’مجھے خود حیرت ہے‘، 117 سال بیت گئے
4 مارچ 2015میساؤ اوکاوا پانچ مارچ 1898ء کو اوساکا میں ایک درزی کے ہاں پیدا ہوئی تھیں، جو خاص طور پر جاپانی خواتین کا روایتی لباس ’کیمونو‘ سینے کے لیے مشہور تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی ایک سو سترہویں سالگرہ کی مناسبت سے منعقدہ تقریب میں بھی گلابی رنگ کا ایک ’کیمونو‘ پہن رکھا تھا، جس پر چیری کے پھول بنے ہوئے تھے۔ اُن کے بال سنورے ہوئے تھے اور اُن میں بھی گلابی رنگ کا ایک کلپ لگا ہوا تھا۔
میساؤ اوکاوا کو 2013ء میں گنیز ورلڈ ریکارڈ کی جانب سے دنیا کا معمر ترین فرد تسلیم کیا گیا تھا۔ بدھ چار مارچ کو اُن کی 117 ویں سالگرہ سے ایک روز پہلے اوساکا کے ایک سرکاری نمائندے تاکے ہیرو اوگُورا اُن کے لیے ایک بڑا گلدستہ لے کر گئے اور اُنہوں نے اس معمر خاتون سے یہ پوچھا کہ ایک سو سترہ سال کی ہو جانے پر وہ کیسا محسوس کر رہی ہیں۔
نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جواب میں ایک وہیل چیئر پر بیٹھی ہوئی میساؤ اوکاوا نے نظر اٹھا کر اوگُورا کی جانب دیکھا اور کہا کہ اتنی عمر ہو جانے پر وہ ’بہت خوش‘ ہیں لیکن یہ کہ اُنہیں یہ کوئی زیادہ طویل عرصہ نہیں لگ رہا:’’یہ کل ہی کی بات لگتی ہے۔‘‘
یہ پوچھے جانے پر کہ اُن کی اتنی طویل عمر کا راز کیا ہے، اُنہوں نے سکون سے کہا:’’مجھے تو خود یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے۔‘‘
دنیا بھر میں ایک سو سال سے زیادہ کی عمر کے انسانوں کی سب سے زیادہ تعداد جاپان ہی میں بستی ہے۔ ٹوکیو حکومت کے مطابق وہاں آج کل ایسے شہریوں کی تعداد اٹھاون ہزار سے بھی زیادہ ہے، جن کی عمریں سو سال سے تجاوُز کر چکی ہیں۔ ایسے شہریوں کی اَسّی فیصد تعداد خواتین پر مشتمل ہے۔
اوساکا میں میساؤ اوکاوا کے نرسنگ ہوم کا کہنا ہے کہ گزشتہ کچھ مہینوں کے دوران وہ قدرے کمزور ہو گئی ہیں اور اُن کی سماعت بھی متاثر ہوئی ہے تاہم وہ ابھی بھی اچھے طریقے سے کھانا وانا کھاتی ہیں اور اُن کی صحت بھی ٹھیک ہے۔
اوکاوا کی شادی 1919ء میں ہوئی تھی تاہم اُن کا شوہر یُوکیو 1931ء میں انتقال کر گیا۔ میساؤ اوکاوا اور یُوکیو کے ہاں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔ اب اُن کے چار پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں ہیں جبکہ پڑپوتے پڑپوتیوں اور پڑنواسوں پڑنواسیوں کی تعداد چھ ہے۔