1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

محرومی اور بغاوت، ظلم کے خلاف کسانوں کی جدوجہد

27 فروری 2022

تاریخ بتاتی ہے کہ ایک طاقت ور طبقہ ہمیشہ سے زرعی شعبے کے مزدوروں اور کسانوں کو استحصال کا نشانہ بناتا ہے۔ ڈاکٹر مبارک علی کے اس بلاگ میں تاریخ کے تناظر میں اس استحصال اور اس کے خلاف بغاوتوں کی کہانی پڑھیے۔

Mubarak Ali
تصویر: privat

آبپاشی کے نظام میں وجود میں آنے والی ریاست کی آمدنی کا انحصار زمین کی پیداوار اور اس پر لگائے جانے والے لگان پر ہوتا ہے۔ اس لیے آبپاشی والی ریاست(Irrigation State)میں کسانوں کی اکثریت پیداوار کا ذریعہ ہوتی ہے جبکہ اقلیت غیر پیداواری شعبے سے جڑی ہوتی ہے، لیکن وہ اپنی فوجی طاقت سے کسانوں کی پیداوار کا بڑاحصہ ہتھیا لیتی ہے اور کسانوں کے پاس اتنی کم مقدار چھوڑتی ہے کہ وہ مشکل سے گزارہ کر سکیں۔

تاریخ میں ایسے حکمران بھی رہے ہیں جنہیں کسانوں کی محنت کا اندازہ تھا اور وہ ان کی خوشحالی قائم رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ قحط اور خشک سالی میں اس کی مدد کرتے تھے، لیکن زیادہ تر حکمران ایسے رہے ہیں جنہوں نے جبر اور سختی کے ساتھ نہ صرف ان کسانوں کی پیداوار پر قبضہ کیا، بلکہ ان پر نئے نئے ٹیکس لگا کر ان کی زندگی اجیرن کر دی۔

جیمز ایس اسکاٹ نے اپنی کتاب(The Moral Economy of the Peasant)   یا زرعی مزدوروں کی اخلاقی معیشت میں برما کے کسانوں کے بارے میں لکھا ہے۔ جب اس علاقے پر انگریزوں نے قبضہ کیا تو وہ اپنے ساتھ ہندوستانی فوج اور انتظامیہ کے عہدیداروں کو بھی لے کر گئے۔ انگریزی حکومت کا اولین مقصد یہ تھا کہ برما میں نئے نئے ٹیکس لگا کر اپنی آمدنی میں اضافہ کریں تاکہ اس آمدنی سے نہ صرف اپنے عہدیداروں اور فوج کے اخراجات پورے کریں بلکہ زائد سرمایے کو برطانیہ بھیج کر اس کی مالیت میں اضافہ کریں۔ اس پالیسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر چیز پر ٹیکس لگا دیا گیا۔ مثلاً اب تک کسان جنگلات کی پیداوار سے فائدہ اٹھاتے تھے اس کے درختوں سے لکڑی حاصل کرتے تھے اور پھل والے درختوں سے گزارا کرتے تھے اور پھلوں کو اپنی غذا بناتے تھے، لیکن اب حکومت نے جنگلات کو اپنی جائیداد بنا لیا اور کسانوں کے لیے ممنوع قرار پایا کہ وہ اس کی پیداوار کو استعمال کریں۔ اس کے ساتھ ہی شکار پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ تالاب سے مچھلیاں پکڑنا بھی جرم قرار پایا، وہ خالی زمین جس پر کسی کا قبضہ نہیں تھا اور جہاں کسان اپنے مویشی چراتے تھے اس پر بھی پابندی عائد کر دی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کسانوں کے پاس غذا کے حصول کے ذرائع ختم ہو گئے۔ مزید براں ان پر نئے نئے ٹیکس لگائے گئے۔ جیسے تہواروں پر، شادی بیاہ کی تقریبات پر یہاں تک کہ چاول سے شراب کشید کرنے پر بھی، لیکن ان سب سے زیادہ وہ ٹیکس لوگوں کے لیے ایک بوجھ تھا جو ہر شخص کے سرپر لگایا تھا۔ یعنی اگر کسی خاندان میں پانچ افراد ہیں تو انہیں پان سروں (Head Tax) دینا ہو گا۔

ٹیکسوں کی وصولی کے لیے ریاست کی جانب سے منظم طریقہ اختیار کیا گیا۔ سرکاری عہدیداروں نے ایک ایک گائوں کا سروے کیا۔ اس میں لوگوں کے اعداد و شمار جمع کیے اور پھر فوج کی مدد سے یہ ٹیکس وصول کیا گیا۔ جو کسان یہ ٹیکس نہیں دے سکتے تھے انہیں اپنے مویشی فروخت کرنا پڑے اور اگر کسی کے پاس تھوڑی بہت زمین تھی تو وہ اس سے بھی محروم ہو گیا۔کسانوں کی چونکہ کوئی تنظیم نہ تھی اور نہ ہی وہ پڑھے لکھے تھے۔ اس لیے ان کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہ تھا کہ وہ اپنے مطالبات پیش کریں اور نوآبادیاتی حکومت پر زور ڈالیں کہ وہ ان کی صورت حال کو سمجھیں اور ان کو بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کا حق دیں۔

اس صورت حال کے دو نتائج نکلے۔ ایک تو یہ کہ کچھ کسانوں نے اپنے گروہ بنائے جنہوں نے روزگار کے اصول کے لیے ڈاکا زنی شروع کر دی۔ لیکن ظاہر ہے ڈاکا زنی کے ذریعہ وہ پرامن زندگی نہیں گزار سکتے تھے اور ریاست بھی انہیں مجرم قرار دے کر ختم کرنے کا حق رکھتی تھی۔ اس لیے ان حالات کے تحت ایک منظم بغاوت ابھری۔

اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ کسانوں کو اس قدر دباکر رکھا جاتا ہے کہ ان میں نہ تو بغاوت کا کوئی جذبہ پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی وہ متحد ہو کر اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کر سکتے ہیں، لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ کسان اس حد تک باشعور ہوتے ہیں کہ ان پر جو ظلم کیا جاتا ہے اور جس طرح ان کا استحصال ہوتا ہے اس سے وہ بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ لیکن وہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ بغاوت کی صورت میں ان کا مقابلہ ایک تربیت یافتہ فوج سے ہو گا جو جدید اسلحے سے لیس ہو گی، جبکہ کسانوں کے پاس نہ تو اسلحہ ہوتا تھا اور نہ فوجی تربیت اس لیے بغاوت میں کامیابی مشکوک رہتی تھی۔

لیکن اس مایوس کن ماحول میں اکثر ایسے رہنما پیدا ہوئے جنہوں نے کسانوں کی اس مایوسی اور بددلی کو بدلا اور ان میں امید کی روش پیدا کی۔ مثلاً برما میں جب 1930ء کی دہائی میں کسانوں کی بغاوت ہوتی ہے تو اس کا رہنما ساسین تھا۔ اس نے کسانوں کو یہ پیغام دیا کہ وہ وقت آنے والا ہے جب حالات بدلیں گے غیر ملکی حکومت کا خاتمہ ہو گا اور ایسا معاشرہ پیدا ہو گا جس میں کوئی ٹیکس نہیں ہوں گے۔ اس نے یہ اعلان کیا کہ بغاوت کی کامیابی کے بعد اگر وہ بادشاہ بنا تو ظلم اور جبر کا خاتمہ کرکے عوام کو خوشی اور مسرت دے گا۔ ریاست کی فوج سے مقابلہ کرنے کے لیے اس کا کہنا تھا کہ عوام کو حکومت کے دفتروں اور اداروں پر حملہ کر دینا چاہیے۔ حکومت کے اسلحے پر قبضہ کرنا چاہیے اور انگریزوں سمیت غیر ملکیوں کو قتل کر دینا چاہیے۔

ساسین نے لوگوں کی نفسیات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا کہ اگر لوگ اپنے جسم پر ٹیٹوز کھدوا لیں گے اور بازوؤں پر تعویز باندھ لیں گے تو گولی ان پر اثر نہیں کرے گی۔ بغاوت کو پھیلانے کے لیے وہ گاؤں گاؤں گیا۔ لوگوں سے خطاب کیا اور انہیں حوصلہ دیا کہ وہ متحد ہو کر جنگ کریں گے تو اسی صورت میں اپنے ملک کو آزاد کرا سکیں گے۔ اگرچہ یہ بغاوت کافی پھیلی ہوئی تھی لیکن ظاہر ہے ریاست کی منظم فوج کا مقابلہ کرنے کی اس میں ہمت نہ تھی، لہٰذا حکومت نے ہندوستانی فوجیوں کی مدد سے اس بغاوت کو سختی سے کچل ڈالا۔ اس میں تین ہزار افراد مارے گئے۔ بڑی تعداد میں پھانسیاں دی گئیں۔ ساسین کو بھی پھانسی کی سزا دی گئی تھی اور وہ بے خوفی سے تختہ دار پر چڑھ گیا۔

اگرچہ بغاوت کا خاتمہ تو ہو گیا مگر اس نے انگریزی حکومت کے تسلط اور ظلم کو بھی ظاہر کیا اور ان کے اس دعوے کا بھی جھوٹا قرار دیا گیا جس میں وہ کہتے تھے کہ ان کی حکومت عوام کے لیے باعث رحمت ہو گی، لیکن اس بغاوت نے یہ ثابت کیا کہ انگریزی حکومت کا مقصد اپنی کالونیوں کا استحصال تھا اور انہوں نے عوام کی حالت کو بہتر بنانے کے بجائے انہیں اور زیادہ مالی ذرائع حاصل کرنے کا راستہ اختیار کیا۔ لہٰذا کسانوں کی یہ بغاوتیں فقط برما میں نہیں ہوئیں، بلکہ ویتنام میں بھی ہوئیں جہاں فرانسیسیوں کا سیاسی تسلط تھا۔ انہوں نے بھی کسانوں کو نچوڑ کر غریب اور مفلس بنایا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نوآبادیاتی حکومتیں مالی وسائل کے حصول کے لیے سرگرم رہیں اور عوامی فلاح و بہبود سے اس کا بہت کم تعلق رہا ہے۔

جب بھی کوئی طبقہ یا گروہ ظلم اور استحصال کے خلاف بغاوت کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں اس کے اندر کی توانائی اور خواہشات بیدار ہو جاتی ہیں۔ اس کی شناخت جو اب تک گمنامی میں تھی وہ پوری قوت سے ظاہر ہو کر اپنی شناخت کو پیدا کرتی ہے۔ بغاوت اگرچہ ناکام ہو بھی جائے تو یہ اپنے پیچھے جدوجہد کی تاریخ چھوڑ جاتی ہے۔ ظلم پر خاموش رہنے کے بجائے اس کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔ یہ ایک منجمد معاشرے کو ہلا کر اس کی روایات کو چیلنج کرتی ہے۔ حکمران طبقہ بھی اس سے یہ سیکھتا ہے کہ بغاوت کو وقتی طور پر کچلا تو جا سکتا ہے مگر آزادی کی خواہش کو دبایا نہیں جا سکتا۔

سزاؤں کے ڈر سے باغی اپنے راستے سے نہیں بھٹکتے۔ سزاؤں کے ذریعے انہیں ختم بھی کر دیا جائے، تو یہ آنے والی نسلوں کو اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کا حوصلہ دیتے ہیں۔ برما کے کسانوں کا رہنما ساسین اگرچہ پھانسی پا گیا مگر آج وہ برما کی تاریخ کا اور عوام کا ہیرو ہے۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں