مجھ سے ملیے، میں ہوں زمین
24 اگست 2021آگ کے گولے سے اپنے سفر کا آغاز کرنے والا سیارہ زمین کروڑوں برسوں سے زندگی کی معاونت کا ضامن ہے۔ اربوں انواع کی مخلوقات اس زمین سے اپنی بقا جوڑے ہوئے ہیں جب کہ یہ سیارہ خود بھی اربوں سال پرانا ہے، مگر ماحولیاتی تبدیلیوں اور تیزی سے وقوع پذیر ہوتے ردوبدل سے واضح ہے کہ زمین زندگی کی بقا کی ضمانت واپس بھی لے سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اپنے اس سیارے کو ٹھیک سے جانا جائے۔ آئیے سیارہ زمین سے متعلق کچھ دلچسپ باتیں جانتے ہیں۔
سیارہ زہرہ کے دوہرے فلائی بائی کی تیاری
زمین کے چاند اور مریخ کے بعد خلائی تسخیر میں ناسا کا اگلا ہدف زہرہ
زمین، نظام شمسی میں ہمارا گھر
ہمارا سیارہ زمین نظام شمسی کا تیسرا سیارہ ہے۔ گو کہ سائنس دان ایک طویل عرصے سے کائنات کے دیگر مقامات پر زندگی کے سراغ کی کوشش میں ہیں، تاہم اب تک کی انسانی معلومات کے مطابق زمین وہ واحد مقام ہے، جہاں زندگی کی اربوں انواع موجود ہیں۔
نظام شمسی میں زمین پانچواں سب سے بڑا سیارہ ہے۔ اس سے بڑے تمام سیارے یعنی مشتری، زحل، یورینس اور نیپچون گیس سے بنے ہیں۔ باقی سیارے عطارد، زہرہ، زمین اور مریخ چٹانی ہیں اور زمین نظام شمسی کے تمام چٹانی سیاروں میں سے سب سے بڑا ہے۔
زمین کا مجموعی قطر قریب تیرہ ہزار کلومیٹر ہے اور اس کے گول ہونے کی وجہ اس کی کششِ ثقل ہے، جو ہر شے کو مرکزی نکتے کی جانب کھینچ رہی ہے۔ تاہم گھومنے کی وجہ سے زمین ایکویٹر کے قریب پھولی ہوئی اور قطبین پر دبی ہوئی ہے۔ اس لیے زمین کی اصل شکل بیان کرنا ہو تو سمجھیے وہ ہو گی 'بیضوی‘۔
زمین خود میں ایک کائنات
ہمارا سیارہ کئی وجوہ کی بنا پر بے حد انوکھا ہے۔ اس سیارے کی دو اہم شناختیں ہیں: پانی اور آکسیجن۔ پانی زمینی سطح کے 71 فیصد پر پھیلا ہوا ہے، جس کا زیادہ تر حصہ سمندروں پر مشتمل ہے جب کہ زمینی کرہء ہوائی کا پانچوں حصہ آکسیجن ہے۔
زمین سورج کے گرد تو چکر لگا ہی رہی ہے، مگر ساتھ ہی خود اپنے محور پر بھی لٹو کی طرح گھوم رہی ہے۔ زمین کو اپنے محور پر ایک گردش مکمل کرنے میں 23.93 گھنٹے لگتے ہیں، یعنی ایک دن چوبیس گھنٹوں کا نہیں ہوتا بلکہ چوبیس گھنٹوں سے کچھ ساعتیں کم کا ہوتا ہے۔ اسی طرح زمین سورج کے گرد ایک مکمل چکر 365.26 دنوں میں طے کرتی ہے۔ اسی لیے ہر چار برس کے بعد لیپ کا سال (فروری کے 29 دن) 366 دنوں کا رکھا گیا ہے۔
سورج سے بہترین فاصلہ
زمین سورج سے جس فاصلے پر ہے، اسے 'گولڈ لاک زون‘ کہتے ہیں۔ یہ ٹھیک وہ مقام ہے، جہاں درجہ حرارت پانی کو مائع حالت میں رکھنے کے لیے درکار ہوتا ہے۔ درجہ حرارت کم ہو تو پانی برف کی شکل میں ٹھوس ہو جاتا ہے اور درجہ حرارت زیادہ ہو تو پانی بھاپ کی صورت میں گیس بن جاتا ہے۔ زمین کا سورج کے گرد مدار عین دائروی نہیں بلکہ نظام شمسی کے دیگر سیاروں کی طرح بیضوی ہے۔ ہمارا سیارہ جنوری کے مہینے میں سورج کے قدرے قریب اور جولائی کے مہینے میں قدرے دور ہوتا ہے، تاہم اس حرکت کا زمین پر درجہ حرارت پر زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ زمین پر درجہ حرارت کو زمین کی محوری گردش متاثر کرتی ہے۔
زمین کتنی پرانی ہے؟
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ زمین تقریباﹰ ساڑھے چار ارب سال قبل سورج بننے اور یوں نظام شمسی پیدا ہونے کے وقت وجود میں آئی۔ سورج جلتی گیس کا ایک غبارہ ہے، جو اپنی ہی تجاذبی قوت کے بل پر اپنے ہی اندر گرنے والی گیس اور وہاں ہائیڈروجن کے ہیلیم میں بدلنے والے عمل ایتلاف کا مرقع ہے۔ سورج کے وجود میں آتے ہوئے خلائی گرد کا زیادہ تر حصہ تو سورج ہی میں سما گیا، تاہم بچی کھچی گرد نے نظام شمسی کے سیارے اور خلائی چٹانیں، دم دار ستارے اور خلائی پتھر بنائے۔
ابتدا میں زمین پر ایک طویل عرصے تک خلائی چٹانوں اور پتھروں کی بارش جاری رہی۔ تب ظاہر ہے زمین پر زندگی نہیں تھی۔ تاہم سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہی خلائی پتھر زمین پر پانی لانے کی وجہ بنے۔ ماہرین کے مطابق قریب پانچ سو ملین برس قبل بھی زمین پر پانی کی مائع حالت میں موجودگی کے شواہد ملتے ہیں۔
زمین ہے کیسی؟
زمین کی سطح جسے قشتر ارض کہا جاتا ہے، دراصل نہایت باریک سی جھلی ہے۔ یہ سطح زیادہ سے زیادہ ستر کلومیٹر گہری ہے۔ زمین کا Inner core یا مرکزی مقام ٹھوس لوہے اور نکل کا بنا ہوا ہے، جب کہ آؤٹر کور یا مرکزے کا بیرونی حصہ لوہے اور نکل کی مائع شکل میں ہے۔ اس بیرونی مرکزے اور زمین کی سطح کے درمیان کا فاصلہ تقریباﹰ 29 سو کلومیٹر کا ہے۔ زمین کا ٹھوس مرکزہ مجموعی طور پر قریب 26 سو کلومیٹر کا ہے جب کہ آؤٹر کور ساڑھے بائیس سو کلومیٹر کا۔ اس کے بعد زمین کا مینٹل ہے، یہ تہہ تقریباﹰ 29 سو کلومیٹر موٹی ہے۔
زمین کے مرکزے میں لوہے کی موجودگی اور پھر زمین کی اپنے محور پر حرکت کی وجہ سے زمین اپنے گرد ایک مقناطیس میدان بناتی ہے۔ یعنی یوں کہنا مناسب ہو گا کہ زمین ایک گھومتا ہوا مقناطیس ہے۔ اسی مقناطیس کی وجہ سے سورج سے نکلنے والی تاب کار شعاعیں اور ذرات زمین کی سطح پر نہیں پہنچ سکتے بلکہ زمین کا الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ یا برقناطیسی میدان انہیں باہر ہی سے دفع کر دیتا ہے، جب کہ ایسے ذرات جو زمین تک پہنچتے بھی ہیں، وہ بھی قطبین کی جانب مڑ جاتے ہیں۔ قطب شمالی حتیٰ کہ یورپ کے انتہائی شمالی علاقوں میں ناردرن لائٹس اسی مظہر کا ثبوت ہیں۔اگر زمین کا مقناطیسی میدان موجود نہ ہو، تو سورج کی تاب کار شعاعیں زمین پر زندگی کا خاتمہ کر دیں۔
پھر زمین کا کرہ ہوائی، یعنی زمین کے سطح سے اوپر چاروں جانب ایک نظر نہ آنے والے غبارے کی طرح بہت سی گیسوں کی موجودگی زمین پر زندگی کی ضمانت دیتی ہے۔ یہی کرہ ہوائی زمین کی جانب بڑھنے والے خلائی پتھروں کو رگڑ کی قوت کے ذریعے ہوا ہی میں جلا کر خاک کر دیتا ہے۔ اگر یہ کرہ ہوائی نہ ہو، تو بھی زمین پر زندگی کا کوئی امکان بھی باقی نہ بچے۔
جھکنا ہی زندگی ہے
اگر قطبین کو ایک فرضی لکیر کی طرح جوڑا جائے، تو زمین قریب 23 درجے کے جھکاؤ کی حامل ہے۔ یہی جھکاؤ اصل میں زمین پر موسموں کا سبب بنتا ہے۔ یہی جھکاؤ ہے جو خط استوا سے اوپر کے ممالک میں گرمیوں اور ٹھیک اسی وقت خط استوا سے نیچے کے ممالک میں سردیوں کا سبب بنتا ہے۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اگر یہ جھکاؤ نہ ہو، تو زمین پر موسم معتدل رہتے ہیں۔ یہ مستقل جھکاؤ ہی ہے، جس کی وجہ سے زمین پر زندگی پھلتی پھولتی ہے۔
زندگی کی معاونت آسان نہیں
چاہے وہ زمین کا حجم ہو یا زمین کے مرکزے میں موجود لوہا، زمین کا سورج سے فاصلہ ہو یا زمین کا کرہ ہوائی، چاند کی موجودگی ہو یا زمین کی محوری اور مداروی گردشیں، تمام تر عناصر اتنے اہم ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی کم ہو جائے، تو زمین زندگی کی معاونت ختم کر دے۔
اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ زمین کا مرکزہ بھی وہی ہے اور زمین کا سورج سے فاصلہ بھی، چاند بھی اتنی ہی دوری پر ہے اور زمین کی محوری اور مداروی گردش بھی، فقط زمین کے کرہ ہوائی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی موجودگی میں اضافہ ہوا ہے، تو اس کا نتیجہ کروڑوں کی تعداد میں مختلف مخلوقات کے خاتمے کی صورت میں نکلا ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اگر زمینی کرہ میں ضرر رساں گیسوں کا اخراج جاری رہا، تو زمینی درجہ حرارت میں تیز رفتاری سے اضافہ ہو گا۔ واضح رہے کہ زمینی درجہ حرارت میں فقط دو ڈگری اضافہ کیا جائے، تو تقریباﹰ 16 فیصد انواع اپنی بقا کے خطرے سے دوچار ہو جائیں گی۔
اگر یہ اضافی درجہ حرارت پانچ درجے سینٹی گریڈ تو ہو جائے، تو سمندری سطح میں دس سے ساٹھ میٹر تک کا اضافہ ہو گا، جب کہ سمندروں کے کنارے آباد تقریباﹰ تمام شہر ختم ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ زمین پر موجود حیات کا ایک بڑا حصہ تلف ہو جائے گا۔
زمین نے زندگی کی ضمانت دے رکھی ہے، مگر یہ ایک باریک رسی پر چلنے جیسا عمل ہے۔ کسی ایک بھی عنصر میں ذرا سی لغزش کا مطلب ہے ایک بانجھ سیارہ۔