اگر آپ کسی فٹ پاتھ پر یا کسی پارک میں جا رہے ہیں اور آپ کو سیاہ پروں والا ایک نوجوان سا کوا ادھر ادھر چھپنے کی جگہ ڈھونڈتا نظر آئے، تو آپ کہیں اس کی مدد کرنے رک تو نہیں جائیں گے؟
اشتہار
یہ ممکن ہے کہ آپ اپنے گھر کے باغیچے میں جائیں یا فٹ پاتھ پر چل رہے ہوں اور آپ کو کچھ بکھرے بکھرے پروں کے ساتھ ایک کوا کسی الجھی ہوئی جھاڑی یا کسی کھڑی گاڑی کے نیچے چھپنے کی کوشش کرتا ملے۔ آپ اس کی جانب بڑھیں تو وہ اڑنے کے بجائے بس آپ کو گھورنے لگے یا خود کو چھپانے کی کوشش جاری رکھے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ 'بے وقوفانہ‘ انداز سے چھپنے کی کوشش کرنے والا یہ پرندہ فٹ پاتھ سے نیچے اترے اور چلتی گاڑیوں کی جانب بڑھ جائے۔
ظاہر ہے یہ کوّا بچہ ہے اور اڑ نہیں سکتا۔ ایسے میں ممکن ہے کہ آپ کا جی چاہے کہ آپ اس کی مدد کریں اور اس کی زندگی بچا لیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ایسے میں آپ کو کرنا کیا چاہیے؟
اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے اگر کوے کے ایسے کسی بچے کے لیے کوئی براہ راست یا فوری خطرہ موجود نہ ہو، تو اسے نظر انداز کر کے آگے بڑھ جائیے کیوں کہ آپ کی اچھی نیت اس کوے کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے۔
چوں کہ گھونسلا چھوڑنے کے وقت کوے کا یہ بچہ اپنے حجم میں قریب اپنے ماں باپ جتنا ہی ہوتا ہے، اس لیے ایسا عین ممکن کہ آپ کا سامنا ایسے کسی کوے کے بچے سے ہوا بھی ہو، مگر آپ نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے ہوں۔
کوّے ہم جیسے نہیں؟
کوّے بچوں کے معاملے میں بڑے عجیب ہیں۔ کیوں کہ ان کے بچے ابھی ٹھیک سے اڑنا سیکھتے بھی نہیں کہ انہیں ماں باپ کا گھونسلا چھوڑنا پڑتا ہے اور ایسا عموماﹰ اڑنے کی مکمل صلاحیت سے سات تا دس روز قبل ہوتا ہے۔ ماہرین حیاتیات کہتے ہیں کہ دیگر پرندوں کے بچے گھونسلے تب چھوڑتے ہیں، جب وہ اڑنے لائق ہوں اور ایک طرح سے مکمل خود مختار ہوں۔
کوّوں کی یوں وقت سے پہلے گھونسلا چھوڑ دینے کی حکمت عملی گو کہ ان کی زندگی کو 'خطرے‘ میں ڈال سکتی ہے تاہم اس پرندے کے لیے یہی موزوں ہے۔ بچوں کو گھونسلوں سے جلد نکال دینے کی اس 'سفاکانہ‘ حکمت عملی کے ذریعے فقط وہی کوے باقی بچتے ہیں، جو مضبوط ہوں۔ ظاہر ہے انسانی نکتہء نگاہ سے یہ کوئی بہترین عمل تو نہیں مگر فطرت انسانوں کی سوچ سے زیادہ گہری ہے۔
الوداع اے پیارے پرندوں، الوداع اے مہمانوں
ماحولیاتی اور معاشرتی تبدیلیاں کروڑوں انسانوں کی مہاجرت کا سبب بن رہی ہیں۔ ايسے ميں ماحولیاتی تغیر و قدرتی نظام کی تباہی دور دراز کے علاقوں سے نقل مکانی کر کے پاکستان آنے والے پرندوں کی آمد میں بھی کمی کا سبب بن رہی ہیں۔
تصویر: Bilal Qazi
عقابی اُلو (Eagle Owl)
بھورے رنگ کے اس اُلو کا شمار اپنی طرح کے جانوروں کی چند بڑی اقسام میں ہوتا ہے۔ یہ اُلو یورپ، ایشیا اور شمالی افریقہ میں پایا جاتا ہے اور یہ بڑے جانوروں کا شکار بھی کرتا ہے۔ اس کے پر دو سے تین فٹ لمبے ہوتے ہیں اور اس کی اوسط عمر تقریباﹰ بیس سال ہوتی ہے۔
تصویر: Bilal Qazi
نیلی دم والا مگس خور (Blue-tailed Bee Eater)
بہت طویل مسافتوں تک نقل مکانی کرنے والے اس پرندے کا تعلق شمال مشرقی ایشیا سے ہے۔ اس کی خوراک عموماﹰ کیڑے مکوڑے ہوتے ہیں۔ سال کے مختلف موسموں میں مسلسل ہجرت کرتے رہنے کے لیے مشہور یہ پرندہ زیادہ تر جھیلوں کے آس پاس پایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں شہروں کے پھیلاؤ، غیر منظم سیاحت اور انسانوں کے ہاتھوں پرندوں کے مخصوص ماحولیاتی نظاموں کو جو نقصان پہنچا ہے، اس نے اس مگس خور کے طرز زندگی کو بھی متاثر کیا ہے۔
تصویر: Bilal Qazi
لکیروں والے سر والی مرغابی (Bar-Headed Goose)
یہ دلکش پرندہ گرمیوں میں وسطی ایشیا جبکہ سردیوں میں جنوبی ایشیا کی جانب ہجرت کرتا ہے۔ بہت زیادہ اونچائی پر پرواز کرنے والے پرندوں میں اس کا شمار تیسرے نمبر پر ہوتا ہے۔ یہ اکثر انتیس ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہوئے ماؤنٹ ایورسٹ اور ہمالیہ کے پہاڑوں کے اوپر فضا میں اڑتا دکھائی دیتا ہے۔ ہجرت کے دوران یہ پرندہ ایک دن میں اوسطاﹰ ایک ہزار میل تک کا سفر طے کرتا ہے۔
تصویر: Bilal Qazi
سرمئی سر والا واربلر (Grey Hooded Warbler)
اس بہت نازک سے اور انتہائی خوبصورت پرندے کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں۔ یہ عموماﹰ جنوبی پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ ننھا منا ہونے کے باعث اس پرندے کا وزن انتہائی کم ہوتا ہے۔ اس کا جسم تقریباﹰ دس سینٹی میٹر تک لمبا ہوتا ہے اور یہ خوراک میں مختلف طرح کے کیڑے مکوڑے شوق سے کھاتا ہے۔
تصویر: Bilal Qazi
ایک منفرد شاہین (Pallas Fish Eagle)
اس شکاری پرندے کا تعلق وسطی اور جنوبی ایشیا سے ہے۔ اس کا شمار ناپید ہو جانے کے خطرے سے دوچار پرندوں میں ہوتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی شدت اور کم ہوتے ہوئے سرسبز علاقوں اور آبی خطوں کے سبب ایسے پرندوں کے ناپید ہو جانے کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔ میٹھے پانی کی مچھلی اس شکاری پرندے کی محبوب خوراک ہے اور اس کا وزن تقریباﹰ چھ کلو گرام تک ہوتا ہے۔
تصویر: Bilal Qazi
نارنجی دھاری والا بُش روبن (Orange Flanked Bush Robin)
بہت حسین رنگوں سے آراستہ یہ ننھا منا سا پرندہ ہجرت کرتا ہوا پورے کے پورے براعظم پار کر جاتا ہے۔ یہ سردیاں ایشیا میں گزارتا ہے اور گرمیوں کی آمد پر یورپ کا رخ کر لیتا ہے۔ ایسے انتہائی کم جسمانی وزن والے کروڑوں پرندے ہر سال ایک محدود عرصے کے لیے پاکستانی جھیلوں اور ڈیموں کے کنارے یا پھر ان گیلے سرسبز خطوں میں قیام کرتے ہیں، جنہیں ماحولیاتی ماہرین ’ویٹ لینڈز‘ یا گیلی زمینوں کا نام دیتے ہیں۔
تصویر: Bilal Qazi
ہیرون (Heron)
لمبی چونچ والا یہ پرندہ تقریباﹰ پوری دنیا میں پایا جاتا ہے، خاص کر آبی علاقوں کے قرب و جوار میں۔ مچھلی اور آبی کیڑے اس کی مرغوب ترین خوراک ہوتے ہیں۔ ایسے پرندے گروہوں کی شکل میں رہتے اور غول بن کر اڑنا پسند کرتے ہیں۔ کسی بھی ہیرون کی اوسط عمر بیس سال کے قریب ہوتی ہے۔
تصویر: Bilal Qazi
فیزنٹ کی دم والا جاکانا (Pheasant-tailed Jacana)
لمبی ٹانگوں اور چوڑے پنجوں والا، بھورے اور سفید رنگوں والا یہ پرندہ مشرق وسطیٰ اور ایشیا کے گھنے جنگلوں کے درمیان ہجرت کرتا ہے۔ یہ جاکانا کی واحد قسم ہے، جو بہت طویل فاصلے طے کر سکتی ہے۔ نر پرندہ مادہ سے زیادہ لمبے جسم کا حامل ہوتا ہے۔ پرندوں کی بین الاقوامی اور بین البراعظمی ہجرت پر منفی اثرات کی بڑی وجوہات میں زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ، جنگلات کا خاتمہ اور آبی علاقوں کا کم ہوتا جانا شامل ہیں۔
تصویر: Bilal Qazi
بگلا (Stork)
یہ طویل القامت، لمبی ٹانگوں اور لمبی چونچ والا پرندہ عموماﹰ جھیلوں کے کنارے پایا جاتا ہے۔ اس کی یہ قسم زیادہ تر شمالی امریکا اور آسڑیلیا میں دیکھنے میں آتی ہے۔ اس بگلے کی کئی اقسام ایشیا میں بھی پائی جاتی ہیں۔ اس کی خوراک زیادہ تر مچھلیاں اور چھوٹے حشرات ہوتے ہیں۔
تصویر: Bilal Qazi
سیٹیاں بجاتی بھوری بطخ (Lesser Whistling Duck)
اس خوش آواز پرندے کو انڈین وِسلنگ ڈک بھی کہا جاتا ہے۔ یہ پرندہ جنوبی ایشیائی خطوں میں پایا جاتا ہے اور اپنے گھونسلے اکثر درختوں پر بناتا ہے۔ اس کی غذا میں زیادہ تر گھاس پھوس اور چھوٹے حشرات شامل ہوتے ہیں۔ یہ پرندہ بیک وقت بارہ انڈے دیتا ہے۔ اس کے چہچہانے کی آواز ایسی ہوتی ہے، جیسے کوئی بڑی سریلی سیٹی بجا ر ہا ہو۔
تصویر: Bilal Qazi
بڑا فلیمنگو (Greater Flamingo)
گلابی رنگ والا لمبے قد کا یہ دلکش پرندہ گریٹر فلیمنگو افریقہ، جنوبی ایشیا اور جنونی یورپ میں پایا جاتا ہے۔ اس کی اوسط عمر تیس سے چالیس سال تک ہوتی ہے۔ اس کی خوراک مچھلی اور دریائی کیڑے مکوڑے ہوتے ہیں اور اس کا وزن چار سے پانچ کلو گرام تک ہوتا ہے۔
تصویر: Bilal Qazi
سینڈ پائپر (Sand piper)
بھورے رنگ کے اس پرندے کی دنیا بھر میں کئی قسمیں پائی جاتی ہیں اور یہ پرندہ کرہ ارض کے تقریباﹰ سبھی خطوں میں پایا جاتا ہے۔ اس کی پسندیدہ خوراک مچھلی ہے اور یہ اکثر عمر بھر اپنے ایک ہی ساتھی کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ یہ زمین پر یا کسی بھی کھلی جگہ پر اپنا گھونسلہ بناتا ہے اور بیک وقت تین سے چار تک انڈے دیتا ہے۔
تصویر: Bilal Qazi
فوٹوگرافر بلال قاضی
گزشتہ آٹھ برسوں سے پاکستان بھر میں پیشہ وارانہ بنیادوں پر جنگلی حیات کی فوٹوگرافی کرنے والے بلال قاضی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں کل تقریباﹰ 780 اقسام کے پرندے پائے جاتے ہیں اور وہ اب تک تین سو سے زائد انواع کے پرندوں کی تصاویر بنا چکے ہیں۔ ان کے بقول موسمیاتی تبدیلیوں اور غیر قانونی شکار کے باعث بھی نقل مکانی کر کے پاکستان آنے والے پرندوں کی تعداد اب پندرہ سے تیس فیصد تک کم ہو چکی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
13 تصاویر1 | 13
کوے نے بچوں کو لاورث نہیں چھوڑا
یہ ممکن ہے کہ آپ سمجھیں کہ یہ نوجوان کوا لاوارث پھر رہا ہے، مگر حقیقت میں ایسا نہیں۔ آزادی اور خود مختاری سے قبل 'کمزوری‘ کے ان ایام میں اس کوے کے ماں باپ اسے کھلاتے پلاتے ہیں اور اس کے تحفظ کی کوشش کرتے ہیں۔ نہ اڑ پانے والے یہ کوے آپ کو زیادہ تر مئی کے آخر اور جون میں دکھائی دیں گے۔ سو آپ کو ایسا کوئی کوا دکھائی دے، تو یہ مت سمجھیے کہ اسے ماں باپ نے لاوارث چھوڑ دیا ہے۔
کیا کوا گھونسلے سے گرا ہے؟
کسی پرندے کا اپنے گھونسلے سے گرنا ایک غیرمعمولی واقعہ ہوتا ہے۔ ایسا فقط اس صورت میں ہوتا ہے، جب گھونسلے کو کسی وجہ سے باقاعدہ نقصان پہنچا ہو۔ نوجوان کوے کو دیکھ کر یہ مت سوچیے کہ یہ گھونسلے سے گرا ہے۔ یہ کمزوری کا مرحلہ نہایت مختصر دورانیے کا ہے۔ اگر یہ کوا آپ کے باغیچے میں ہے، تو فقط یہ کیجیے کہ اس مختصر وقت کے لیے اپنی پالتو بلی یا کتے کو اس سے دور رکھیے۔
واضح رہے کہ گھونسلا پرندوں کے رہنے کی جگہ نہیں بلکہ انڈے اور بچے رکھنے کی جگہ ہوتا ہے۔ ایسے پرندے بہت کم ہیں، جو باقاعدہ گھونسلا بناکر رہتے ہیں۔
تو کیا مدد نہ کی جائے؟
اگر کوئی نوجوان کوا زخمی ہے یا اس کے بال و پر اڑے ہوئے ہیں یا وہ کسی بلی یا کتے کے حملے کا شکار ہوتے ہوتے بچا ہے، تو ضرور مدد کیجیے، مگر عام حالات میں اگر آپ نے اس کی مدد کرنے کی خاطر اسے اٹھا لیا، گھر لے آئے یا چھپانے کی کوشش کی، تو یہ اس پرندے کی زندگی کے لیے ٹھیک نہیں ہو گا، کیوں کہ اس طرح آپ حقیقت میں اس کا رابطہ اس کے ماں باپ سے توڑنے کا باعث بن سکتے ہیں۔
اگر کوئی کوا زخمی ہے یا آپ کو ڈر ہے کہ اس پر کوئی بلی یا کتا حملہ کرنے والے ہیں، تو ایسی صورت میں بھی زیادہ سے زیادہ مدد یہ کیجیے کہ کوئی عارضی سا گھونسلا بنا کر اسے اس میں رکھ دیجیے اور بس۔
کوے بے حد ذہین ہوتے ہیں
سائنسی تحقیق کے مطابق کوے ہاتھیوں، زرافوں اور چمپینزیزجیسے ان نادر جانوروں میں شامل ہیں، جو موت کا دکھ مناتے ہیں۔ سائنس بتاتی ہے کہ یہ زبردست ابلاغی قوت کے حامل بھی ہوتے ہیں، حتیٰ کہ کسی مخصوص واقعے کی صورت میں کسی انسان کا چہرہ تمام عمر یاد رکھنے تک کی صلاحیت کے حامل بھی۔