’مجھے آسٹرین سیاستدان کے قتل کا حکم ترک خفیہ ادارے نے دیا‘
21 اکتوبر 2020
آسٹرین سیاستدان بیریوان اسلان اب صرف پولیس کی حفاظت میں ہی اپنے گھر سے باہر نکلتی ہیں۔ گزشتہ ماہ گرفتار کیا گیا ایک مشتبہ ملزم اعتراف کر چکا ہے کہ اسے اسلان کو قتل کرنے کا حکم مبینہ طور پر ترک خفیہ ادارے نے دیا تھا۔
اشتہار
بیریوان اسلان نسلی طور پر ایک کرد نژاد خاتون ہیں، جو یورپی ملک آسٹریا کی شہری ہونے کے علاوہ آسٹرین ماحول پسندوں کی سیاسی جماعت گرین پارٹی کی ایک سرکردہ سیاستدان بھی ہیں۔ اسلان ترک حکومت کی ناقد بھی ہیں اور انہیں کئی بار نامعلوم افراد ٹیلی فون پر دھمکیاں بھی دے چکے ہیں۔
بیریوان اسلان کے لیے یہ بھی کوئی نئی بات نہیں کہ ترک قوم پسند جب اپنی احتجاجی ریلیاں نکالتے ہیں، تو ان میں سے کئی نے ایسے پلے کارڈز بھی اٹھائے ہوتے ہیں، جن میں سرخی مائل بھورے رنگ کے بالوں والی ایک خاتون اور اس کے گلے میں پڑے ہوئے پھندے کو دکھایا گیا ہو۔
ایسا کوئی بھی پلے کارڈ دیکھنے والا کوئی بھی شخص جو آسٹریا کی گرین پارٹی کی اس خاتون رہنما کو جانتا ہو، یہ اندازہ آسانی سے لگا سکتا ہے کہ ایسے کسی بھی احتجاجی پلے کارڈ میں بیریوان اسلان ہی کو دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
بیریوان اسلان کون ہیں؟
کرد نسل کی یہ آسٹرین خاتون سیاستدان 1981ء میں ترکی میں پیدا ہوئی تھیں۔ وہ اس وقت ویانا کی صوبائی پارلیمان کی رکن ہیں اور ماضی میں نیشنل کونسل کی رکن بھی رہ چکی ہیں۔ ان دونوں سیاسی عہدوں پر فائز ہونے والی وہ آسٹریا کی پہلی کرد نژاد خاتون شہری ہیں۔
اب لیکن وہ اپنے گھر سے پولیس کے حفاطتی دستے کے بغیر باہر نہیں نکلتیں۔ ان کے گھر کے باہر بھی ہر وقت آسٹرین پولیس کی کوئی نہ کوئی مسلح خاتون اہلکار تعینات رہتی ہے۔
آسٹرین سیاست میں اسلان کی سیاسی سرگرمیوں کا محور گزشتہ چند سال سے تارکین وطن کا آسٹرین معاشرے میں انضمام بھی ہے۔ لیکن اس کے علاوہ وہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی سیاست جماعت اے کے پی اور دائیں بازو کے ترک انتہا پسندوں کی منظم تحریک 'گرے وولفز‘ یا 'سرمئی بھیڑیے‘ کی ترکی سے باہر سرگرمیوں پر بھی نظر رکھتی ہیں۔
آسٹریا کی داخلی انٹیلیجنس کی طرف سے فون کال
بیریوان اسلان کے لیے ان کی معمول کی عوامی زندگی اس وقت کافی حد تک بدل کر رہ گئی، جب چند ہفتے قبل پندرہ ستمبر کو انہیں آسٹریا میں 'تحفظ آئین اور انسداد دہشت گردی کا وفاقی دفتر‘ (BVT) کہلانے والی داخلی انٹیلیجنس سروس کی طرف سے ایک فون کال موصول ہوئی تھی۔
آسٹریا کا حُسن
کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے بعد یورپی ملک آسٹریا نے اپنی سرحدیں ہمسایہ ملکوں کے لیے کھول دی ہیں۔ اب ویانا کی سیاحت اور کوہ ایلپس کے نظارے کرنا ممکن ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Ludwig
الپائن اور قدرتی وسعت
بُرگن لینڈ اور وسیع جھیل کونسٹانس کے درمیان آسٹریا آباد ہے اور اٹھاسی لاکھ افراد اس ملک کے نو صوبوں میں بستے ہیں۔ آسٹریا کے دو تہائی علاقے میں ایلپس کی بلند و بالا چوٹیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ اوپر کی تصویر انتہائی مغربی صوبے فورارل بیرگ کے درے ہوخٹان بیرگ کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Ludwig
دارالحکومت ویانا
سابقہ تاریخی آسٹریائی سلطنت کے دارالحکومت ویانا کا نشان شُؤن برُون محل سے بہتر کوئی اور عمارت نہیں ہو سکتی۔ یہ ہانس بُرگ بادشاہوں کی گرمائی رہائش گاہ تھی۔ یہ محل اب یونیسکو کے عالمی تاریخی ورثے میں شمار کیا جاتا ہے۔ ہر سال سینتیس لاکھ افراد اس محل کو دیکھنے ویانا جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Wrba
زیریں آسٹریا: بیئر گارڈن کا علاقہ
موسم گرما میں ویانا کے شہری سرسبز پہاڑی علاقوں کی جانب جانا پسند کرتے ہیں۔ ان کی ایک پسندیدہ منزل لوئر آسٹریا کا مقام وائن فیئرٹل ہے۔ پہاڑی کے دامن میں خوبصورت سرسبز و شاداب علاقہ شراب کی تیاری کے لیے مشہور ہے۔ اس کا ایک قصبہ گالگین بیرگ وائن بنانے اور پینے والوں کے لیے مرغوب ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Giovannini
بُرگین لینڈ: فطرت سے ہم آہنگ
آسٹریا کا زیریں علاقہ انتہائی کھلا اور میدانی ہے۔ یہ بُرگین لینڈ کہلاتا ہے۔ اس میں جھیل نوئے زیڈل سطح سمندر سے محض ایک سو سترہ میٹر بلند ہے، جو آسٹریا کا سب سے نچلا مقام ہے۔ اس جھیل کو بھی سیاح بہت پسند کرتے ہیں۔ اس میں نیشنل پارک ہے جس کے ماحول کو محفوظ رکھا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Haasmann
آشنا اجنبی
اسٹوریا صوبے کے دارالحکومت گراس کے مرکز میں عصری فنون کی یہ شاندار مگر اجنبی سی عمارت قائم ہے۔ اس عمارت کو پندرہ سو خمیدہ پینلوں سے جوڑ کر مکمل کیا گیا ہے۔ یہ عمارت منقش باروک اسٹائل کی ہے۔ اس کا افتتاح سن 2003میں ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carlile
بالائی آسٹریا کا مقام، ہالشٹٹ
ہالشٹٹ آسٹریا کا ایک ایسا مقام ہے جس کے منظر کو عالمی ورثے میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس منظر کو لاکھوں مرتبہ کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کیا گیا۔ اس مقام پر تین ہزار برس پرانی نمک کی کانیں تھیں۔ ہالشٹٹ کا قصبہ ایک جھیل کے کنارے پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Siepmann
موزارٹ اور موسیقی کا شہر: زالس برگ
مغربی آسٹریا کا اونچا نیچا شہر سالز برگ ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ اسی شہر میں گیٹرائڈ گاسے ہے، یہی شہر نامور موسیقار موزارٹ کی جائے پیدائش بھی ہے۔ پہاڑی چوٹی پر واقع قلعہ ہوہین زالس برگ ایک شاہکار ہے۔ اس مقام سے شہر کا نظارہ قابل دید ہے۔
تصویر: Tourismus Salzburg/G.Breitegger
آسٹریا کا رُوٹ سکسٹی سکس (66)
کوہ ایلپس کے بلند مقام کی جانب جانے والا رُوٹ سکسٹی سکس کہلاتا ہے۔ اس کو سن 1935 میں کھولا گیا تھا۔ یہ اڑتالیس کلو میٹر طویل ہے۔ اس سڑک پر سے گزرتے ہوئے ایلپس کے حسین نظارے دلکش ہیں۔ اس روڈ کا اختتام گراسکلوکنر پر ہوتا ہے۔ یہ آسٹریا کا سب سے بلند مقام ہے، جو سطح سمندر سے 3798 میٹر اونچا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Waldhäusl
فورارل برگ کے کھانے اور ہائکنگ
اس آسٹریائی علاقے کے کھانوں میں بیرگنزوالڈ کا پنیر سب سے لذیذ شے قرار دی جاتی ہے۔ موسم گرما میں بیرگنزوالڈ تک ہائکنگ کر کے پہنچا جا سکتا ہے۔ اس سفر میں پھولوں سے بھرے میدان اور پہاڑی ترائیوں میں کھلے خوش رنگ پھول لاجواب منظر پیش کرتے ہیں۔ سیاح روایتی کھیتی باڑی بھی دیکھ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Jansen
9 تصاویر1 | 9
بی وی ٹی کی طرف سے اسلان کو بتایا گیا کہ اس خفیہ ادارے کے حکام نے ایک ایسے شخص کو حراست میں لیا ہے، جس نے دوران تفتیش اعتراف کیا کہ وہ بیریوان اسلان کو قتل کرنا چاہتا تھا۔ اس مبینہ ملزم نے یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ اسے اسلان کو قتل کرنے کا حکم ترکی کے خفیہ ادارے ایم آئی ٹی (MIT) نے دیا تھا۔
آسٹرین داخلی انٹیلیجنس کے مطابق اس مشتبہ ملزم کا نام فیاض او (Feyyaz Ö) ہے، جو دراصل خود ہی پولیس کے سامنے پیش ہو گیا تھا۔ تب اس مبینہ ملزم نے بتایا تھا، ''میں خود ہی پولیس کے سامنے اس لیے پیش ہوا ہوں، کہ میں اپنی جان بچانا چاہتا ہوں۔‘‘
ملزم نے بتایا تھا کہ اس بیریوان اسلان کے قتل کا حکم تو دیا گیا تھا، لیکن اب اسے خدشہ تھا کہ اگر وہ اسلان کو قتل کر دیتا، تو بعد میں 'ثبوت ختم کرنے کے لیے‘ اسے بھی قتل کر دیا جاتا۔
یہ ملزم بظاہر اتنا باخبر تھا کہ وہ اپنی جان بچانے کے لیے آسٹرین پولیس کے پاس نہیں گیا تھا، بلکہ ویانا میں ٹھیک اسی جگہ اور اس دفتر میں جا کر اسے نے خود کو حکام کے حوالے کیا، جہاں آسٹرین داخلی انٹیلیجنس کی مقامی شاخ کے اہلکار بیٹھتے ہیں۔
شام میں ترک فوجی آپریشن، جرمنی میں کردوں کے احتجاجی مظاہرے
ترکی کی جانب سے شمالی شام میں کرد اکثریتی علاقوں میں کیے جانے والے عسکری آپریشن کے تناظر میں جرمنی میں آباد کرد نسل کے باشندوں کے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
کردوں کے مظاہرے
جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں شام اور عراق کے کرد علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کرد فورسز کے خلاف ترکی کے عسکری آپریشن پر سراپا احتجاج ہیں۔ مظاہرین میں کردوں کی اپنی ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرنے والے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
عفرین میں ترک فوجی آپریشن
ترک فورسز شام کے کرد اکثریتی علاقے عفرین اور اس کے گرد و نواح میں ٹینکوں اور بھاری توپ خانے سے اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ علاقہ شامی کرد ملیشیا وائی پی جی کے قبضے میں ہے، جو ان کرد جنگجوؤں نے امریکی تعاون سے شدت پسند تنظیم داعش کے قبضے سے آزاد کرایا تھا۔
ایردوآن اور میرکل پر تنقید
مظاہرین جرمنی کی جانب سے ترکی کو فروخت کیے جانے والے ہتھیاروں پر بھی تنقید کر رہے ہیں۔ ترک صدر ایردوآن تمام تر بین الاقوامی دباؤ کے باوجود کہہ چکے ہیں کہ وہ شام میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف عسکری آپریشن جاری رکھیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Jensen
بون میں بھی مظاہرے
جرمنی میں کرد باشندوں کی جانب سے شہر بون میں اقوام متحدہ کے ایک مرکزی دفتر کے قریب بھی مظاہرہ کیا گیا۔ یہ مظاہرین ترکی کی جانب سے شامی علاقوں میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف آپریشن کی فوری بندش کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: DW/C. Winter
صدر ایردوآن کا سخت موقف
صدر ایردوآن کا کہنا ہے کہ امریکا کرد فورسز کی امداد بند کرے۔ ترکی امریکی حمایت یافتہ کرد ملیشیا گروپ وائی پی جی کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ انقرہ کا موقف ہے کہ یہ عسکریت پسند کالعدم تنظیم کردستان ورکرز پارٹی ہی کا حصہ ہیں، جو ایک طویل عرصے سے ترکی میں کرد اکثریتی علاقوں کی باقی ماندہ ترکی سے علیحدگی کے لیے مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/B. Ozbilici
کرد فورسز کو امریکی امداد کی بندش کا ترک مطالبہ
ترک حکومت نے امریکا سے کہا ہے کہ وہ کرد ملیشیا گروپوں کو ہتھیاروں کی فراہمی فوری طور پر بند کرے۔ دوسری جانب واشنگٹن حکومت نے ترکی کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ایسی کارروائیوں سے باز رہے، جن سے ترک اور شام میں موجود امریکی فورسز کے درمیان کسی ممکنہ ٹکراؤ کی صورت حال پیدا ہونے کا خطرہ ہو۔
تصویر: Reuters/Presidential Palace/K. Ozer
6 تصاویر1 | 6
اس اطالوی شہری کے مطابق اسے مبینہ طور پر ترک سیکرٹ سروس نے بیریوان اسلان کے قتل کا حکم اس سال موسم بہار میں دیا تھا۔ لیکن اس دوران وہ ٹانگ پر چوٹ لگنے کی وجہ سے زخمی ہو گیا تھا اور پھر کورونا وائرس کی وبا بھی زوروں پر تھی۔
اس کے مطابق، ''ان دو وجوہات کے باعث مجھے انتظار کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ اب لیکن میرا خیال تھا کہ مجھے کسی بھی وقت فون کر کے کہا جائے گا کہ جو کچھ تمہیں کہا گہا تھا، وہ کر گزرو۔‘‘
اشتہار
ترک سیکرٹ سروس کا تربیت یافتہ شخص
فیاض کی عمر 55 سال ہے اور وہ ایک کرد نژاد اطالوی شہری ہے، جو ماضی میں شمالی مقدونیہ میں بھی مقیم رہا ہے۔ شمالی مقدونیہ میں وہ کچھ عرصہ قبل قتل کے ایک پراسرار واقعے میں بھی ملوث رہا تھا۔ اس کے گھر سے ایک ایسے شخص کی لاش ملی تھی، جسے قتل کسی اور جگہ کیا گیا تھا اور شواہد کے مطابق قاتل بھی فیاض نہیں تھا۔
ترک صدر رجب طیب ایردوآن کو مسلم ممالک میں یا تو بے انتہا پسند کیا جاتا ہے یا پھر ان کی شدید مخالفت کی جاتی ہے۔ صدر ایردوآن کے حامیوں اور مخالفین میں مسلم دنیا کے کون سے اہم رہنما پیش پیش ہیں؟
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kamaci
مصری صدر السیسی اور ایردوآن
صدر ایردوآن اور مصری صدر السیسی کے تعلقات مصر میں اخوان المسلمون کی وجہ سے کشیدگی کا شکار ہوئے۔ صدر ایردوآن کے مطابق السیسی فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار میں آئے اس لیے انہیں برسراقتدار رہنے کا حق نہیں۔ دوسری جانب قاہرہ کا کہنا ہے کہ اخوان المسلمون ایک ’دہشت گرد‘ تنظیم ہے اور ایردوآن اس کے حامی ہیں۔ یہ دونوں ممالک لیبیا میں بھی آمنے سامنے ہیں۔
تصویر: Reuters
شیخ خلیفہ بن زید اور ایردوآن
ترک اماراتی تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں اور متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ خلیفہ بن زید النہیان نے بھی ایردوآن کو دوبارہ منتخب ہونے پر مبارک نہیں دی تھی۔ دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی کی کئی وجوہات ہیں جن میں خلیجی تنازعہ اور ’سیاسی اسلام‘ کے معاملے پر اختلافات نمایاں ہیں۔ ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک میڈیا نے متحدہ عرب امارات پر باغیوں کی معاونت اور حمایت کے الزامات عائد کیے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP/Y. Bulbul
سعودی ولی عہد اور ایردوآن
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور ترکی کے مابین اختلاف کی بنیادی وجہ ’مسلم ممالک کی قیادت‘ ہے۔سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان تو ترکی پر یہ الزام بھی عائد کر چکے ہیں کہ انقرہ اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/N. Asfouri
ترکی اور پاکستان
ترکی اور پاکستان کے دوستانہ تعلقات کئی عشروں پر محیط ہیں۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کو اپنا بھائی قرار دیتے ہیں۔ صدر ایردوآن کے شریف خاندان کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں لیکن انہوں نے عمران خان کو بھی خوش آمدید کہا۔ مسئلہ کشمیر پر ترکی نے ہمیشہ پاکستان کی حمایت کی ہے۔
تصویر: Reuters/Presidential Press Office/K. Ozer
صدر بشار الاسد اور صدر ایردوآن
شامی صدر بشار الاسد کا شمار بھی صدر ایردوآن کی شدید مخالفت کرنے والوں میں ہوتا ہے۔ صدر ایردوآن شام میں خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے صدر بشار الاسد کے اقتدار سے الگ کیے جانے کا اپنا مطالبہ دہراتے رہتے ہیں اور ایک تقریر میں تو ایردوآن یہ تک کہہ چکے ہیں کہ وہ ’شام کو آزاد‘ کرائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عراق اور ترکی
ان دونوں ممالک کے مابین تعلقات سن 2016 کے بعد اس وقت زیادہ کشیدہ ہو گئے تھے جب ترک فوجیں عراق کے شمالی حصے میں داخل ہو گئی تھیں۔ عراق نے ترک فوجی کارروائی کو اپنی ریاستی خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
تصویر: Reuters/The Presidency of the Republic of Iraq Office
شیخ تمیم اور ایردوآن
قطر اور خلیجی ممالک کے مابین تنازعے کے دوران ترکی نے قطر کی حمایت کی تھی۔ دونوں ممالک کے مابین دیرینہ اقتصادی اور عسکری تعلقات بھی ہیں۔ اسی وجہ سے قطری امیر پرنس تمیم احمد الثانی صدر ایردوآن کو انتخابات کے بعد مبارک دینے والے پہلے عالمی رہنما تھے۔
تصویر: picture-alliance/C. Oksuz
صدر روحانی اور ایردوآن
ایران اور ترکی کے مابین تعلقات حالیہ برسوں کے دوران مزید مستحکم ہوئے ہیں۔ اگرچہ شامی تنازعے، خاص طور پر صدر اسد کے مستقبل کے حوالے سے ایران اور ترکی کا موقف مختلف ہے، تاہم اس تنازعے کے حل کے لیے بھی یہ دونوں ممالک روس کے ساتھ مل کر کوشاں ہیں۔
تصویر: Atta Kenare/AFP/Getty Images
مراکش اور صدر ایردوآن
مراکش اور ترکی کے مابین بھی قریبی تعلقات ہیں۔ ترکی نے مراکش میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے۔ مراکشی وزیر اعظم سعد الدین العثمانی کی جماعت اور صدر ایردوآن کی سیاسی جماعت کے بھی آپس میں قریبی رابطے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Domingo
لیبیا اور ترکی
طرابلس میں ترک پرچم لہرانے والے یہ مظاہرین ترک صدر کو پسند کرتے ہیں۔ ترکی نے طرابلس حکومت کی مدد کے لیے اپنے فوجی دستے حال ہی میں وہاں تعینات کیے ہیں۔ اس ملک میں مصر اور سعودی عرب ترکی کا اثرو رسوخ کم کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AA/H. Turkia
سوڈان اور ترکی
سوڈان کے سابق صدر عمر حسن البشیر کا شمار ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے پرانے دوستوں میں ہوتا تھا اور اسی وجہ سے دونوں ممالک کے مابین قریب اقتصادی تعلقات بھی تھے۔ البشیر حکومت کے خاتمے کے بعد سے دونوں ملکوں کے مابیں اب پہلے جیسی گرمجوشی نہیں رہی۔
تصویر: picture alliance/abaca/K. Ozer
11 تصاویر1 | 11
اس اطالوی کرد شہری نے آسٹرین حکام کو یہ بھی بتایا تھا کہ وہ ماضی میں ترک سیکرٹ سروس ایم آئی ٹی کے ماہرین سے باقاعدہ تربیت بھی لے چکا ہے۔ ایک مشتبہ ملزم کے طور پر فیاض اس وقت ویانا میں حکام کی تفتیشی حراست میں ہے۔ اس واقعے اور فیاض کو دیے جانے والے بیریوان اسلان کے قتل کے مبینہ حکم کے بارے میں آسٹرین تفتیشی اہلکار کچھ بھی کہنے پر تیار نہیں ہیں۔
اس بارے میں جب ڈی ڈبلیو نے آسٹریا کے وفاقی وزیر داخلہ کارل نیہامر سے رابطہ کیا، تو ان کے دفتر کی طرف بیریوان اسلان کی ذات سے متعلق واقعات کا کوئی براہ راست ذکر کیے بغیر صرف اتنا کہا گیا، ''اگر ترکی اور صدر ایردوآن آسٹریا میں جاسوسی اور ایسی سرگرمیوں کا منظم نیٹ ورک قائم کریں گے، تو اس کے نتائج تو نکلیں گے۔‘‘
ویانا میں آسٹرین وزارت داخلہ نے تاہم یہ بھی کہا کہ یہ ممکنہ نتائج کیا اور کیسے ہوں گے، یہ بات ابھی واضح طور پر اور یقین سے نہیں کہی جا سکتی۔
شٹیفان شوخر (م م / ع ب)
’ترکی میں مارشل لاء‘ عوام راستے میں آ گئے
ترک فوج کے ایک گروپ کی طرف سے ملک کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی خبریں موصول ہو رہی ہیں جبکہ صدر ایردوآن نے نامعلوم مقام سے سی این این ترک نیوز ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ بغاوت کی کوشش ناکام بنا دی جائے گی۔
تصویر: picture alliance/abaca/AA
عوام سڑکوں پر
ترکی میں فوج کے ایک گروہ کی طرف سے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے دوران ہی عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Y. Okur
لوگ ٹینکوں پر چڑھ دوڑے
خبر رساں اداروں کی طرف سے جاری کردہ تصاویر کے مطابق انقرہ میں فوجی بغاوت کے مخالفین عوام نے ٹینکوں پر حملہ کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
عوام میں غصہ
میڈیا رپورٹوں کے مطابق ہفتے کی علی الصبح ہی انقرہ میں فوجی بغاوت کے خلاف لوگوں کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر آ گئی۔
تصویر: picture alliance/abaca/AA
کچھ لوگ خوش بھی
خبر رساں اداروں کے مطابق جہاں لوگ اس فوجی بغاوت کی کوشش کے خلاف ہیں، وہیں کچھ لوگ اس کی حمایت بھی کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/AA
ایردوآن کے حامی مظاہرین
ترک صدر ایردوآن نے موبائل فون سے فیس ٹائم کے ذریعے سی این این ترک نیوز ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فوجی بغاوت کو ناکام بنانے کے لیے عوام کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بغاوت کی یہ کوشش مختصر وقت میں ہی ناکام بنا دی جائے گی۔
تصویر: picture alliance/abaca/AA
کرفیو کا نافذ
ترکی کے سرکاری براڈ کاسٹر کی طرف سے نشر کیے گئے ایک بیان کے مطابق فوج نے ملک کا نظام سنبھال لیا ہے۔ بغاوت کرنے والے فوجی گروہ نے جمعے کی رات ہی اس نشریاتی ادارے کو اپنے قابو میں کر لیا تھا۔
تصویر: picture alliance/ZUMA Press/Saltanat
ٹینک گشت کرتے ہوئے
انقرہ کی سڑکوں پر رات بھر ٹینک گشت کرتے رہے۔
تصویر: Getty Images/D. Karadeniz
جنگی جہاز اڑتے ہوئے
استنبول میں جمعے اور ہفتے کی درمیانی رات جیٹ طیارے نیچی پرواز کرتے رہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/AA
ہیلی کاپٹرز سے نگرانی
بغاوت کرنے والے فوجی گروہ نے کہا ہے کہ ملک میں امن کی خاطر سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ رات کے وقت ایک ہیلی کاپٹر پرواز کرتے ہوئے۔
تصویر: Getty Images/K. Cucel
عالمی برداری کی مذمت
ترکی کی موجودہ صورتحال پر عالمی برداری نے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ امریکا اور یورپی ممالک کا کہنا کہ ترکی کی جمہوری حکومت کا ساتھ دیا جائے گا۔
تصویر: Getty Images/D. Karadeniz
ترک صدر محفوظ ہیں
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ عوام سڑکوں پر نکل کر احتجاج کریں۔ انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ ’فوج کے اندر ایک چھوٹے سے ٹولے‘ کی طرف سے کی گئی یہ بغاوت ناکام بنا دی جائے گی۔