1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مجھے شرم آتی ہے، پردہ پوشی کرنے والوں پر‘

25 ستمبر 2018

جرمنی میں کیتھولک چرچ کے سربراہ کارڈینل رائنہارڈ مارکس نے پادریوں کی جانب سے بچوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنائے جانے پر معافی مانگی ہے۔ بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کے واقعات نے دنیا بھر میں کلیسا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel

جرمن کارڈینل مارکس کے بقول، ’’چرچ میں ہم نے ایک طویل عرصے تک آنکھیں چرائے رکھیں، انکار کیا اور پردہ پوشی کی کوشش کی اور ہم نہیں چاہتے تھے کہ یہ واقعات سچ ثابت ہوں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ سات دہائیوں میں جنسی استحصال کے واقعات کے بارے میں سامنے آنے والے جائزے کے نتائج سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے، ’’ابھی بہتری کا عمل ختم نہیں ہوا۔‘‘

تصویر: Imago/blickwinkel

ان کے بقول جنسی استحصال ایک جرم ہے اور جو اس کے ذمہ دار ہیں انہیں سزا ملنا چاہیے۔ اپنے اس بیان میں انہوں نے مزید کہا، ’’تمام غلطیوں اور متاثرین کو پہنچنے والے دکھ پر میں آپ سے معافی کی درخواست کرتا ہوں۔‘‘

یہ بیان انہوں نے منگل کو جرمنی کے کیتھولک بشپس کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔ یہ اجلاس جنسی استحصال کے موضوع پر کرائے جانے والے جائزے کے نتائج سامنے آنے کے بعد خصوصی طور پر بلایا گیا تھا۔

ابھی حال ہی میں جرمن بشپس کانفرنس کے ایماء پر کرائے گئے ایک جائزے سے معلوم ہوا کہ 1946ء سے 2014ء کے درمیان 1670 پاردی جنسی استحصال کے واقعات میں ملوث رہے تھے۔ ان چھ دہائیوں کے دوران مبینہ طور پر متاثر ہونے والے3677 افراد میں سے زیادہ تر تیرہ سال سے کم عمر لڑکے تھے۔

تصویر: picture-alliance/AP/Richmond Times-Dispatch/S. Lumy

مزید یہ کہ ان واقعات کے بارے میں کلیسا میں جو دستاویزات تیار کی گئی تھیں، انہیں یا تو ضائع کردیا گیا تھا یا پھر ان میں رد و بدل کر دیا گیا، جس کی وجہ سے جنسی استحصال کے ان واقعات کی تہہ تک پہنچنے میں شدید مشکلات کا سامنا رہا۔

دنیا کے مختلف ممالک میں پادریوں کی جانب سے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے واقعات منظر عام پر آئے ہیں۔ ان میں امریکا، آئرلینڈ، آسٹریلیا اور پاپائے روم پوپ فرانسس کا آبائی ملک ارجنٹائن بھی شامل ہیں۔

جرمنی میں ہزاروں بچے پادریوں کی ہوس کا شکار 

01:16

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں