1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مجوزہ امریکی افغان معاہدہ خطرات کی زد میں

مقبول ملک2 اکتوبر 2013

سن 2014ء کے بعد بھی القاعدہ کی باقیات کے خلاف جنگ کے لیے افغانستان میں امریکی فوجی موجودگی سے متعلق ممکنہ امریکی افغان معاہدے کو کابل اور واشنگٹن کے مابین پائے جانے والے گہرےاختلاف رائے کا سامنا ہے۔

تصویر: REUTERS

امریکی اور افغان حکومتوں کے درمیان جو مو‌ضوع ابھی تک اختلاف رائے کا سبب بنا ہوا ہے، وہ مستقبل میں افغانستان میں امریکی فوجیوں کے اس ممکنہ استحقاق سے متعلق ہے، جس کے تحت ہندوکش کی اس ریاست میں نیٹو کے فوجی دستوں کے انخلاء کے بعد بھی امریکی حکومت کی خواہش ہے کہ اس کی فوج کو وہاں عسکری کارروائیوں کا حق حاصل ہونا چاہیے۔

کابل سے مو‌صولہ خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق امریکا کی خواہش تھی کہ پہلے ہی سے کافی تاخیر کا شکار ہو جانے والے واشنگٹن کے کابل کے ساتھ اس سکیورٹی معاہدے کو اب زیادہ سے زیادہ رواں مہینے یعنی اکتوبر کے آخر تک طے پا جانا چاہیے۔ اس بارے میں افغان حکومت پر ڈالا جانے والا امریکی دباؤ چند روز پہلے تک ناکام رہا تھا۔ اب افغان صدر حامد کرزئی کے ترجمان ایمل فیضی نے کہا ہے کہ اس سلسلے میں واشنگٹن اور کابل کے مابین مذاکرات کی افغانستان کی طرف سے قیادت صدر کرزئی ذاتی طور پر کر رہے ہیں۔

اس وقت افغانستان متعینہ امریکی فوجیوں کی مجموعی تعداد 57 ہزار کے قریب ہےتصویر: Shah Marai/AFP/Getty Images

اس وقت افغانستان متعینہ امریکی فوجیوں کی مجموعی تعداد 57 ہزار کے قریب ہے۔ امریکا کی خواہش ہے کہ اگلے سال کے آخر تک واشنگٹن ان فوجیوں کے ایک بڑے حصے کو واپس بلا لے۔ لیکن ساتھ ہی امریکا کا فی الحال یہ ارادہ بھی ہے کہ وہ افغانستان میں اپنے چند فوجی اڈے آئندہ بھی اپنے کنٹرول میں رکھے اور 10 ہزار تک فوجیوں پر مشتمل امریکی فوج مستقبل میں بھی افغانستان میں تعینات رہے۔

صدارتی ترجمان ایمل فیضی نے اس بارے میں کابل میں صحافیوں کو بتایا، ’’امریکا چاہتا ہے کہ مستقبل میں بھی افغانستان میں امریکی دستوں کو فوجی آپریشن کر سکنے کی آزادی ہو، وہ رات کے وقت چھاپے مار سکیں اور گھروں کی تلاشی بھی لے سکیں۔‘‘

صدر کرزئی کے ترجمان کے مطابق، ’’امریکا کا دعویٰ ہے کہ افغانستان میں ابھی بھی القاعدہ کے قریب 75 جنگجو فعال ہیں۔ یہ بڑی عجیب بات ہے۔ اس لیے کہ دونوں ملکوں کے مابین سکیورٹی معاہدہ دس سال کے لیے ہو گا اور اس دوران امریکی دستوں کو پورے ملک میں کہیں بھی فوجی آپریشن کر سکنے کا حق دیے جانے کی بات کی جا رہی ہے۔‘‘

واشنگٹن اور کابل کے مابین ابھی تک طے نہ پانے والے اس سکیورٹی معاہدے کو سلامتی سے متعلق دوطرفہ معاہدے یا BSA کا نام دیا جا رہا ہے۔ ایمل فیضی کے بقول فریقین کے درمیان ابھی تک اس بارے میں کوئی اتفاق رائے نہیں ہو سکا کہ دوطرفہ سکیورٹی معاہدے کے تحت افغانستان پر کسی ایسے حملے کی تعریف کیا اور کس طرح کی جا سکتی ہے، جس کا مقصد امریکا کے ہاتھوں افغانستان کی حفاظت ہو۔ اس پس منظر میں صدر کرزئی کے ترجمان نے صحافیوں کے سامنے کھل کر کہہ دیا، ’’امریکی فوجیوں کے لیے پورے ملک میں کہیں بھی ملٹری آپریشن کر سکنے کا یکطرفہ حق ایک ایسی بات ہے، جو افغانوں کے لیے کسی بھی طور قابل قبول نہیں ہے۔‘‘

کابل حکومت کا اب تک یہ موقف بھی رہا ہے کہ امریکا کے ساتھ کسی بھی سکیورٹی معاہدے کے نتیجے میں یہ بھی ممکن ہونا چاہیے کہ امریکی دستے افغان سرحدوں کی نگرانی کا کام بھی کر سکیں۔ امریکا اس پر آمادہ نہیں ہے۔ اس تناظر میں افغان صدر کے ترجمان نے یہ بھی کہا کہ افغانستان کی سلامتی کو خطرہ ان خود کش حملہ آوروں سے بھی ہے، جنہیں افغانستان بھیجا جاتا ہے۔ ان کا اشارہ پاکستان کی طرف تھا۔

اس پس منظر میں ایمل فیضی نے یہ بھی کہا، ’’ہم امریکا کے اسٹریٹیجک پارٹنر ہیں۔ ہمارا بیرونی جارحیت کے خلاف بھی تحفظ کیا جانا چاہیے۔ یہ وہ متنازعہ معاملہ ہے جس پر دونوں کی رائے ایک نہیں ہے اور ہماری رائے میں اس بارے میں امریکا کی طرف سے وضاحت کی ضرورت ہے۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں