’مجھے آزادی لوٹا دو‘: جرمنی میں لاک ڈاؤن مخالف مظاہرے
26 اپریل 2020
جرمنی میں کورونا لاک ڈاؤن کے دوران عائد پابندیوں کے خلاف برلن اور اشٹٹ گارٹ شہر میں ہزاروں افراد نے مظاہرے کیے۔ حکومت نے کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ملک میں متعدد پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
اشتہار
جرمنی میں عوامی اجتماعات اور مظاہروں پر بھی پابندی عائد ہے۔ تاہم ہفتہ 25 اپریل کو وفاقی جرمن دارالحکومت برلن کے علاوہ اشٹٹ گارٹ شہر میں کورونا وائرس کے باعث عائد کردہ پابندیوں کے خلاف مظاہرے کیے گئے۔
برلن میں ایک ہزار سے زائد افراد اس مظاہرے میں شریک تھے۔ مظاہرین 'مجھے میری زندگی واپس چاہیے‘ اور 'میرے آئینی حقوق کا تحفظ کیا جائے‘ جیسے نعرے لگا رہے تھے۔ اس مظاہرے میں شامل افراد نے ایک اخبار بھی تقسیم کیا۔ اس اخبار میں کورونا وائرس کی وجہ سے عائد کردہ حکومتی پابندیوں پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔ ایسے دعوے بھی کیے گئے کہ حکومت کورونا وائرس کی آڑ میں خوف پھیلا کر لوگوں پر اپنی گرفت بڑھا رہی ہے۔
پولیس کے ترجمان تھیلو کابلٹز نے بتایا کہ حکام نے مظاہرین کو اخبار تقسیم کرنے کی اجازت دی تھی، لیکن مظاہرہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ انہوں نے کہا، ''کورونا وائرس کی وبا کے دنوں میں مرض کا پھیلاؤ روکنے سے متعلق قوانین کے تحت ایسے مظاہروں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘‘
لاک ڈاؤن میں نرمی: جرمنی میں زندگی کی واپسی
جرمنی کورونا وائرس کی وبا سے نمٹتے ہوئے اب دوسرے مرحلے کی طرف رواں ہے۔ کچھ دکانوں، اسکولوں اور اداروں کو کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ تاہم ہر ریاست یہ فیصلہ خود کر رہی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Gebert
جرمن شہری آزادی کی طرف لوٹ رہے ہیں
ایک ماہ مکمل لاک ڈاؤن کے بعد جرمن شہری آزادی کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ جرمنی کی زیادہ تر ریاستوں میں بیس اپریل سے آٹھ سو سکوائر فٹ تک کے رقبے والی دکانوں کو کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ لیکن اب بھی برلن جیسی ریاستوں میں دکانوں کو کھولنے کی اجازت دینے میں تاخیر کی جارہی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Gebert
ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں دکانیں کھل گئی ہیں
جرمنی کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں دکانیں کھل گئی ہیں۔ بون شہر میں شہری اس پیش رفت سے کافی خوش دکھائی دیے۔
تصویر: Getty Images/A. Rentz
سائیکل اور گاڑیوں کی دکانوں کو گاہکوں کے لیے کھول دیا گیا
جرمنی بھر میں سائیکل اور گاڑیوں کی دکانوں کو گاہکوں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ چاہے یہ دکانیں آٹھ سو سکوائر فٹ سے زیادہ رقبے ہی کیوں نہ ہوں۔
تصویر: Getty Images/L. Baron
دکان دار بھی اس لاک ڈاؤن میں نرمی سے کافی خوش
دکان دار بھی اس لاک ڈاؤن میں نرمی سے کافی خوش دکھائی دیے۔ کچھ دکانوں پر سیل لگائی گئی تاکہ زیادہ سے زیادہ گاہکوں کی توجہ حاصل کر سکیں۔ تاہم زیادہ تر اسٹورز پر یہ نوٹس لگائے گئے ہیں کہ ایک یا دو سے زیادہ گاہک ایک وقت میں دکان کے اندر نہ آئیں۔
تصویر: Getty Images/AFPT. Keinzle
اسکول بھی کھول دیے گئے
اکثر اسکول بھی کھول دیے گئے ہیں۔ برلن، برانڈنبرگ اور سیکسنی میں سیکنڈری اسکول کے طلبا کو امتحان کی تیاری کے لیے اسکول آنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اکثر ریاستوں میں چار مئی جبکہ باویریا میں گیارہ مئی سے اسکول کھول دیے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Michael
چڑیا گھروں کو کھولا جا رہا ہے
چڑیا گھروں اور سفاری پارک بھی لاک ڈاؤن کے دوران بند تھے۔ اب کچھ شہروں میں چڑیا گھروں کو کھولا جا رہا ہے۔ عجائب گھروں کو بھی دھیرے دھیرے کھولنے کے منصوبے بنائے گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/L. Kuegeler
چہرے کا ماسک
کچھ لوگ اپنی مرضی سے چہرے کا ماسک پہن کر باہر نکل رہے ہیں۔ اس حوالے سے کوئی سرکاری فیصلہ نہیں لیا گیا ہے۔ تاہم لوگوں کو تجویز دی گئی ہے کہ وہ دکانوں کے اندر، بسوں اور ٹرینوں میں سفر کے دوران ماسک پہنیں۔ کچھ ریاستوں میں جرمن شہریوں کو پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے سفر اور دکانوں میں خریداری کے دوران ماسک پہنا ہوگا۔
تصویر: Reuters/W. Rattay
ایک دوسرے سے فاصلہ
اب بھی حکومت ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے پر زور دے رہی ہے۔ جرمن حکام کے مطابق شہری ایک دوسرے سے ڈیڑھ میٹر کا فاصلہ رکھیں۔
تصویر: Getty Images/L. Baron
8 تصاویر1 | 8
پولیس نے سڑکیں بلاک کر کے مظاہرین کو ایک جگہ جمع ہونے سے روکا اور میگا فون کی مدد سے انہیں منتشر ہو جانے کی ہدایات کیں۔ احکامات پر عمل نہ کرنے والے سو سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔
مظاہرے کون لوگ کر رہے ہیں؟
برلن میں اس نوعیت کا یہ چوتھا مظاہرہ تھا۔ زیادہ تر مظاہروں کا اہتمام دائیں بازو کے عوامیت پسند گروہوں نے کیا۔ مظاہروں میں سازشی نظریات پھیلانے کے باعث شہرت حاصل کرنے والے کئی نمایاں افراد بھی شریک ہوئے۔
ایسے افراد میں مشائیل بالویگ بھی شامل ہیں، جنہوں نے اشٹٹ گارٹ میں مظاہرے کا اہتمام کیا تھا۔ بالویگ کا کہنا تھا کہ مظاہرے کا مقصد عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا ہے جس میں اجتماع اور مذہبی آزادی شامل ہیں۔
حالات مشکل ہیں تو کیا ہوا؟ ڈی ڈبلیو آپ کے ساتھ ہے
02:19
اشٹٹ گارڈ میں عدالت نے پہلے مظاہرے پر پابندی عائد کی تھی تاہم بعد میں عدالت نے اجازت دینے کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس مظاہرے میں قریب پانچ سو افراد شریک ہوئے۔
جرمنی میں روزمرہ زندگی بحال ہوتی ہوئی
جرمنی میں کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد سماجی فاصلہ یقینی بنانے کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے تھے۔ کاروباری مراکز اور تعلیمی ادارے بند کیے گئے تھے۔ زیادہ تر شہروں میں دکانیں اور اسکول کھولے جا چکے ہیں اور زندگی کسی حد تک معمول کی جانب لوٹ رہی ہے۔
حکومت اور شہریوں کی اکثریت روزمرہ معمولات کی جانب لوٹنے میں بھی احتیاط سے کام لے رہی ہے۔ ملک بھر میں پیر 27 اپریل کے روز سے عوامی مقامات، دفاتر، پبلک ٹرانسپورٹ اور شاپنگ سینٹرز میں جاتے وقت ماسک پہننا لازمی ہو گا۔
بڑے اجتماعات پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی، جو ابھی تک برقرار ہے۔
کورونا وائرس اور ممکنہ سات ماحولیاتی تبدیلیاں
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد لاک ڈاؤن کی صورت حال نے انسانی معاشرت پر اہم اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ وبا زمین کے ماحول پر بھی انمٹ نقوش ثبت کر سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/I. Aditya
ہوا کی کوالٹی بہتر ہو گئی
دنیا میں کورونا وائرس کے پھیلنے سے صنعتی سرگرمیاں معطل ہو کر رہ گئی ہیں۔ کارخانوں کی چمنیوں سے ماحول کو آلودہ کرنے والے دھوئیں کے اخراج میں وقفہ پیدا ہو چکا ہے۔ نائٹروجن آکسائیڈ کا اخراج بھی کم ہو چکا ہے۔ اس باعث ہوا کی کوالٹی بہت بہتر ہو گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/I. Aditya
کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کم
کووِڈ انیس کی وبا نے اقتصادی معمولات میں بندش پیدا کر رکھی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں بھی شدید کمی واقع ہو چکی ہے۔ صرف چین میں اس گیس کے اخراج میں پچیس فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی عارضی ہے۔
وائرس کی وبا نے انسانوں کو گھروں میں محدود کر رکھا ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایسے میں شہروں کے قریب رہنے والی جنگلی حیات کے مزے ہو گئے ہیں۔ سڑکوں کے کنارے اور پارکس میں مختلف قسم کے پرندے اور زمین کے اندر رہنے جانور اطمینان کے ساتھ پھرتے نظر آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/R. Bernhardt
جنگلی حیات کی تجارت کا معاملہ
ماحول پسندوں نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ کووِڈ انیس کی وبا کے پھیلنے سے جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کو روکنے کے لیے اقوام سنجیدگی دکھائیں گے۔ قوی امکان ہے کہ کورونا وائرس کی وبا چینی شہر ووہان سے کسے جنگلی جانور کی فروخت سے پھیلی تھی۔ ایسی تجارت کرنے والوں کے خلاف اجتماعی کریک ڈاؤن بہت مثبت ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Lalit
آبی گزر گاہیں بھی شفاف ہو گئیں
اٹلی میں کورونا وائرس پھیلنے کے بعد کیے گئے لاک ڈاؤن کے چند روز بعد ہی وینس کی آبی گزرگاہیں صاف دکھائی دینے لگی ہیں۔ ان شہری نہروں میں صاف نیلے پانی کو دیکھنا مقامی لوگوں کا خواب بن گیا تھا جو اس وبا نے پورا کر دیا۔ اسی طرح پہاڑی ندیاں بھی صاف پانی کی گزرگاہیں بن چکی ہیں۔
تصویر: Reuterts/M. Silvestri
پلاسٹک کے استعمال میں اضافہ
کورونا وائرس کی وبا کا ماحول پر جو شدید منفی اثر مرتب ہوا ہے وہ ڈسپوزایبل پلاسٹک یعنی صرف ایک بار استعمال کی جانے والی پلاسٹک کی اشیاء کے استعمال میں اضافہ ہے۔ کلینیکس اور ہسپتالوں میں استعمال ہونے والے پلاسٹک کے ڈسپوزایبل دستانے اب شاپنگ مارکیٹوں میں بھی استعمال ہونے لگے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/P.Pleul
ماحولیاتی بحران نظرانداز
کووِڈ انیس کی وبا کے تیزی سے پھیلنے پر حکومتوں نے ہنگامی حالات کے پیش نظر ماحولیاتی آلودگی کے بحران کو پسِ پُشت ڈال دیا تھا۔ ماحول پسندوں نے واضح کیا ہے کہ وائرس کی وجہ سے ماحولیاتی مسائل کو نظرانداز کرنا مناسب نہیں اور اہم فیصلوں کے نفاذ میں تاخیر بھی زمین کے مکینوں کے لیے نقصان دہ ہو گی۔ یہ امر اہم ہے کہ اقوام متحدہ کی کلائمیٹ کانفرنس پہلے ہی اگلے برس تک ملتوی ہو چکی ہے۔