امیر اور ولاء کے لیے یونان میں مزید رہنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ کبھی کبھار تو وہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ وہ دوبارہ شورش زدہ ملک شام واپس چلے جائیں، جہاں سے فرار ہونے کی خاطر انہوں نے اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال دی تھیں۔
اشتہار
تھکن اور بے چینی کے شکار امیر کا کہنا ہے، ’’میں جانتا ہوں کہ شام میں جنگ جاری ہے، وہاں بمباری روز کا معمول بن چکی ہے۔ لیکن وہاں موت صرف ایک مرتبہ ہی آتی ہے، یہاں ہمیں روز مرنا پڑتا ہے۔ یہاں یونان میں تو ہر دن ہی بُرا ہوتا ہے۔‘‘ گزشتہ چھ ماہ سے وہ اپنی اہلیہ ولاء اور دو بچوں کے ساتھ ایک ٹینٹ میں رہنے پر مجبور ہیں۔
بحیرہ ایجیئن کے کنارے پر واقع خیوس نامی جزیرے پر اپنی رات دن گزارنے والا یہ جوڑا پناہ کی اپنی درخواست تسلیم کیے جانے کا متمنی ہے لیکن امیدیں دم توڑتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ شام میں یہ دونوں ٹیچر کے طور پر کام کرتے تھے لیکن مہاجرت کے بعد اب یونان میں نہ تو ان کے پاس کوئی ملازمت ہے اور نہ ہی پیسے۔ سودا مہاجر کیمپ میں رہائش پذیر وہ ایسے ہزاروں افراد میں سے ہیں، جو یونان کے متعدد مہاجر کیمپوں میں ابتر حالات میں رہنے پر مجبور ہیں۔
سودا کیمپ میں مہاجرین کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ اس کیمپ میں رات کے وقت ہلڑ بازی ایک عام سی بات بن چکی ہے۔ ولاء نے روئٹرز کو بتایا کہ وہ غروب آفتاب کے بعد اپنے ٹینٹ سے نہیں نکلتی کیونکہ وہ خوفزدہ ہے۔ وہ اپنے چھ اور آٹھ سالہ دو بچوں کے لیے بھی فکرمند رہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہاں لوگ اکثر ہی رات کے وقت شراب کے نشے میں دھت جھگڑا کرتے رہتے ہیں۔
امیر اور ولاء شامی شہر حمص سے فرار ہو کر ترکی کے راستے انیس مارچ کو یونان پہنچے تھے۔ اس کے ایک دن بعد ہی ترکی اور یورپی یونین کے مابین مہاجرین سے متعلق ایک معاہدے پر عملدرآمد شروع ہو گیا تھا، جس کے تحت ایسے مہاجرین کو واپس ترکی روانہ کر دیا جائے گا، جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو جائیں گی۔ اس جوڑے کے دو مرتبہ انٹرویوز ہو چکے ہیں لیکن انہیں نہیں معلوم کہ پناہ کی درخواست پر کیا جواب سامنے آئے گا۔
روئٹرز سے گفتگو میں پریشان حال شامی مہاجر خاتون ولاء نے کہا، ’’ہم انتظار کر رہے ہیں۔‘‘ چائے میں چینی ملاتے ہوئے روہانسی آواز میں ان کا مزید کہنا تھا، ’’لیکن کس بات کا انتظار کر رہے ہیں، یہ ہمیں معلوم نہیں ہے۔‘‘
مہاجرین جیل خانوں میں خوش
بہت سے دیگر مہاجرین کی طرح شازیہ لطفی بھی جیل خانے میں ہیں۔ انیس سالہ شازیہ نے کوئی جرم نہیں کیا لیکن وہ خانہ جنگی سے فرار ضرور ہوئی ہے۔ ہالینڈ میں بہت سے مہاجرین سابقہ جیل خانوں میں عارضی پناہ حاصل کیے ہوئے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
ایک بستر، دو کرسیاں اور ایک کی بورڈ
ستائیس سالہ حامد کرمی اور اس کی پچیس سالہ اہلیہ فرشتے مورحیمی افغانستان سے فرار ہو کر یورپ پہنچے۔ انہیں ہارلیم کی ایک سابقہ جیل میں رہائش ملی ہے۔ حامد کی بورڈ بجاتا ہے جبکہ اس کی اہلیہ سر دھنتی ہے۔ معلوم نہیں کہ آیا یہ شادی شدہ جوڑا یورپ رہ سکے گا یا نہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
’ڈی کوپل‘ میں زندگی
ہارلیم کا سابقہ قید خانہ ’ڈی کوپل‘ کچھ یوں دکھتا ہے۔ سینکڑوں مہاجرین کو یہاں رہائش فراہم کی گئی ہے۔ ان میں سے ایک پچیس سالہ رعد احسان بھی ہے، جو ایران سے یورپ پہنچا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
جیل تو جیل ہی ہوتی ہے
اگرچہ ڈچ حکام نے ان سابقہ جیل خانوں کی تعمیر نو کرتے ہوئے انہیں آرام دہ بنانے کی کوشش کی ہے تاکہ یہاں قیام پذیر مہاجرین کا خیال رکھا جا سکے۔ تاہم جیل تو جیل ہی ہوتی ہے۔ اونچی دیواریں اور حفاظتی باڑیں حقیقی کہانی بیان کرتی ہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
چائے کا کپ
حیات اللہ کا تعلق افغانستان سے ہے۔ وہ اس عارضی رہائش گاہ میں اپنے کمرے کے باہر بیٹھا چائے سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ تئیس سالہ یہ افغان مہاجر اس سابقہ جیل خانے میں خوش ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
صومالیہ سے ہارلیم تک
صومالی خاتون کو ایک علیحدہ کمرہ دیا گیا ہے۔ اجاوا محمد کی عمر اکتالیس سال ہے۔ وہ بھی یہاں دیگر مہاجرین کی طرح اپنی پناہ کی درخواست پر فیصلے کی منتظر ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
افغانستان، صومالیہ اور عراق۔۔۔
دنیا کے مختلف ممالک سے لوگ یورپ پہنچے ہیں۔ وہ یہاں امن اور سکون کی زندگی بسر کرنے کے خواہاں ہیں۔ چوبیس سالہ یاسر حجی اور اس کی اٹھارہ سالہ اہلیہ گربیا کا تعلق عراق سے ہے۔ یہ خاتون یہاں کسی باربر یا بیوٹی سیلون نہیں جاتی بلکہ اس کا شوہر ہی اس کا خیال رکھتا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
کپڑے دھونے کا انتظام
مہاجرین کو اس سابقہ جیل خانے میں تمام سہولیات حاصل ہیں۔ یہاں ان کے لیے واشنگ مشینیں بھی ہیں تاکہ وہ اپنے میلے کپڑوں کو دھو سکیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
ہم جنس پرستی کی سزا نہیں
یہ نوجوان مراکش سے آیا ہے۔ وہاں اس ہم جنس پرست نوجوان کو جان کا خطرہ تھا۔ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر اس کی شناخت ظاہر نہیں کی جا رہی ہے۔ لیکن یورپ میں اسے اپنے جسنی میلانات کے باعث اب کوئی خطرہ نہیں ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
عبادت کا وقت
فاطمہ حسین کا تعلق عراق سے ہے۔ پینسٹھ سالہ یہ خاتون بھی شورش سے فرار ہو کر ہالینڈ پہنچی ہے۔ اس نے ایسوسی ایٹڈ پریس کے فوٹو گرافر محمد محسین کو حالت نماز میں تصویر بنانے کی اجازت دی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
آزادی سلب نہ کی جائے
چالیس سالہ ناران باتار کا تعلق منگولیا سے ہے۔ وہ ہارلیم کی سابقہ جیل کے باسکٹ بال کورٹ میں کھیل کر لطف اندوز ہوتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر اسے واپس روانہ نہیں کیا جاتا تو آزاد رہے گا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
10 تصاویر1 | 10
جب سے بلقان ریاستوں نے یونان سے متصل اپنی سرحدی گزر گاہوں کو بند کیا ہے، یونان میں مجموعی طور پر ستاون ہزار مہاجرین پھنس کر رہ گئے ہیں۔ ان میں زیادہ تر شامی، افغان اور عراقی ہیں۔ انسانی حقوق کے اداروں نے کہا ہے کہ ان مہاجرین کو انتہائی ابتر حالات کا سامنا ہے، اس لیے عالمی برادری کو اس بحران پر قابو پانے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرنا چاہییں۔
یونان کے اسی مہاجر کیمپ میں موجود ایک اور شامی مہاجر محمد الجاسم کے مطابق اس کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا تھا، اس لیے وہ دیر الزور سے فرار ہونے پر مجبور ہوا۔ اس نے کہا کہ وہ لوگوں کو نہیں مارنا چاہتا تھا، اسی لیے اس نے ہتھیار اٹھانے کے بجائے شام چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس چھبیس سالہ طالب علم کے مطابق وہ جرمنی جانے کو خواہشمند ہے۔