1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

محفوظ بچپن: بچوں کے تحفظ کے لیے ایک مہم

دانش بابر، پشاور
28 مئی 2018

پاکستان میں بچوں کے خلاف پیش آنے والے جنسی واقعات نے عام شہریوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اس حوالے سے نہ صرف سخت قانون سازی بلکہ والدین، اساتذہ اور بچوں میں شعور پیدا کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔

Pakistan - Landesweite Kampaqne um Kinder zu schützen
تصویر: D. Baber

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی میڈیا ٹرینر اور سماجی کارکن بشری اقبال نے ’محفوظ بچپن‘ کے نام سے ایک ملک گیر مہم شروع کی ہے، جس کا مقصد عام شہریوں کو یہ شعور فراہم کرنا ہے کہ کس طرح بچوں کو جنسی، جسمانی اور ذہنی طور پر ہراساں ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔

 اس حوالے سے بشری اقبال نے پشاور اور اسلام آباد میں مختلف مقامات پر متعدد آگاہی ورکشاپس اور سیمینارز کا انعقاد کیا، جن میں مختلف مکاتب فکر کے افراد نے رضاکارانہ طور پر حصہ لیا۔ بشری اقبال نے اپنی اس مہم کے آغاز میں اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں آگاہی پروگرام منعقد کروائے جب کہ بعد میں سوشل میڈیا کی اہمیت کے مدنظر #MehfoozBachpan کے ہیش ٹیگ سے ایک باقاعدہ مہم بھی شروع کی گئی۔
اس مہم کے حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے بشری اقبال کا کہنا تھا کہ قصور میں رونما ہونے والے واقعات اور اس کے بعد خیبرپختونخوا کے بعض اضلاع کے واقعات سے انہوں نے یہ محسوس کیا کہ ان تمام معاملات میں کسی نہ کسی طرح متاثرین کے واقف کار لوگ ہی ملوث تھے جب کہ ان بچوں کی عمریں بھی قریب دس سال یا پھر اس سے کم تھیں۔ بشری اقبال سمجھتی ہیں،’’جب بچوں کو گھر پر ذیادہ توجہ نہیں مل رہی ہوتی تو ایسی صورت میں بچے جلد اور آسانی کے ساتھ دوسرے لوگوں کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔‘‘ اس مہم کے بارے میں ان کا مزید کہنا تھا، ’’محفوظ بچپن کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، محفوظ گھر، محفوظ اسکول یا مدرسہ اور محفوظ کھیل کے میدان۔‘‘
بشری اقبال کے مطابق محفوظ گھر ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔ والدین کی ذمہ داری صرف بچوں کو کھلانے پلانے اور پڑھانے تک محدود نہیں ہے بلکہ ان کومحفوظ گھر بھی فراہم کرنا ہے، جہاں ان کو پیاراور توجہ ملے جب کہ محفوظ اسکول اور مدرسے کا مقصد بچوں کو تعلیم کے لئے صحت مند ماحول کی فراہمی ہے، ’’بچوں کو اسکولوں میں ایسا ماحول دیا جائے جہاں پر مار پیٹ کی بجائے پیار سے پڑھائی ہو اور بچوں کو جسمانی اور ذہنی طور پر ہراساں نہ کیا جائے۔ جب کہ محفوظ کھیل کے میدان بھی بچوں کے لئے بہت ضروری ہیں۔‘‘
پشاور کے پوش علاقے حیات آباد کے رہائشی عثمان غنی بشری اقبال اور ان کے ساتھیوں کے شروع کردہ اس آگاہی مہم سے کافی خوش ہیں، ’’میرا بیٹا تیسری کلاس میں پڑھتا ہے، کچھ دن پہلے وہ سکول نہ جانے کی ضد کر رہا تھا۔ وقاص کے سکول نہ جانے کی وجہ اس کے چند کلاس فیلوز ہیں جوکہ وقاص کو اس کے موٹے پن پر تنگ کرتے تھے۔‘‘
وہ مزید بتاتے ہیں، ’’گوکہ یہ ایک چھوٹی سی بات ہے اور اسکول اور دوسری درس گاہوں میں بچے اس قسم کی شرارتیں کرتے ہیں لیکن اس طرح بچوں پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔‘‘ عثمان سمجھتے ہیں کہ یہ اساتذہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بچوں کو اسکولوں میں محفوظ ماحول فراہم کریں کیونکہ گھر کے بعد اسکول ہی وہ جگہ ہے جہاں بچے ذیادہ وقت گزارتے ہیں۔
ورلڈ سائیکارٹسٹ ایسوسی ایشن کے نمائندہ ماہر نفسیات پروفیسر ڈاکٹرخالد مفتی بھی اس مہم کا حصہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان سمیت دنیا کے تمام ترقی پذیر ممالک کے قریب پچاس فیصد بچوں کے جنسی طور پر ہراساں ہونے کے امکانات دوسرے ممالک کے مقابلے میں ذیادہ ہیں۔ ڈاکٹر مفتی کہتے ہیں کہ ایک روایتی معاشرے اور تعلیم کی کمی کی وجہ سے والدین اور اساتذہ بچوں کے ساتھ اس موضوع پر بات کرنا مناسب نہیں سمجھتے، جس کی وجہ سے اس قسم کا خلا پیدا ہوتا ہے۔ ان کے بقول محفوظ بچپن جیسے آگاہی پروگراموں کی بدولت بیک وقت طالب علم، والدین، اساتذہ، ماہرین نفسیات اور مذہبی رہنما اکٹھے بیٹھ کر معاشرے میں شعور پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ’’نہ صرف غریب لوگ بلکہ تمام بچے غیرمحفوظ ہوگئے ہیں، محفوظ گھر، محفوظ اسکول، محفوظ کھیل اور محفوظ بچپن تمام بچوں کی بنیادی ضرورت ہے۔‘‘
ڈاکٹر مفتی مزید کہتے ہیں کہ محفوظ بچپن کیمپین کے مثبت نتائج کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس مہم کو ملک بھر میں پذیرائی مل رہی ہے اور تعلیمی اداروں کے سربراہان ان کی ٹیم کو آگاہی پروگراموں کے لئے دعوت دے رہے ہیں۔ 
محفوظ بچپن ٹیم کے ایک اور نمائندے ریاض غفور، جوکہ ایک مقامی کالج میں لیکچرار ہیں، اس مہم کے بارے میں کہتے ہیں،’’میں سمجھتا ہوں کہ اس کیمپین کی جتنی ضرورت پہلے تھی، اس سے کہیں زیادہ اب ہے۔ ہماری خاندانی زندگی میں بڑا خلا والدین اور بچوں کے درمیان سنجیدہ گفتگو کا فقدان ہے۔ ان جیسی سرگرمیوں اور سیمینارز منعقد کروانے سے مکالمے کی فضا کو تقویت ملے گی۔ جس کی وجہ سے بچے جنسی اور ذہنی ہراسگی سمیت دیگر معاشرتی رویوں کے بارے میں کھل کر اظہار کر پائیں گے۔‘‘
ریاض غفور مزید کہتے ہیں کہ اس مہم کا ایک یہ فائدہ بھی ہے کہ ذہنی کوفت کے شکار بچوں کا علاج جلد اور احسن طریقے سے ممکن ہو سکے گا۔

تصویر: D. Baber
تصویر: D. Baber
اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں