کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد 94 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ مولانا صوفی محمد افغانستان اور پاکستان میں اپنے مذہبی اور سیاسی کردار کے باعث متنازعہ شخصیت سمجھے جاتے تھے۔
اشتہار
مولانا صوفی محمد کے خاندانی ذرائع کے مطابق انہیں آج جمعرات 11 جولائی کو ان کے آبائی ضلع دیر میں دفن کیا گیا۔
صوفی محمد نے ابتدائی تعلیم ضلع صوابی کے پنج پیر نامی علاقے میں ایک دینی مدرسے سے حاصل کی۔ بعد ازاں جماعت اسلامی سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم ہی سے انہوں نے بلدیاتی انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا۔
بعد ازاں اختلافات کی وجہ سے انہوں جماعت اسلامی چھوڑ کر ملاکنڈ ڈویژن میں عدالتی نظام کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم خیال لوگوں کو ساتھ ملا کر شرعی نظام کے نفاذ کے لیے 'تحریک نفاذ شریعت محمدی‘ کے نام سے اپنی ایک تنظیم قائم کی، جس بعد میں کالعدم قرار دے دیا گیا۔
اسی تنظیم کے پلیٹ فارم سے انہوں نے ملاکنڈ ڈویژن میں ایک ماہ تک احتجاجی کیمپ لگا کر مرکزی اور صوبائی حکومتی اداروں کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔ صوبائی حکومت نے اس دوران ان سے معاہدہ کیا اور اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت نے علاقے میں شرعی نظام نافذ کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ تاہم اس کے باوجود صوفی محمد اور ان کے ساتھی مطمئن نہ ہوئے اور انہوں ایک بار پھر احتجاج شروع کیا۔ سن 1994 میں ان کی تنظیم نے پرتشدد کاروائیاں شروع کر دیں جس پر حکومت نے ان کے کئی ساتھیوں کو گرفتار بھی کیا۔
نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکی افواج افغانستان پہنچ گئیں۔ اس دوران افغانستان میں طالبان کی حکومت ختم ہو گئی جس پر مولانا صوفی محمد نے پاکستان سے دس ہزار لوگوں کو ساتھ لے کر افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج کے خلاف 'جہاد‘ شروع کیا۔ تاہم کچھ ہی عرصے بعد جب وہ اپنے ساتھیوں سمیت پاکستان کے کرم ایجنسی کے راستے پاکستان داخل ہو رہے تھے، تو انتظامیہ نے انہیں گرفتار کر لیا۔ وہ ایک عرصے تک خیبر پختونخوا کی مختلف جیلوں میں بند رہے۔
کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے انہیں سن 2008 میں رہا کیا گیا تھا۔ تاہم ان مذاکرات کی ناکامی کے بعد انہیں پھر سے گرفتار کر کے ان کے خلاف دہشت گردی سمیت متعدد مقدمات درج کر دیے گئے تھے۔
اس دوران حکومت نے ان کی تنظیم کو کالعدم قرار دے دیا۔ مولانا صوفی محمد کے خلاف مقدمات میں ان کے خلاف ناکافی ثبوتوں کی بنا پر انہیں سن 2017 میں رہا کردیا گیا تھا۔ صوفی محمد رہائی کے بعد زیادہ تر پشاور کے مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج رہے۔ وہ گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے۔
ان کے اپنے داماد اور کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ فضل اللہ کے ساتھ مبینہ اختلاف کی خبریں بھی سامنے آئی تھیں۔ صوفی محمد کا اس وقت موقف تھا کہ فضل اللہ اسلام کی خدمت نہیں کر رہے۔
حقانی نیٹ ورک کیا ہے؟
حقانی نیٹ ورک ایک افغان جنگجو گروہ ہے، جو افغانستان میں مقامی اور امریکی تحادی افواج کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ افغان حکام اور عالمی برادری اسے افغانستان میں فعال ایک انتہائی خطرناک عسکری گروہ قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک کب بنا؟
عشروں پہلے سوویت یونین کے دستوں کے خلاف لڑنے والے کمانڈر جلال الدین حقانی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔ افغان جنگ کے دوران اسّی کی دہائی میں اس گروہ کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی۔ سن 1995 میں اس نیٹ ورک نے طالبان کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا۔ 1996ء میں طالبان حقانی نیٹ ورک کی مدد سے ہی کابل پر قبضہ کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ سن دو ہزار بارہ میں امریکا نے حقانی نیٹ ورک کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دے دیا تھا۔
تصویر: AP
جلال الدین حقانی اور طالبان
طالبان کی حکومت میں جلال الدین حقانی کو قبائلی امور کا وزیر بنا دیا گیا تھا۔ امریکی اتحادی افواج کی کارروائی یعنی سن دو ہزار ایک تک وہ اسی منصب پر فائز رہے۔ امریکی اتحادی افواج نے سن دو ہزار ایک میں ہی طالبان کی خود ساختہ حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ ملا عمر کے بعد جلال الدین حقانی کو طالبان کا معتبر ترین رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ حقانی کے اسامہ بن لادن سے بھی قریبی تعلقات تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جلال الدین حقانی کی نجی زندگی
سن 1939 میں افغان صوبے پکتیا میں پیدا ہونے والے جلال الدین حقانی نے پاکستان میں قائم دارالعلوم حقانیہ نامی مدرسے سے تعلیم حاصل کی۔ یہ وہی مدرسہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں افغان طالبان کے ساتھ ہمدردی کا عنصر نمایاں ہے۔ جلال الدین حقانی نے دو شادیاں کیں۔ ان کی ایک اہلیہ کا تعلق متحدہ عرب امارات سے بتایا جاتا ہے۔ حقانی کو سنی خلیجی ممالک میں کافی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
یہ نیٹ ورک ہے کہاں؟
حقانی نیٹ ورک کا کمانڈ سینٹر مبینہ طور پر پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ میں قائم ہے۔ امریکی اور افغان حکام کا کہنا ہے کہ اس گروہ کو پاکستانی فوج کی حمایت بھی حاصل ہے اور یہ افغانستان میں سرحد پار کارروائیاں بھی کرتا رہتا ہے۔ تاہم پاکستان یہ الزامات رد کرتا ہے۔ یہ نیٹ ورک افغانستان میں امریکی اور ملکی حکومت کے مفادات کو نشانہ بناتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
سراج الدین حقانی بطور سربراہ
اپنی علالت کے باعث جلال الدین حقانی نے اپنے شدت پسند نیٹ ورک کی قیادت اپنے بیٹے سراج الدین حقانی کو سونپ دی تھی۔ سراج الدین افغان طالبان کا نائب کمانڈر بھی ہے۔ سن دو ہزار پندرہ میں ایسی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ جلال الدین حقانی انتقال کر گئے تھے تاہم طالبان اور حقانی خاندان نے ان خبروں کی تردید کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سراج الدین حقانی کون ہے؟
حقانی نیٹ ورک کے موجودہ کمانڈر سراج الدین حقانی نے اپنا بچپن میران شاہ میں بسر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے پشاور کے نواح میں واقع حقانیہ مدرسہ سے تعلیم حاصل کی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سراج الدین جنگی امور کا ماہر بھی ہے۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ سراج الدین اپنے والد جلال الدین کے مقابلے میں زیادہ انتہا پسندانہ نظریات کا مالک ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انس حقانی بطور قیدی
جلال الدین حقانی کے متعدد بیٹوں میں سے ایک کا نام انس حقانی ہے، جو ان کی متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والی بیوی سے پیدا ہوا تھا۔ انس حقانی اس وقت افغان حکومت کی قید میں ہے اور اسے ایک مقامی عدالت نے سزائے موت سنا رکھی ہے۔ حقانی نیٹ ورک نے خبردار کر رکھا ہے کہ اگر انس کو سنائی گئی سزا پر عمل درآمد کیا گیا، تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/National Directorate of Security
یہ گروہ ہے کتنا بڑا؟
مختلف اندازوں کے مطابق اس گروہ کے جنگجوؤں کی مجموعی تعداد تین تا دس ہزار بنتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس گروہ کی زیادہ فنڈنگ خلیجی ممالک کی طرف سے کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ نیٹ ورک مختلف مجرمانہ کارروائیوں سے بھی اپنے لیے مالی وسائل جمع کرتا ہے، جن میں اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک اور دیگر شدت پسند گروہ
حقانی نیٹ ورک کے افغان طالبان کے ساتھ روابط تو واضح ہیں لیکن یہ جنگجو گروہ مختلف دیگر دہشت گرد گروپوں سے بھی دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔ ان میں القاعدہ نیٹ ورک، تحریک طالبان پاکستان، ازبکستان کی اسلامی تحریک اور پاکستان میں قائم ممنوعہ لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ جلال الدین حقانی کے اسامہ بن لادن سے تعلقات تو تھے ہی لیکن وہ القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری سے بھی روابط رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Ausaf Newspaper
پاکستان سے راوبط
امریکی اور افغان حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی مدد حاصل ہے۔ تاہم پاکستانی حکومت اور فوج دونوں اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ واشنگٹن حکومت کا اصرار ہے کہ پاکستانی حکومت کو ملکی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں قائم اس دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف مؤثر کارروائی کرنا چاہیے۔