روسی اپوزیشن لیڈر الیکسی ناوالنی جیل میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ جیل حکام کی طرف سے انہیں ان کا قرآن نہیں دیا جا رہا۔
اشتہار
روسی اپوزیشن لیڈر اور صدر ولادیمیر پوٹن کے ناقد الیکسی ناوالنی نے کہا ہے کہ وہ جیل حکام کے خلاف مقدمہ دائر کر رہے ہیں کیوں کہ انہیں ان کا قرآن مطالعے کے لیے نہیں دیا جا رہا۔ ان کے مطابق جب وہ ماسکو سے باہر تھے، تو انہوں نے اس کتاب کے تفصیلی مطالعے کا ارادہ کیا تھا۔
نیوز ایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق ناوالنی بھوک ہڑتال پر ہیں کیوں کہ جیل حکام نے انہیں طبی معائنے کی اجازت نہیں دی تھی جبکہ انہیں شدید قسم کی کمر درد اور ٹانگ میں درد کی شکایت ہے۔
لیکن انہوں نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر لکھا ہے کہ وہ جیل حکام کے خلاف جو سب سے پہلا مقدمہ کرنے جا رہے ہیں، اس کا تعلق مسلمانوں کی مقدس کتاب سے ہے۔
ناوالنی کا کہنا تھا،''مسئلہ یہ ہے کہ وہ میرا قرآن نہیں دے رہے اور میں اس سے عاجز آ چکا ہوں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''قید کے دوران قرآن کا تفصیلی مطالعہ میرے کئی مقاصد میں سے ایک مقصد ہے تاکہ میں خود میں بہتری لا سکوں۔‘‘
نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق ناوالنی کو ابھی تک اُن میں سے کسی ایک کتاب تک رسائی نہیں دی گئی، جو وہ ساتھ لائے تھے یا جو انہوں نے گزشتہ ایک ماہ کے دوران خریدی ہیں۔ روسی حکام کے مطابق ہر کتاب کا پہلے جائزہ لیا جانا ضروری ہے کہ آیا وہ 'شدت پسندی‘ کو ہوا تو نہیں دیتی؟ جیل حکام کے مطابق اس عمل کے لیے تین ماہ درکار ہوتے ہیں۔
دوسری جانب ناوالنی کا کہنا ہے، ''میں نے جیل کے سربراہ کے خلاف مقدمے کے لیے ایک مزید درخواست دے دی ہے۔ کتابیں ہی ہمارا سب کچھ ہیں اور اگر مجھے اپنے پڑھنے کے حق کے لیے مقدمہ بھی کرنا پڑا تو میں یہ کروں گا۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا،''مجھے اندازہ ہوا ہے کہ ایک مسیحی کے طور پر پلنے بڑھنے کی وجہ سے قرآن کا مطالعہ ضروری ہے۔ میں روس کے غیر مسلم سیاستدانوں میں سے سب سے زیادہ قرآن کو جاننے والا سیاستدان بننا چاہتا ہوں۔‘‘
چوالیس سالہ ناوالنی روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے سب سے سخت ناقد ہیں۔ انہیں جنوری میں جرمنی سے واپس ماسکو جانے پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔ انہیں اعصابی زہر دیا گیا تھا، جس کے بعد وہ تقریبا پانچ ماہ جرمنی میں علاج کی غرض سے رہے تھے۔ ناوالنی کے مطابق انہیں زہر صدر پوٹن کی ایماء پر دیا گیا تھا جبکہ روسی حکام اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ فروری میں ایک عدالت نے ناوالنی کو ملکی قوانین کی پاسداری نہ کرنے کے الزام میں ڈھائی برس قید کی سزا سنائی تھی۔ ناوالنی ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں کہ انہوں نے ملکی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ ان کے مطابق یہ کارروائیاں ان کو خاموش کروانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔
ا ا / ک م ( اے پی)
بھارت میں قرآن کے انتہائی نادر نسخوں کی نمائش
دہلی کے نیشنل میوزیم میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کے انتہائی نادر نسخوں کی ایک نمائش کا انعقاد کیا گیا تھا جن میں ساتویں صدی عیسوی سے لے کر انیسویں صدی تک کے قرآنی خطاطی کے نمونوں کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔
تصویر: J. Akhtar
حاشیے میں تفسیر عزیزی
اٹھارہویں صدی میں لکھے گئے قرآن کے اس نسخے کے حاشیے میں تفسیر عزیزی کا متن بھی درج ہے۔
تصویر: J. Akhtar
خط بہاری میں لکھا گیا سترہویں صدی کا قرآنی نسخہ
خط بہاری میں تحریر کردہ یہ قرآنی نسخہ 1663ء میں تیار کیا گیا تھا۔ نئی دہلی میں بھارتی نیشنل میوزیم کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر بی آر منی کے مطابق یہ خط صوبہ بہار کی دین ہے اور اسی وجہ سے اس رسم الخط کو یہ نام دیا گیا تھا۔ اپنے منفرد رسم الخط کی وجہ سے عبدالرزاق نامی خطاط کا لکھا ہوا یہ قرآنی نسخہ بہت تاریخی اہمیت کاحامل ہے۔
تصویر: J. Akhtar
انتہائی نایاب خط ثلث
پندرہویں صدی میں تحریر کردہ یہ قرآنی نسخہ خط ثلث میں ہے۔ اس رسم الخط میں تحریر کردہ قرآنی نسخے بہت ہی نایاب ہیں۔ بھارتی نیشنل میوزیم میں موجود یہ نسخہ نامکمل ہے۔
تصویر: J. Akhtar
کئی رنگوں کے امتزاج سے خطاطی کا تاریخی نمونہ
اس تصویر میں خط نسخ میں لکھا گیا ایک نادر قرآنی نسخہ نظر آ رہا ہے۔ اس نسخے کے ابتدائی صفحات خط کوفی خط میں لکھے گئے ہیں۔ یہ نسخہ سرخ، سیاہ، پیلے، سبز اور سنہرے رنگوں میں خطاطی کے شاندار امتزاج کا نمونہ ہے۔
تصویر: J. Akhtar
خطاطی خط نسخ میں لیکن جلد بندی بہت منفرد
انیسویں صدی میں لکھا گیا یہ نسخہ ماضی میں کپورتھلہ کے مہاراجہ کے خزانے کا حصہ تھا۔ خط نسخ میں تحریر شدہ اس نسخے کی جلد بندی میں خوبصورت بیل بوٹوں کا استعمال کیا گیا ہے جن سے یہ دیکھنے میں اور بھی خوبصورت نظر آتا ہے۔
تصویر: J. Akhtar
سترہویں صدی میں حسن ابدال میں لکھا گیا نسخہ
چھوٹی جسامت والا یہ قرآن انتہائی نایاب نسخوں میں سے ایک ہے، جسے عرف عام میں اس کے مٹھی جتنے سائز کی وجہ سے ’مشتی‘ بھی کہتے ہیں۔ 1602ء میں حسن ابدال (موجودہ پاکستان) میں اس نسخے کی تیاری میں بہت ہی باریک کاغذ استعمال کیا گیا ہے، جس پر تیاری کے دوران طلائی پاؤڈر بھی چھڑکا گیا تھا۔ اس نسخے کے پہلے صفحے پر مغل بادشاہ شاہجہاں کی مہر بھی ثبت ہے۔
تصویر: J. Akhtar
پہلے سات پارے چوتھے خلیفہ علی ابن علی طالب کے تحریر کردہ
ساتویں صدی عیسوی کا یہ نسخہ غیر معمولی حد تک قیمتی ہے، جو نئی دہلی کے نیشنل میوزیم میں محفوظ نادر قرآنی نسخوں میں سے قدیم ترین بھی ہے۔ اس کے پہلے صفحے پر درج عبارت کے مطابق اس کے سات پارے خلفائے راشدین میں سے چوتھے خلیفہ علی ابن علی طالب کے تحریر کردہ ہیں۔ یہ نسخہ کبھی گولکنڈہ (دکن) کے حکمران قطب شاہ کے خزانے کا حصہ ہوا کرتا تھا، جسے چمڑے پر خط کوفی میں لکھا گیا ہے۔
تصویر: J. Akhtar
آٹھویں صدی میں خط کوفی میں عراق میں لکھا گیا قرآنی نسخہ
آٹھویں صدی عیسوی میں یہ قرآنی نسخہ عراق میں تیار کیا گیا تھا۔ اسے بہت قدیم رسم الخط قرار دیے جانے والے خط کوفی میں تحریر کیا گیا ہے۔ نئی دہلی میں قومی عجائب گھر کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر منی کے مطابق یہ تمام نایاب قرآنی نسخے نیشنل میوزیم کی ملکیت ہیں، جن کی نمائش رواں ماہ کے آخر یعنی 31 مارچ 2018ء تک جاری رہے گی۔
تصویر: J. Akhtar
مغل بادشاہوں شاہجہان اور اورنگ زیب کی مہروں کے ساتھ
یہ تاریخی نسخہ 1396ء میں ریشمی کاغذ اور سمرقندی سِلک پیپر پر خط ریحان میں تحریر کیا گیا تھا۔ اس کے پہلے صفحے پر مغل بادشاہوں شاہجہاں اور اورنگ زیب کی شاہی مہریں لگی ہوئی ہیں۔
تصویر: J. Akhtar
لفظ ’اللہ‘ ہر بار سونے کے پانی سے لکھا ہوا
انڈین نیشنل میوزیم کے سابق کیوریٹر اور معروف اسکالر ڈاکٹر نسیم اختر کے مطابق ان قرآنی نسخوں میں سے کئی کے صفحات کو ’سونے کے پانی‘ سے تحریر کیا گیا ہے، جب کہ ایک نسخہ ایسا بھی ہے، جس میں بار بار آنے والا لفظ ’اللہ‘ ہر مرتبہ سونے سے لکھا گیا ہے۔ خط نستعلیق میں یہ قرآنی نسخہ انیسویں صدی میں تحریر کیا گیا تھا۔
تصویر: J. Akhtar
ایک کرتے پر مکمل قرآن اور اللہ کے ننانوے نام بھی
اٹھارہویں صدی میں تیار کردہ اس کرتے پر پورا قرآن لکھا گیا ہے، جو ایک غیر معمولی اثاثہ ہے۔ کرتے کے دائیں بازو پر اللہ کے صفاتی نام درج ہیں۔ اس قرآن کی بہت ہی باریک کتابت خط نسخ کی گئی ہے اور اس کرتے پر اللہ کے ننانوے نام خط ریحان میں تحریر کیے گئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ پوری دنیا میں اپنی نوعیت کا بہت ہی منفرد اور واحدکرتا ہے۔