پاکستان کی فوج نے تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان کے اعترافی بیان کی ویڈیو جاری کر دی ہے، جس میں اس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے اور اس کے ساتھیوں کے ’بھارتی خفیہ ایجنسی کے ساتھ روابط‘ تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/H. Muslim
اشتہار
اس اعترافی ویڈیو میں لیاقت علی، جسے احسان اللہ احسان کے نام سے جانا جاتا ہے، بتاتا ہے،’’میں ٹی ٹی پی مہمند، ٹی ٹی پی سینٹرل ڈویژن اور جماعت الاحرار کا ترجمان رہ چکا ہوں۔ بحیثیت ترجمان میں نے نو سالوں میں تحریک طالبان پاکستان میں بہت کچھ ہوتے دیکھا ہے۔ انہوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ، خصوصی طور پر نوجوانوں کو اسلام کے نام پر اس تنظیم کا حصہ بننے پر آمادہ کیا۔‘‘ اس ویڈیو میں وہ مزید کہتا ہے،’’تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کو بھارت اور افغانستان کی مدد حاصل تھی۔ قیادت نے ٹی ٹی پی کے سپاہیوں کو پاکستان کی فوج کے ساتھ لڑائی کرنے کے لیے جنگی محاذوں پر بھیجا اور خود محفوظ مقامات پر چھپ گئے۔‘‘
اس ویڈیو میں لیاقت علی کہتا ہے کہ ایک خاص گروہ معصوم افراد کو گمراہ کرتا تھا، انہیں اغوا کرتا تھا اور ان سے تاوان وصول کرتا تھا۔ اسی گروہ نے اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں پر حملے کیے ہیں، جو کہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔‘‘
پاکستانی صحافی اور ٹی وی شو ’نیا پاکستان‘ کے اینکر طلعت حسین نے احسان اللہ احسان کی ویڈیو کے حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’یہ طالبان کی سرگرمیوں کا مرکزی کردار رہا ہے، اس نے تمام بڑے واقعات کی ذمہ داریاں قبول کی ہیں۔ یہ میڈیا کو ہدایات جاری کرتا تھا اور باقاعدہ طور پر انفارمیشن کی جنگ کا سربراہ رہا ہے اور اس نے یہ تمام تر کام تب کیے ہیں، جب طالبان کی دہشت گردانہ کارروائیاں عروج پر تھیں۔ اسے ٹی ٹی پی کے نظام کا بہت اچھی طرح علم ہے۔‘‘
طلعت حسین کہتے ہیں کہ تحویل میں جو بیان سامنے آئے گا ظاہری بات ہے کہ اس کی صحت کمزور ہوگی لیکن اس کے بیان سے پاکستان کی ریاست کے بیانیے کو تقویت ملے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ریاست کے کیس کو اس کے بیان سے کافی سہارا ملے گا۔‘‘
پشاور میں آج نیوز کی بیورو چیف فرزانہ علی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’یہ حکیم اللہ محسود کا دست راست تھا، یہ مہمند گروہ کے بھی بہت قریب تھا۔ مجھے وہ سینکڑوں دہشت گردانہ کارروائیاں یاد ہیں، جن کی ذمہ داری اس نے قبول کی، اس نے میڈیا کو بھی بہت دھمکیاں دیں اور میڈیا کے نمائندوں کے قتل کی بھی ذمہ داری قبول کی۔ احسان اللہ احسان نے صحافیوں کے قتل کی ذمہ داریاں قبول کیں۔ کئی صحافی دھمکیوں کے باعث شدید ذہنی دباؤ کا شکار رہے۔ اس کی گرفتاری ایک بڑی کامیابی ہے۔‘‘
سوشل میڈیا پر بھی پاکستان تحریک طالبان کے ترجمان کی اس ویڈیو پر تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ کالم نگار ندیم فاروق پراچہ نے اس حوالے سے اپنی ٹوئٹ میں لکھا،’’شرمندگی کا کوئی اظہار نہیں، نہ ہی عام شہریوں، پولیس اور فوجیوں کے قتل عام پر کوئی شرمندگی۔‘‘ صحافی مبشر علی زیدی نے لکھا،’’ پچھلے ماہ تک احسان اللہ احسان پاکستانیوں کے بہیمانہ قتل کی ذمہ داری قبول کر رہا تھا اور اب کہہ رہا ہے کہ وہ معصوم ہے۔‘‘
احسان اللہ احسان انفارمیشن کی جنگ کا سربراہ رہا ہے، طلعت حسینتصویر: Getty Images/AFP/H. Muslim
سماجی کارکن گلالئی اسماعیل نے تاہم اس ویڈیو کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا،’’یہ کیسے ممکن ہوا کہ احسان اللہ احسان عسکریت پسند سے محب وطن بن گیا ہے ؟ ایسی ویڈیوز کے منظر عام پر آنے سے ماتھے پر بل پڑھنے چاہیں اور سوچنا چاہیے کہ کس طرح سے یہ ویڈیو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے بیانیے کو سہارا دے رہی ہے کہ دیکھو ہم نہ کہتے تھے کہ ’را‘ اور ’افغانستان‘ اچھے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔‘‘
طلعت حسین نے ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان کے مستقبل کے حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ ویڈیو سے ایسا لگتا ہے کہ وہ وعدہ معاف گواہ بن گیا ہے اس توقع پر کہ اس کی جان بچ جائی گی لیکن اس کا فیصلہ تو عدالتی کارروائی سے ہی ہوگا۔ جس قسم کے بڑے حملوں میں یہ ملوث رہا ہے اور اس نے ریکارڈ پر ان کا دفاع کیا ہے اور اس نے قتل اور فتنے کی سازش کا دفاع کیا ہے، مجھے نہیں لگتا کہ اس کی جان بخشی ہو جائے گی۔ ایسا لگتا ہے کہ ریاست اس کے بیان سے فائدہ اٹھائے گی اور جو سزا اس کو اعترافی بیان سے قبل ملنی تھی، وہ اب بھی ملے گی۔‘‘
پاکستان: گزشتہ ایک عشرے کے بدترین دہشت گردانہ حملے
پاکستان نے 2001ء میں امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘ میں شمولیت اختیار کی تھی اور تب سے ہی اسے عسکریت پسندوں کے حملوں کا سامنا ہے۔ پاکستان میں ہونے والے گزشتہ ایک عشرے کے خونریز ترین بم دھماکوں پر ایک نظر !
تصویر: Picture-Alliance/AP Photo/A. Butt
2007ء: سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو پر حملہ
اٹھارہ اکتوبر کو کراچی میں مقتول سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو پر حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں ایک سو انتالیس افراد ہلاک ہوئے۔ یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا تھا، جب بے نظیر اپنی آٹھ سالہ جلا وطنی ختم کر کے پہلی مرتبہ واپس پاکستان پہنچی تھیں اور ایک جلوس میں شریک تھیں۔ بے نظیر بھٹو کو اُسی برس ستائیس دسمبر کو ایک خود کش حملے سے پہلے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Khawer
2008ء: واہ کینٹ میں حملہ
اکیس اگست سن دو ہزار آٹھ کو اسلام آباد کے نواح میں واقع واہ کینٹ میں اسلحہ کی ایک فیکٹری (پی او ایف) میں ہوئے دوہرے خود کش بم دھماکے کے باعث چونسٹھ افراد مارے گئے تھے۔ یہ پاکستان کی تاریخی میں کسی فوجی تنصیب پر بدترین حملہ تھا۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
2008ء: اسلام آباد کے لگژری ہوٹل پر حملہ
بیس ستمبر کو اسلام آباد کے فائیو اسٹار میریٹ ہوٹل پر حملہ کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں ساٹھ افراد لقمہٴ اجل بنے تھے۔ اس حملے میں دو سو سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں پانچ غیرملکی بھی شامل تھے جبکہ زخمی خیر ملکیوں کی تعداد پندرہ تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Matthys
2009ء: پشاور میں حملہ
اٹھائیس اکتوبر سن دو ہزار نو کو پشاور کے ایک مرکزی بازار میں ہوئے ایک کار بم حملے کے نتیجے میں ایک سو پچیس جانیں ضائع ہو گئی تھیں جبکہ زخمیوں کی تعداد دو سو سے بھی زائد تھی۔ اس حملے کی ذمہ داری طالبان اور القاعدہ دونوں ہی نے قبول کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A Majeed
2009ء: لاہور نشانے پر
دسمبر میں پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور کی مون مارکیٹ میں یکے بعد دیگرے دو بم دھماکے ہوئے، جن کے نتیجے میں چھیاسٹھ افراد مارے گئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر خواتین شامل تھیں۔
تصویر: DW/T.Shahzad
2010ء: والی بال میچ کے دوران حملہ
سن دو ہزار دس میں پاکستان کے لیے یکم جنوری کا دن ہی اداسی لے کر آیا تھا۔ اس دن بنوں ضلع میں اس وقت خود کش حملہ کیا گیا تھا، جب لوگ والی بال کا ایک میچ دیکھنے ایک گراؤنڈ میں جمع تھے۔ اس کارروائی میں ایک سو ایک افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Azam
2010ء: احمدیوں پر حملہ
اٹھائیس مئی کے دن لاہور میں اقلیتی احمدیوں کی دو مساجد پر حملہ کیا گیا، جس میں بیاسی افراد ہلاک ہوئے۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس ان حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی تھی۔
تصویر: Getty Images/N. Ijaz
2010ء: ایک قبائلی مارکیٹ میں حملہ
تین ستمبر سن دو ہزار دس کو قبائلی علاقے مومند میں ایک مصروف مارکیٹ کو ایک خود کش بمبار نے نشانہ بنایا تھا، جس میں ایک سو پانچ افراد لقمہٴ اجل بنے۔ بعد ازاں پانچ نومبر کو ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی ایک خود کش حملہ ہوا، جس میں اڑسٹھ افراد ہلاک ہوئے۔ اس مرتبہ انتہا پسندوں نے نماز جمعہ کے دوران ایک مسجد کو نشانہ بنایا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Majeed
2011ء: ڈیرہ غازی خان اور چارسدہ میں تباہی
تین اپریل سن دو ہزار گیارہ کو دو خود کش حملہ آوروں نے ڈیرہ غازی خان میں واقع ایک صوفی مزار کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں پچاس افراد مارے گئے۔ اس برس تیرہ مئی کو بھی دو خود کش بمباروں نے چارسدہ میں واقع پولیس کی ایک تربیت گاہ کو ہدف بنایا، اس خونریز کارروائی کی وجہ سے اٹھانوے افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/H. Ahmed
2013ء: اقلیت پر حملے
سولہ فروری دو ہزار تیرہ کو کوئٹہ کے ہزارہ ٹاؤن میں ایک بم دھماکا کیا گیا، جس میں 89 افراد مارے گئے۔ اس حملے میں بھی شیعہ ہزارہ کمیونٹی کو ہدف بنایا گیا تھا۔ بائیس ستمبر کو پشاور میں اس وقت بیاسی افراد مارے گئے تھے، جب دو خود کش بمباروں نے شہر میں واقع ایک چرچ کو نشانہ بنایا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
2014ء: اسکول پر بہیمانہ حملہ
سولہ دسمبر کا دن پاکستان میں قہر کا باعث بن گیا تھا۔ اس دن شدت پسندوں نے پشاور کے ایک اسکول پر حملہ کرتے ہوئے ایک سو چوّن افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر بچے ہی تھے۔ اسی برس دو نومبر سن دو ہزار چودہ کو پاکستان اور بھارت کے مابین واقع مرکزی سرحدی گزر گاہ کے قریب ہی ایک خود کش حملہ ہوا تھا، جس میں پچپن افراد لقمہٴ اجل بنے تھے۔
تصویر: AFP/Getty Images/A Majeed
2015ء: شیعہ کمیونٹی ایک مرتبہ پھر نشانہ
تیس جنوری کو صوبہٴ سندھ میں شکارپور کی ایک مسجد پر حملہ کیا گیا، جس میں باسٹھ افراد مارے گئے تھے۔ تیرہ مئی کو شدت پسندوں نے کراچی میں شیعہ اقلیت کی ایک مسجد کو نشانہ بنایا اور 45 افراد کو ہلاک کر دیا۔ پاکستان میں یہ پہلا حملہ تھا، جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
2016ء: لاہور پارک بم دھماکا
ستائیس مارچ کو لاہور میں واقع بچوں کے ایک پارک پر حملہ کیا گیا، جس میں 75 افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں بچے بھی شامل تھے۔ اس حملے میں بھی مسیحی اقلیت کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali
2016ء: کوئٹہ ہسپتال دھماکا
آٹھ اگست 2016ء کو کوئٹہ کے سول ہسپتال میں خود کش حملہ کیا گیا، جس میں کم ازکم ستر افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ اس حملے کی ذمہ داری داعش کے علاوہ طالبان نے بھی قبول کی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
کوئٹہ میں پولیس اکیڈمی پر حملہ
کوئٹہ میں دہشت گردی کی ایک کارروائی کے نتیجے میں کم ازکم انسٹھ افراد ہلاک جبکہ سو سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔ فوج کے مطابق اس مرتبہ نقاب پوش خود کش حملہ آوروں نے پولیس کی ایک تربیتی اکیڈمی کو نشانہ بنایا ہے۔ اس حملے میں زندہ بچ جانے والے ایک زیر تربیت پولیس اہلکار کا کہنا ہے،’’جنگجو سیدھے ہماری بیرک میں پہنچے اور انہوں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ ہم چیختے چلاتے بیرک میں ادھر ادھر بھاگنے لگے۔‘‘