تصویر: mohammadmovie.com
انتہا پسندی کے خلاف پیغام
فلم کے ڈائریکٹر مجیدی کے مطابق اس فلم کو بنانے کا مقصد اسلام کی ان حقیقی تعلیمات کا فروغ ہے، جنہیں انتہا پسندوں نے مسخ کر دیا ہے:’’بدقسمتی سے آج کل اسلامی تعلیمات کو بنیاد پرستانہ نظریات، انتہا پسندی اور تشدد سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ دہشت گرد گروہ دہشت گردی کی بہیمانہ کارروائیاں اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے کر رہے ہیں، جو اصل میں اسلام سے کوئی مطابقت نہیں رکھتیں۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Salemi
فلم کی شوٹنگ ایرانی گاؤں میں
ایرانی دارالحکومت تہران سے ستر کلومیٹر جنوب کی جانب ایک گاؤں اللہ یار میں یہ منظر تیس جون 2013ء کا ہے۔ اس منظر میں فلم ’محمد‘ کا ایک منظر فلمایا جا رہا ہے۔ بہت سے مسلمان حلقوں میں پیغمبر کا چہرہ دکھانے کی ممانعت ہے، اس لیے اس فلم میں بھی کہیں بھی پیغمبر کا چہرہ نہیں دکھایا گیا۔ اس کی بجائے یہ فلم دیگر کرداروں کی زبانی پوری کہانی سناتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Foghani
فلم ’محمد‘ ایرانی پراپیگنڈا؟
تہران میں اُتاری گئی اس تصویر میں موٹر سائیکل سوار فلم ’محمد‘ کے ایک بڑے پوسٹر کے پاس سے گزر رہے ہیں۔ جب کینیڈا کے شہر مونٹریال کے ایک سینما گھر میں اس فلم کی نمائش کی گئی تو سینما کے باہر کوئی پچاس مظاہرین نے اس فلم کے خلاف احتجاج بھی کیا۔ ان مظاہرین نے فلم کے ہدایتکار مجید مجیدی پر الزام عائد کیا کہ وہ اس فلم سے ایرانی پراپیگنڈا کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تصویر: Mehr
ایران میں کامیاب نمائش
اس فلم کی تشہیر کے لیے ایران بھر میں بڑے بڑے پوسٹر آویزاں کیے گئے جبکہ ابتدائی تمام شو ہاؤس فُل رہے۔ بہت سے لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ فلم اُنہیں اپنے ساتھ بہا کر لے گئی۔ اپنے کنبے کے ساتھ اس فلم کو دیکھنے کے لیے سینما پہنچنے والے ایک ایرانی ابوفضل فتحی کے بقول انہیں یہ فلم بہت زیادہ پسند آئی:’’جو لوگ اسلام کو نہیں جانتے میرے خیال میں ان کی ابتدائی تعلیم کے لیے یہ انتہائی اہم ثابت ہو سکتی ہے۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/B. Mehri
جذبات مجروح کرنے کی نیت نہیں تھی
اس فلم کی موسیقی دینے پر معروف بھارتی موسیقار اے آر رحمان آج کل تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اس تنقید پر اپنے رد عمل میں اُنہوں نے اپنے فیس بک پیچ پر ایک خط شائع کیا ہے، جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ انہوں نے اس فلم کی موسیقی ترتیب دینے کا فیصلہ اچھی نیت کے ساتھ کیا تھا اور وہ کسی کے جذبات مجروح نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس فلم کا حصہ بننے پر اس مسلمان بھارتی سپر اسٹار کے خلاف ایک فتویٰ جاری کر دیا گیا تھا۔
تصویر: AP
فلم پر تنقید بھی
شیعہ مسلمان سنی مسلمانوں کے مقابلے میں پیغمبر اسلام کی ذات، ان کی شبیہ اور اسلامی تاریخ کی دیگر اہم مذہبی شخصیات کی عکاسی کے حوالے سے قدرے اعتدال پسندانہ رویہ رکھتے ہیں۔ اس فلم پر تنقید کرتے ہوئے سعودی مفتیٴ اعظم عبدالعزیز الشیخ کا کہنا تھا کہ اس میں اسلام کی اصل تصویر کو مسخ کیا گیا ہے۔